قربانی قربانی ہوتی ہے بڑے کی ہو یا چھوٹے کی


ذوالحج کا چاند نظر آتے ہی میں نے گھر میں رولا ڈال دیا ہے کہ اب قربانی کا جانور لے آئیں تاکہ ہم بھی آس پڑوس جانور کو لے کر اس کی قدرو قیمت بتانے کے لئے فخر کے ساتھ نکل سکیں۔ میری میاں جی سے یہ بھی فرمائش ہے کہ میں قربانی کا جانور ڈالر کی اونچی اڑان کے حساب سے لوں گی۔ دشمن کا ڈالر مہنگا ہو سکتا ہے ہمارا قربانی کا جانور کیوں نہیں۔ میں بھی اس بار مہنگا جانور خرید کر ہمسائی کو خوب جلاؤں گی جیسے پچھلے سال اس نے مجھے جلایا تھا۔

لیکن میاں جی کا ایک ہی اعلان کہ دکھاوے کے لئے قربانی نہیں کرنی ہے۔ دوسرا وہ کہتے ہیں اگر ہمسائی کو جلانا ہی مقصود ہے تو اس کے لئے تم مجھے ساتھ لے کے جا سکتی ہو کہ میں بھی بہت مہنگا ہوں (کہ بہت منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوا تھا ) سو تم مجھے دکھا کر شو مار سکتی ہو اور اس کا دل بھی جلا سکتی ہو۔ جانے کیسے انھوں نے سیاستدانوں کی طرح تصور کر لیا ہے کہ چوپایوں کی جگہ دو پایوں والوں کی بھی قربانی ہو جاتی ہے۔

اگر ایسا ہوتا تو مجھے ان کی منتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی میں ذاتی جمع پونجی سے بڑا سا مرغا نہ خرید لیتی قربانی کے لئے۔ لیکن کیا ہے کہ دوپایوں والے کی قربانی شرع میں نہیں ہے۔ اب بڑے میں حصہ تو ڈال لیتی لیکن کیا ہے کہ آپا کلثوم تعویذوں والی (جو شوہر کو قابو کرنے کے تعویز دیتی ہے ) نے بچھڑے کا گوشت کھانے سے منع کر رکھا ہے اور میاں جی سالم بکرا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تو پھر پاکستانی حکومت کی طرح ان حالات میں لے دے کے میری ساری امیدوں کا محورو مرکز قرض ہی رہ جاتا ہے جو میں اس کمیٹی سے اتاروں گی جو ابھی ڈالی نہیں۔

بھئی حکومت بھی تو یہی کرتی ہے پہلے قرض کا بندو بست ہوجائے تو پھر اس کے اتارنے کی بھی کوشش کر لیں گے۔ میرے اور حکومتی قرض میں جو قدر مشترک ہے وہ یہی کہ دونوں گرتی معیشت کو سنبھالا دینے کے نام پر لئے جاتے ہیں لیکن در حقیقت اسے ذاتی خواہشات کو پورا کرنے پر صرف کیا جاتا ہے۔ اور دونوں قرض اتارنے کے لئے مزید قرض لیتے ہیں۔

اب قربان کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو خریدنا پڑے گا کہ آخر محلے میں اپنا رعب بھی تو رکھنا ہے اسلامی لحاظ سے یہ قربانی کا مہینہ ہے تو قریبا ہر گھر میں قربانی کے جانور کی ”میں میں اور بھاں بھاں“ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ جس گھر سے جانور کی ”میں میں“ کی آواز نہیں آرہی وہاں سے گھر والوں کی ”تو تو میں میں“ کی آوازیں آتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ہماری سیاست سے آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ آج کل ملکی سیاست پر بھی قربانی کا موسم ہی چھایا ہے۔

اپوزیشن کے بنچوں سے قربانی دینے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں کہ جسے دیکھو یہی کہتا نظر آرہا ہے کہ ہم وطن کی خاطر، جمہوریت کی خاطر قربانی دے رہے ہیں۔ شیخ رشید موجودہ سال سے پہلے پچھلے پانچ سال مسلسل ایک ہی راگ الاپتے رہے کہ قربانی سے پہلے قربانی ہوگی۔ لیکن ان کی یہ پیشنگوئی اس دوران پوری نہ ہو سکی۔ البتہ ان دنوں جتنی سیاسی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ اور عید قرباں سے چند روز قبل جس طرح ضمانت پہ رہا ہوئی مریم بی بی کی گرفتاری ہوئی ہے شیخ رشید چاہتے تو اپنا بیانیہ کیش کروالیتے اور اعلان کر دیتے کہ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا دیر سے ہی سہی مگر قربانی سے پہلے قربانی ہوگئی۔

