پنجاب یونیورسٹی، جمیعت اور چارسال


\"fasi-malik\"گزشتہ کچھ دنوں سے اس فورم پر پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت کے اثر رسوخ پر گرما گرم باتیں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ جس میں دونوں جانب سے خوب تنقید و تردید کی گئی ہے۔ محترم سلیم ملک صاحب کے مقالے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے غالباً اسی کی دہائی کے آواخر میں پنجاب یونیورسٹی سے اپنی ڈگری مکمل کر لی تھی۔ میرا پنجاب یونیورسٹی کا تجربہ ان سے تقریباً بیس برس بعد کا ہے۔ میں بھی جمیعت کے کچھ ایسے ہی کارنامے بیان کرنے والا ہوں جن کے بارے میں میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی یونیورسٹی میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس سے یونیورسٹی کے تعلیمی میعار اور طلباء کی ذہنی رجحانات، دونوں پر کافی منفی اثر پڑتا ہے۔

میں پنجاب یونیورسٹی میں 2005 میں بی ایس کے طالب علم کے طور پر داخل ہوا۔ اسلامک سنٹر ہوسٹل رہنے کو ملا اور اتفاق دیکھیے کہ کمرہ بھی وہ ملا جس کی دیوار ناظمِ جمیعت کے کمرے کے ساتھ مشترک تھی۔ ایک دن میرا روم میٹ موبائل پر رنگ ٹونز اس نیت سے سن رہا تھا کہ کوئی گھنٹی کالر ٹون کے طور پر لگا لے۔ بس کچھ ہی لمحات گزرے تھے کہ جمیعت کے ایک رکن کمرے میں داخل ہوئے اور موبائل فون چھین کر لے گیا۔ جب بعد میں واپس لینا چاہا تو وارننگ ملی کہ ہوسٹل میں گانے سننا ممنوع ہے لہذٰا آیئندہ آپ کے موبائل سے گانوں کی آواز نہ آئے۔

یونیورسٹی میں تقریباً ہر شعبہ کے پرانے طالب علم نئے آنے والوں کو ویلکم پارٹی دیتے ہیں۔ ایسے ہی ہم بھی ایک پارٹی کی تیاری میں مصروف تھے۔ تقریباً چار بجے کے قریب ہم سارے ہم جماعت ٹینٹ لگانے میں مصروف تھے اور ایک دوست نے موبائل پر گانے لگائے ہوے تھے کہ فوراً جمیعت کے کچھ جوان آئے اور ہاتھا پائی شروع کر دی۔ وہ تو شکر ہو کہ سیکیورٹی گارڈ آ گئے اور انہوں نے وائس چانسلر کے حوالے سے ان کو بھگا دیا۔ (یاد رہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ہی اس وقت وی سی تھے اور ہمیں کوانٹم میکانیات کا مضمون بھی پڑھاتے تھے۔ مزید وہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر شعبہ میں منعقد تقریباً ہر پارٹی پر کچھ دیر کے لیے لازمی آتے تھے)۔

وقت گزرنے کے ساتھ جمیعت کے بہت سارے کارکنوں سے جان پہچان ہو گئی تھی تو ان سے اندر کی باتیں پتہ چلتی رہتی تھیں۔ زیادہ تر طالب علم اس لیے جمیعت میں شامل تھے کہ ویسے یہ لوگ خواہ مخواہ تنگ کرتے ہیں، جب اندر ہیں تو سب جائز ہے۔ ایسے ہی طالب علموں میں میرا اپنا ہم جماعت بھی شامل تھا۔

یہ تمام چھوٹے چھوٹے واقعات تھے جن کو شاید میں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ مگر ایک واقع میرے اپنے ساتھ ایسا پیش آیا جس نے مجھے یہ احساس دلایا جیسے میں ایک آزاد تعلیمی ادارے میں نہیں بلکہ کسی کا غلام بن کر رہ رہا ہوں ۔ مجھے اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے کی اجاز ت نہیں ہے بلکہ کسی کے اشارے پر چلنا ہے۔ ہوا یوں کہ میری بہن نے اپنا مقالہ پرنٹ کروانا تھا اس نے مجھے بھی شاپنگ سنٹر بلا لیا تا کہ میں دوکان دار سے  خود بات کر لوں ۔ مقالہ دوکان دار کے ہاتھ تھما کر میں  بہن کے ساتھ گراونڈ میں بیٹھ گیا۔ ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ جمیعت کے چار لحیم شحیم جوان وہاں آ پہنچے اور مجھے گریبان سے پکڑ کر دور لے گئے۔ ۔ مجھے وجہ معلوم تھی کہ یہ اس طرح کی نازیبا حرکتیں کیوں کر رہے لہذٰا انہیں یقین دلانے کی پوری کوشش کی کہ جیسا وہ سمجھ رہے ہیں ویسا نہیں ہے اور وہ محترمہ جو میرے ساتھ بیٹھی ہیں میری اپنی ہی بہن ہیں۔ مگر انہیں نہ ماننا تھا نہ مانے۔ کافی دیر بحث کرنے کے بعد بات اس طرح حل ہوئی کہ میں خدا کی قسم کھاؤں اور بہن سے جا کر کہوں کہ وہ ادھر سے جائے اور دوبارہ کسی لڑکی کے ساتھ نظر نہ آؤں چاہے وہ میری بہن ہی کیوں نہ ہو۔

یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھائی بہن تو دور اگر کوئی لڑکا لڑکی بھی اکٹھے بیٹھتے یا کھاتے ہیں تو جمیعت  کو کیا مسئلہ ہے؟ جب ان کے گھر والوں کو مسئلہ نہیں ہے تو جمیعت والے کس کھاتے میں آتے ہیں؟ یہ کیوں کسی کو خواہ مخواہ تنگ کرتے ہیں؟

یہ جن چیزوں سے دوسروں کو منع کرتے تھے وہی چیزیں ناظم کے اپنے کمرے سے وافر مقدار میں مل جاتی تھی مثلاً شراب ، سگریٹ وغیرہ۔ ( میرے نزدیک سگریٹ کوئی ایسی برائی نہیں ہے مگر کئی بار جمیعت والوں نے میرے دوستوں کو سگریٹ پینے پر ہراساں کیا ہے)۔ اور تو اور میرا ایک دوست ، جس نے جمیعت کے ایک ناظم کے ساتھ دوستی بنا لی تھی، اکثر فحش فلمیں(پورن) بھی ناظم صاحب کے کمپیوٹر سے ہی لے آتا تھا۔

یہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی بھی لڑکی جمیعت کی رکن نہیں بن سکتی سرا سر جھوٹ ہے۔ کئی جمیعت کے لوگوں نے میرے جاننے والی بہت ساری طالبات کو جمیعت میں شامل ہو کر ان کے لیے کام کرنے کی دعوت دی  تھی۔ اس کے لیے وہ مذہب کا بھر پور استعمال کرتے تھے کہ ہمارا مذہب ہمیں اس چیز کی اجازت نہیں دیتا لہذٰا آپ اس کو روکنے میں ہمارے ساتھ چلیں۔ لڑکیوں کے ہوسٹل سے بھی ایسی باتیں اکثر  سنے کو ملتی رہتی تھی۔ کسی کے ساتھ غصہ نکالنا ہوتا تو چند مومن بہنوں سے مدد لیتے تھے۔ جس میں مومنات کا کام صرف اتنا ہوتا تھا کہ \”اس نے مجھ سے بدتمیزی کی\” اور باقی کا کام یہ مذہب کے ٹھیکیدار خود کر لیتے تھے۔

یہ چند واقعات ہیں جومیرے اپنے ساتھ یا قریب قریب  میرے ساتھ ہی پیش آئے یعنی کہ ان لوگوں کے ساتھ جن کے ساتھ میرا زیادہ تر وقت گزرتا تھا۔ اس کے علاوہ ہوسٹل میں بہت سارے لڑکے ایسے تھے جن کو جمیعت والے کمرے میں گھس کر ہراساں  اور مار پیٹ کرتے۔ تین نمبر ہوسٹل میں یہ ایک طالب علم کو پکڑ  کرہوسٹل ناظم کے کمرے میں لے جایاگیا اور مار پیٹ کے بعد اس کی پشت پر جلتی سگریٹ لگا دی گئی۔ ساتھ میں یہ دھمکی بھی دی گئی کہ آئندہ سگریٹ عضو پر اور گرم استری پشت پر لگایئں گے۔ اس کے پیچھے وجہ کیا تھی مجھے آج تک پتا نہیں چل سکی۔ وجہ ہو بھی کیا سکتی ہے؟ میرا نہیں خیال کہ اس لڑکے نے کوئی ایسی حرکت کی ہو جس پر یونیورسٹی انتظامیہ تو چپ رہی ہو پر جمیعت والوں کو یوں ایسی گھٹیا حرکت کرنی پڑی ہو۔

انسان کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ وہ  ماضی میں جو غلطیاں کرتا ہے مستقبل میں ان کو مان بھی لیتا ہے اور ان کو دور کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، بے شک اس نے ماضی میں اس غلطی کو ماننے سے صاف انکار کر دیا ہو۔ مگر میرے جمیعت کے دوست اس خوبی سے عاری ہیں۔ یہ غلطی بھی کرتے ہیں اور پھر ساری  زندگی نہ صرف اس پر ڈٹے رہتے ہیں بلکہ دفاع بھی کرتے ہیں۔ داد تو دینی پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments