جون ایلیا: کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ


چھوٹی بحر کا بڑا شاعر، تیکھے بدن کا بڑا آدمی، سید جون اصغر المعروف جون ایلیا جن کو اہل نظر جون اولیاء بھی کہا کرتے تھے۔ عجیب آدمی گزرا ہے صاحب، پہلے تو سگریٹ کی دھند میں بھٹکتا رہا اور پھر پانیوں میں ڈوب گیا۔

14 دسمبر 1931 کو امروہہ میں جب اس کا ظہور ہوا تو زندگی بھرمرحوم رہا، 8 نومبر 2002 ءکو رزق خاک ہوا تواہل ذوق کے دلوں میں زندہ ہو گیا۔ جون لفظوں کو حکم دیتا اور لفظ اس کی اطاعت میں قطار اندر قطار کیفیات کی انگلی تھامے، درد سمیٹے یوں یکجا ہوتے کہ شاہکار جنم لیتے۔ اس ادھڑے ہوئے آدمی نے لفظوں کو کیفیات کے ساتھ یوں بنا کہ دنیا آج بھی اس کے سحر میں مبتلا ہے۔ جون کے مخصوص انداز کی شاعری میں اداسی چیختی، درد کراہتا اور محرومیاں بین کرتی تھیں۔ اور یہ اداسی اس کے قاری اور سامعین کے رگ و پہ میں اتر جاتی۔ اسی لیے جیسے دیوانے قاری جون کو ملے کسی اور شاعر کے نصیب میں ایسے چاہنے والے نہیں۔ جون ایلیاء نے اپنا بہت سا کلام اپنے ہی اس خیال سے کہ ”وجود خیال کا زوال ہوتا“ اپنے ہی سینے میں لیے منوں مٹی تلے سو گئے۔

ضروری نہیں لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بڑا آدمی دنیا کو فتح کیے ہوتا ہے مگر گھر سے ہارا ہوا ہوتا ہے۔ جون کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کی ازدوجی زندگی ناکام رہی۔ اک خاتوں جو عمر بھر اس کا خواب رہی مگر اس خواب کی تعبیرجون کی محرومی رہی۔

جون کا المیہ تھا کہ خواتین اس کی عزت کرتی تھیں، محبت نہیں کرتی تھیں۔ جون ایلیا کی خواہشیں بھی عجیب تھیں۔ ان کی ایک خواہش تھی کہ کوئی لڑکی ان کی محبت میں خود کشی کر لے۔ ایسا بھی کبھی ہوتا ہے صاحب؟

ایلیاء اپنی ذات میں ایک بزم تھا مگر ہزاروں چاہنے والوں کے ہجوم میں وہ تنہائی سے مر گیا۔ ایسے آدمی کو ذہنی ہم آہنگی کے مطابق لوگ نہیں ملتے۔ تنہائی قطعاً یہ نہیں کہ آدمی اکیلا ہو بلکہ تنہائی تو یہ ہے آدمی مجمع میں ہو اور اکیلا تو نہ ہو، مگر تنہا ہو۔ ایسے آدمی سے لوگ امپریس تو ہوتے ہیں مگر اس کے دوست نہیں ہوتے۔ وہ اکیلا نہ تھا مگر تنہا تھا اور یہ ہر بڑے آدمی کا دکھ ہے، صاحب یہ ہر بڑے آدمی کا دکھ ہے۔

دنیا میں بہت سے ایسے لوگ گزرے جن کے گرد ان کے مداحوں کا ہجوم رہتا تھا مگر وہ تنہائیوں میں مرے۔

 جون لوگوں کو حیران کر دینا چاہتا تھا اور کامیاب ہوا۔ وہ شاعروں کے ہجوم میں ہوتا توبس وہ ہی دکھتا باقی تو سب تمام شد۔

جون ایلیا تم مرے نہیں تمھاری جان چھوٹی۔

اجازت چاہوں گا سماعت میں ایک جانے پہچانے لہجے کی صدا آ رہی ہے۔ آواز تو آدمی کی ہے مگر یوں معلوم پڑتا ہے جیسے کوئی دکھ سے کراہ رہا ہو۔ لگتا ہے جون ایلیاء آسمانوں میں محو سخن ہے۔ غزل سناتا جاتا ہو گا اور سر پیٹتا جاتا ہوگا۔

عمر گزرے گی امتحان میں کیا

داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

میری ہر بات بے اثر ہی رہی

نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں

ہم غریبوں کی آن بان میں کیا

خود کو جانا جدا زمانے سے

آ گیا تھا مرے گمان میں کیا

اے مرے صبح و شام دل کی شفق

تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت

خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا

وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے

اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو

کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

ہے نسیم بہار گرد آلود

خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).