عیدالاضحیٰ: قربانی کا جذبہ کم، دکھاوا زیادہ ہے


کل گلی سے گزرتے ہوئے ایک منظر دیکھنے کو ملا۔ ایک خوبرو نوجوان پتلون قمیض پہنے، دھوپ کا چشمہ لگائے ہاتھ میں بیل کی رسی پکڑے کبھی اس کو آگے لے کر جا رہا تھا تو کبھی پیچھے۔ اس کی اس کیٹ واک کی ویڈیو اس کے گھر کے تین افراد بنا رہے تھے اور اس کو ہدایت بھی جاری کررہے تھے تاکہ ویڈیو میں کوئی خامی نہ رہ جائے اور ویڈیو کو سوشل میڈیا پر لگا کر خوب داد و تحسین سمیٹی جا سکے۔ اس منظر سے گھر کے بچے بھی محظوظ ہو رہے تھے اور نوجوان کی طرح خود بھی ویسے ویڈیو بنوانے کی ضد کر رہے تھے۔ مگر ان کی اس خواہش کوان کے والدین کی طرف سے یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ آپ ابھی چھوٹے ہیں، بیل آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

یہ منظر اس امر کا عکاس ہے کہ ہمارے ہاں عید الاضحیٰ کا تہوار ایثار کے جذبے کی بجائے دکھاوے اور ظاہری شان و شوکت کا شکار ہو گیا ہے۔ عید کے آنے سے پہلے جانوروں کی خریداری سے لے کر ان کو گھر میں رکھنے اور پھر ان کی قربانی ہونے تک کے تمام مراحل کی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خوب تشہیر کی جاتی ہے۔

ٹی وی چینلز کے رپوٹرز حضرات منڈیوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں پر موجود مہنگے سے مہنگے جانوروں کی ویڈیو بناتے ہیں، جو لوگ مہنگے جانور خریدتے ہیں ان کے انٹرویو کرتے ہیں۔ جانوروں کی کیٹ واک کروا کر بھی ان کے پیکج بنائے جاتے ہیں ان سب کو ٹی وی پر بار بار چلایا جاتا ہے۔ لوگوں کی طرف سے بھیجی گئی تصویروں اور ویڈیوز کو بھی دکھایا جاتا ہے۔ اور ایک ہیجان کی سی کیفیت پیدا کردی جاتی ہے۔

اس طرح جب لوگ وہ مہنگے جانور لے کر اپنے گھر آتے ہیں تو سب سے پہلے تو پورے محلے کا ایک چکر لگایا جاتا ہے اور سب کو بتایا جاتا ہے کہ دیکھو کتنے پیسے خرچ کر کے یہ جانور خریدا ہے۔ اور جنھوں نے ایک سے زیادہ خریدے ہوں وہ تو زیادہ جوش وخروش سے بتاتے ہیں۔ پھر اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور باقی سب لوگوں کو بتایا جاتا ہے اور ان سے پوچھا بھی جاتا ہے کہ انھوں نے قربانی کا کیا انتظام کیا ہے۔

اس ساری صورتحال کی وجہ سے اس طرح کے لوگ جو قیمتیں اتنی زیادہ ہونے کی وجہ سے قربانی کرنے کی سکت نہیں بھی رکھتے انھیں بھی سماج کا جھوٹا بھرم قائم رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی انتظام کرنا پڑتا ہے، تاکہ لوگوں کے طعنوں سے بچا جا سکے، حالانکہ قربانی کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو آسانی سے بغیر کسی اضافی بوجھ کے اس کا انتظام کر سکیں۔

پھر جب قربانی کر لی جاتی ہے اور گوشت تقسیم کرنے کی باری آتی ہے۔ جس میں تین حصے کر کے ایک حصہ اپنے لئے، ایک رشتہ داروں اور ایک غریب اور نادار لوگوں کے لیے رکھنا ہوتا ہے اور سب کے لیے ایک جیسا گوشت ہونا چاہیے وہاں پر بھی ڈنڈی مار لی جاتی ہے۔ اورعموماً سب سے اچھا گوشت اپنے لیے رکھا جاتا ہے، اس کے بعد رشتے داروں کے لیے اور آخر میں بچ جانے والا غریب لوگوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ اس عمل سے جو قربانی اور ایثار کی اصل روح ہے اس کو ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔

حالانکہ اس عید کے ایثار کے مقصد کے مطابق ہونا تو اس سے الٹ چاہیے کہ سب سے اچھا اور زیادہ گوشت کا حصہ نادار اور غریب لوگوں کو دیا جانا چاہیے۔ اور جو لوگ ایک سے زیادہ جانور کی قربانی کی استطاعت رکھتے ہیں ان کو چاہیے کہ ایک جانور کی قربانی کر کے باقی کی رقم سے کسی مسحق یا بیمار انسان کی مدد کردینی چاہیے۔ لیکن ہمارے ہاں عید الاضحیٰ پر توجہ قربانی کے جذبے سے زیادہ دکھاوا پر ہوتی ہے اور یہ تہوار بھی شاید مادہ پرستی کا شکار ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).