امریکہ طالبان ناکام مذاکرات اور اسلام آباد کو درپیش چیلنج


قطر کے دارالحکومت میں امریکہ اور طالبان کے امن مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ 3 اگست کو دوحا میں شروع ہونے والا مذاکرات کا آٹھواں مرحلہ 11 اگست کو بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ دونوں فریق اپنی اپنی قیادت سے مشاورت کریں گے کہ آئندہ کیا کیا جائے۔

امریکہ ان مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان سے واپسی چاہتا ہے۔ اس واپسی کی امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے اگلے صدارتی انتخابات کے لیے اشد ضرورت ہے۔ فوج کی بحفاظت اور ’باعزت‘ واپسی کے علاوہ واشنگٹن یہ چاہتا ہے کہ معاہدے کے نتیجے میں طالبان کابل میں امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت سے اقتدار میں شراکت پر بات چیت اور جنگ بندی کریں۔ اور اس بات کی ضمانت بھی دیں کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا لانچنگ پیڈ نہیں بنے گا۔

پاکستانی فوجی قیادت اور وزیراعظم عمران خان کو حالیہ دورے میں امریکی انتظامیہ نے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کو کہا تھا۔ اس حوالے سے اسلام آباد کتنا مؤثر ثابت ہو گا یہ دیکھنا باقی ہے۔

دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی نے عید کے موقع قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی نشری تقریر میں اس مسئلے کے حل میں ”آؤٹ سائیڈرز“ کے کسی کردار کو یکسر رد کیا ہے۔ افغان صدر نے نام نہیں لیا لیکن واضح تھا کہ آؤٹ سائیڈر کس کو کہا جا رہا ہے۔

طول دوحا مذاکرات کے بے نتیجہ ختم ہونے اور ان مذاکرات کی جلد از جلد کامیابی کی ٹرمپ کی خواہش اور بے چینی کا لازمی نتیجہ اب اسلام آباد پر سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے لیے امریکی دباؤ کی صورت میں نکلے گا۔ بدترین معاشی اشاریئے، داخلی سیاسی عدم استحکام اور کشمیر کی بدلتی صورتحال میں عمران خان اور فوج کا ایک پیج پر موجود پاکستان کا حکومتی بندوبست اس سلسلے میں کتنا مؤثر ہو گا یہ ایک سنجیدہ سوال ہے جس کا جواب آسان نہیں۔

اس تناظر میں ہندوستان اور تہران بالترتیب اپنے اپنے اہداف یعنی پاکستان اور امریکہ کو سامنے رکھتے ہوئے صورتحال پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہندوستانی اور ایرانی دخل اندازی سے پاکستان کی طالبان سے سفارت کاری مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ اشرف غنی انتظامیہ کی ہمدردیاں بھی ایسی صورتحال میں پاکستان مخالف کیمپ کے ساتھ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہ درست ہے کہ افغان صدر اپنی خوابگاہ کی حفاظت تک کے لیے امریکیوں کے محتاج ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ واشنگٹن ریس کے دوران گھوڑا بدلنے پر قادر ہے حد سے زیادہ بھولپن ہو گا۔ اسی طرح یہ سوچنا کہ اپنی بقا کے لیے امریکیوں کی دست نگر افغان انتظامیہ بالکل ہی مٹی کی مادھو ہے بھی زیادہ حقیقی اندازہ نہیں ہو گا۔ دوسری طرف طالبان نے امریکہ سے مذاکرات کے اس سارے عرصے میں خود کو چوکس اور مضبوط مذاکرات کار ثابت کیا ہے جن سے دباؤ یا دیگر ہتھکنڈوں سے بات منوانا ناممکن لگتا ہے۔

صورت حال کا تقاضا ہے کہ اپنے ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے اسلام آباد مؤثر اور مضبوط طریقے سے بروئے کار آئے۔ خارجہ محاذ پر اس چیلنجنگ صورت کا سامنا کرتی حکومت مگر اتنی ملٹی ٹاسکنگ کی صلاحیت سے عاری لگتی ہے جتنے ٹاسک اس نے اپنی پلیٹ میں نکال رکھے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن کے حوالے سے اپنی بیس کی غیر حقیقی اور جذباتی توقعات کو مخاطب کرنے، انہیں بڑھاوا دینے اور حزب اختلاف کو جائز ناجائز طریقے سے لتاڑنے کی بجائے وسیع تر سیاسی ہم آہنگی درکار ہو گی۔ اور یہ ہم آہنگی جھاگ اڑاتی اپوزیشن مخالف تقاریر سے حاصل ہونے سے تو رہی۔

لگتا ہے وزیراعظم اپنی ہی قبل از اقتدار تقاریر اور بیانات کے یرغمال بن چکے ہیں اور اپوزیشن کے خلاف ان کی حکومت کے سارے اقدامات شاید انصاف اور احتساب کی بجائے ان کے مداحین کے جذبہ انتقام کی مسلسل ضیافت کی کوشش ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ہم احتساب کے مینڈیٹ پر اقتدار میں آئے ہیں لہذا اس میں کوئی لچک نہیں ہو گی۔ انہیں اس میں لچک دکھانے کی ضرورت بھی نہیں۔ صرف اس اہتمام کی ضرورت ہے کہ احتساب انتقام کی شکل میں دکھائی نہ دے۔

ایسا تبھی ہو گا جب احتساب سب کا ہو گا۔ بلا امتیاز ہو گا۔ وزیراعظم کے چند مداحوں کے علاوہ یا اقتدار کے مزے اڑاتے طفیلی کرداروں کے اپوزیشن اور خود تحریک انصاف کے معتدل اور انصاف پسند حلقے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ فی الحال احتساب کی گاڑی یک طرفہ ٹریک پر دوڑ رہی ہے۔ حکومت کے منظور نظر افراد اس ’نعمت‘ سے محروم ہیں۔ یہ صورت حال کسی لحاظ سے ملکی مفاد، جمہوری عمل اور طویل المعیاد حوالے سے خود تحریک انصاف کے حق میں بھی نہیں۔ توقع کرنی چاہیے کہ حکومتی جماعت میں نام نہاد احتسابی عقابوں کی بجائے جمہوری اور سیاسی شعور والی فاختاؤں کی سنی جانے لگے گی۔

اسلام آباد کو داخلی امن، خارجہ چیلنجز، اقتصادی صورتحال اور سیاسی استحکام کے محاذوں پر مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ اس میں کم از کم مؤخر الذکر دو مشکلات حکومت کی اپنی کمائی ہیں۔ یعنی اپنی حماقت سے بنائی اور بڑھائی جا رہی ہیں۔ ان میں افاقہ ہونے سے اول الذکر دونوں پہلوؤں کے ذیل میں بھی بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).