ہمیں احمقوں کی جنت سے کیوں نکالا جا رہا ہے؟


شاہ محمود قریشی صاحب نے فرمایا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں قوم احمقوں کی جنت میں نہ رہے۔ یعنی سلیس اردو میں یہ فرمایا ہے کہ کشمیر پر ہماری طرف سے نا ہی سمجھو، ہم نہیں لڑیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف نے یہی بات بیس برس پہلے کہہ کر واجپائی کو بلایا تھا کہ کشمیر کا حل صرف مذاکرات سے ممکن ہے تو کیا نواز شریف کی سمجھ میں بات موجودہ حکمرانوں سے بیس برس پہلے آ جاتی ہے؟ پراکسی تنظیموں کے معاملے میں نواز شریف کی سمجھ میں بات موجودہ حکمرانوں سے تین برس پہلے آ گئی تھی جب ڈان لیکس کیا گیا تھا۔ اب فیٹف کے ذریعے ہمارا گلا گھونٹا گیا ہے تو ہم وہی کر رہے ہیں جو تین برس پہلے نواز شریف کرنا چاہتے تھے۔ لیکن بہرحال نواز شریف کو پاکستان کا یہ سب کچھ نقصان ہونے سے پہلے کرنے کی وجہ سے مودی کا یار قرار دیا گیا تھا اور اب یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ایسا نہ کرنے والے احمق قرار پائے ہیں۔

یہی معاملہ بے نظیر بھٹو کا تھا۔ جو بات انہیں کئی دہائیاں پہلے سمجھ آ گئی تھی اس پر انہیں سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا تھا۔ اب ان کی بات کو عقل کا پیمانہ مانا جا رہا ہے اور ان کے مخالف موقف رکھتے ہوئے کشمیر کا فوجی یا جہادی حل کرنے کے داعی احمقوں کی جنت کے باسی قرار پائے ہیں۔ کیا ان سیاسی لیڈروں کی سمجھ زیادہ تیز ہے ببلو؟ وہی گدھے والا عبرت آموز قصہ یاد آ رہا ہے جو لطیفہ سننے کے ایک ہفتے بعد اسے سمجھ پاتا تھا۔ لگتا ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں نے مسئلہ کشمیر بھی ایک لطیفہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

اب صورت حال نے کیسا پلٹا کھایا ہے۔ مودی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ جائے بھاڑ میں، میں کشمیر ہڑپ کر رہا ہوں، کسی میں ہمت ہے تو چھین لے۔ اور نسیم حجازی کے تمام مقلدین جو بتاتے رہتے تھے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور اس سے آخری گولی تک لڑیں گے، اور مذاکرات کا تو سوچو بھی نہ، آخر ہم نے ایٹم بم گودام میں رکھنے کے لیے تو نہیں بنایا تھا وغیرہ وغیرہ، اچانک چانکیہ کے پیروکار بن چکے ہیں کہ دشمن طاقتور ہو تو لڑائی کے لئے اپنے اچھے وقت کا انتظار کرو، اس وقت لڑنے کی گنجائش نہیں ہے اس لئے غیر عسکری طریقے سے بھارت کو کنٹرول کرو۔

یعنی ستر سال تک ہمیں بتایا جاتا رہا کہ ہم بے تیغ بھی لڑ کر لال قلعے پر پرچم لہرا سکتے ہیں لیکن اب نریندر مودی نے ہماری مبارزت کی دعوت قبول کر لی ہے تو ہم کہنے لگے ہیں کہ ہم نے جنگ کی تو ہار جائیں گے، ہمارے پاس صرف دو آپشن ہوں گی پہلی یہ کہ بہادر شاہ ظفر کی طرح مر جائیں اور دوسری یہ کہ ٹیپو سلطان کی طرح مر جائیں۔ یعنی ہمارے حکمران یہ بتا رہے ہیں کہ ہم ہی مریں گے اور ہم ہی ہاریں گے، بھارت کے مرنے یا ہارنے یا جنگ برابر رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اب ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ ”مسئلہ کشمیر پر پاکستانی قوم احمقوں کی جنت میں نہ رہے“۔

یہی بات ہمارے لبرل طبقات عرصہ دراز سے کہہ رہے تھیں تو وہ غدار اور بزدل ٹھہرائے جاتے تھے۔ یہ صاف ظاہر تھا کہ ایٹمی طاقتیں بننے کے بعد نہ تو مقبوضہ کشمیر کو پاکستان فتح کر سکتا ہے اور نہ آزاد کشمیر کو انڈیا اور اگر ہم نے پراکسی تنظیمیں استعمال کیں تو انڈیا ہماری قرضے پر چلنے والی معیشت کا گلا گھونٹ دے گا، اور اگر ہم نے جبرالٹر یا کارگل جیسا احمقانہ ایڈوینچر دوبارہ کیا تو انڈیا بھی محدود جنگ نہیں کرے گا بلکہ ان دو گزشتہ ایڈوینچرز کی طرح پوری طاقت سے جوابی حملہ کرے گا۔ بھرپور جنگ کے لئے نہ ہماری معیشت میں جان ہے اور نہ ہی ہمارے پاس چند ہفتے سے زیادہ کا جنگی ساز و سامان ہے۔ یعنی یہ بڑی جنگ ہمارے بس سے باہر ہے۔