نیب کی رسی ہے کہ ظالم کی طرح دراز ہوتی جارہی ہے نیب رسی لئے گلی گلی گلے ڈھونڈ رہی ہے۔ ۔ نواز شریف، شہباز، مریم، حمزہ، سعد رفیق، مفتاح، آصف زرداری، فریال تالپور جیسے اہم نام قربانی کے لئے قربان گاہ پہنچ چکے ہیں۔ آصف زرداری تو قربان کرنے کے لئے بلاول کا نام بھی لے رہے ہیں لیکن ”نابالغوں“ کی قربانی ہوتی نہیں اور بلاول ابھی بچے ہیں ممکن ہیں اس وجہ سے بچ جائیں۔ نیب کے ہاتھوں میں دستاویزات کی چھری ہے۔

اب دیکھیں ثبوت دکھا کر انھیں قربان کیا جاتا ہے یا پھر ڈیل کی صورت میں ان کے لئے کہیں سے ”دنبوں“ کا بندو بست کیا جاتا ہے۔ فی الحال یہ تمام رسی میں بندھے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ وہ جمہوریت کی خاطر قربانی دے رہے ہیں۔ شہباز شریف چاہتے ہیں کہ اگر وہ قربانی دے رہے ہیں تو اس کار خیر میں پی ٹی آئی والے بھی حصہ ڈالیں۔ اور خود ہی قربان گاہ کی طرف جانے والے راستے پر دوڑنا شروع کردیں۔ تبھی انھوں نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ سب کچھ ہم ہی نے تو نہیں کیا ماضی میں چونکہ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو یقینا ان کا دامن بھی صاف نہی ہوگا۔

سو نیب تھوڑی سی توجہ ان کی طرف بھی کر لے کہ ہماری طرح ادھر سے بھی ”عشاق“ کا ہجوم نکلے گا۔ اس وقت حکومت میں بہت سارے افراد ایسے ہیں جو گذشتہ حکومت میں حکومت ہی کا حصہ تھے۔ کچھ لوگ ہوتے ہی ایسے بخت آور ہیں کہ خوش قسمتی کا ہما ان کے سر پر ہی رہتا ہے۔ سو راوی ہر زمانے میں ان کے لئے چین ہی چین لکھتاہے۔ سیاسی زبان میں تو ایسے لوگوں کو لوٹا کہا جاتا ہے لیکن یقین جانیئے وہ لوٹے ہر گز نہیں ہوتے۔ عقل سلیم رکھنے کی وجہ سے مہذب زبان میں انھیں سیانا کہا جا سکتا ہے۔

اگر نیب اپنی رسی کا دائرہ ایسے سیانوں تک بھی لے جائے تو یقین کیجیئے اُن کے برآمد شدہ مال سے بہت کچھ درآمد ہو سکتا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ ہر دور میں اپوزیشن ہی گنہگار ہو۔ لازم تو نہیں کہ جن پر زوال ہے وہی گنہگار ہیں جن پر عروج ہوتا ہے ان میں بھی گنہگاروں کا ہجوم ہوتا ہیں۔ کہ آخر عروج والے بھی انسان ہوتے ہیں۔ وہ فرشتے تو نہیں ہوتے کہ ان سے گناہ سرزد نہیں ہوسکتے۔ جبکہ خدا کے حکم پر آدم کو سجدہ کرنے کے انکار کا گناہ تو فرشتے ابلیس سے بھی ہو گیا تھا۔

ہم آپ تو پھر انسان ہیں۔ یہ میں بات کہاں کہاں لے گئی۔ تو بات ہو رہی تھی قربانی کی میری آپ سب سے درد مندانہ دعا کی اپیل ہے دعا کیجیئے کہ میاں جی قربانی کے لئے راضی ہو جائیں۔ میں نے اپنی ذاتی خواہش سے دستبردار ہو کر قربانی کا اختیار میاں جی کو سونپ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں جی کس کی قربانی کرتے ہیں بڑے کی۔ یا چھوٹے کی۔ کہ آخر قربانی قربانی ہوتی ہے بڑے کی ہو یا چھوٹے کی۔ یاد رہے یہاں میاں جی میں نے اپنے سرتاج کے لئے استعمال کیا ہے اسے کسی اور حوالے سے سوچا سمجھا نہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).