شکر ہے کہ یہ باتیں اب بے تیغیوں کو سمجھ آنے لگی ہیں۔ آئیے اب سکون سے اس قول پر غور کرتے ہیں کہ بندہ اپنے دوست تو منتخب کر سکتا ہے، اپنے ہمسائے نہیں۔ ان کے ساتھ ہی زندہ رہنا سیکھنا پڑے گا اور اس کے لئے دونوں ممالک کو کچھ سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔ تو بہتر ہے کہ سمجھوتے کر لیں۔

انڈیا نے ہمارے ہی دوست اپنے ساتھ ملا کر عربی تیل، فیٹف اور آئی ایم ایف کے ہتھیار سے اس مرتبہ ہمیں معاشی شکست دی ہے۔ ہمیں فل کمزور کر کے اس نے کشمیر کو قبضایا ہے۔ اب شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ ”مسلم اُمّہ کے محافظوں کے اپنے مفادات ہیں، امہ کی بات کی جاتی ہے مگر امہ کے محافظوں کے مفادات بھارت سے منسلک ہیں، مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا کوئی بھی مستقل رکن رکاوٹ بن سکتا ہے، اقوام متحدہ میں کوئی ہار لے کر نہیں کھڑا ہے“۔

شاہ جی سے کوئی پتہ کرے کہ مسلم امہ کے بخشو کے بھی کوئی اپنے مفادات ہیں یا نہیں؟ کیا اپنے مفادات کے تحت انڈیا کے بڑے دفاعی اور ٹیکنالوجی پارٹنر اسرائیل کو اس سے توڑ کر اپنا دوست بنا لینا چاہیے یا مسلم امہ کے محافظوں کے مفادات کو اپنے قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے بیس سال بعد سودے بازی کے تمام مواقع گنوا کر اس وقت کے وزیر خارجہ سے یہ سننا پڑے گا کہ ہم احمقوں کی جنت میں نہ رہیں اور اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، اس وقت جارڈ کشنر اور سعودی عرب میں ہمارے مبینہ سفیر ہمیں اچھی ڈیل دلوا دیں گے۔ ہمیں بھارت کے اہم دفاعی اور ٹیکنالوجی پارٹنر اسرائیل کو ویسے ہی توڑنا ہو گا جیسے بھارت نے ہمارے اہم دوستوں سعودی عرب اور امارات کو توڑ کر اپنے ساتھ ملایا ہے۔

ہمارا چین جیسا دوست بھی مسئلہ کشمیر میں فریق ہے۔ اس کی سرحدی تنازعات پر بھارت سے ایک بڑی جنگ بھی ہو چکی ہے۔ اس زندہ تنازعے کے باوجود وہ بھارت سے اربوں ڈالر کی تجارت کرتا ہے۔ ہمیں بھی برسوں سے مشورہ دے رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کچھ عرصے کے لئے سرد خانے میں ڈال کر بھارت سے تجارت کریں۔ بھارت کے مفادات ہم سے جڑیں گے تو ہمارا وزن بڑھے گا۔ اور ہماری معیشت بھی اتنی بھاری ہو جائے گی کہ مسلم امہ کے مفادات بھی پاکستان سے منسلک ہوں گے۔

جہاں تک کشمیر کی بات ہے تو ہمارے ارمان جو بھی ہوں اور ہمارے ایٹم بم چاہے جتنے بھی تباہ کن ہوں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس جنگ میں انڈیا کو صرف کشمیری ہی شکست دے سکتے ہیں۔ ہمارا کردار کشمیریوں کے لئے عالمی فورمز اور میڈیا پر جنگ لڑنے تک محدود ہے۔ لیکن انڈیا یہ میڈیائی جنگ بہت پہلے شروع کر کے ہماری ایسی ریپوٹیشن بنا چکا ہے کہ جس دارالحکومت میں بھی ہمارا ایلچی جاتا ہے، وہ ملک الٹا ہمیں ہی مجرم ٹھہرا کر اسے چپ کرا دیتا ہے۔ بہتر ہے کہ اب بخشو اپنے مفادات کو ترجیح دے۔ ہم نے یہ جنگ جیتنی ہے تو سیاسی اور معاشی استحکام ہی ہمارا واحد ہتھیار ہے۔ لیکن بخشو۔۔۔ ہائے بخشو۔۔۔۔ بس اب بہت ہو گئی، اب بخش دو بخشو۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar