جمیعت کے صالحین۔۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


\"sehrish-usman-2\"چونکہ سب ہی جمعیت کے ساتھ \”تعلقات\” کی تفصیلات بتا رہے ہیں تو ہم بھی بتائے دیتے ہیں کہ جمیعت والے، بقول وصی بابا صالحین، کس طرح ہماری مدد کرنے پر تل گئے تھے.

گو کہ ہم اس ڈنڈا بردار دور میں تو زیر تعلیم نہیں تھے لیکن بہرحال صالحین موجود ہیں اب بھی.

تو ہوا کچھ یوں کہ ہمارے ایک سنئیر جمیعت کے رکن نے جب سبحان اللہ ماشاءاللہ کہہ کر ہماری کلاس کی ٹوٹل بتیس میں سے اکتیس لڑکیوں کو بہن بنا لیا تو نظر کرم ہم پر پڑی۔ ایک دن ہمیں کہنے لگے ڈیپارٹمنٹ میں کسی بھی سے کوئی کام ہو ہم سے کہیے گا.ہم سمجھے ویسے ای منڈے نے \”بی بی\” طبیعت پائی ہے مسکرا کر چل دییے اب ان کا روز کا معمول آتے جاتے ہم سے سلامی ایک دن کہنے لگے ہمارا نمبر رکھ لیجیے کوئی کام ہو تو کال کر لیجے.چونکہ ایسے موقعوں پر ہمارے اندر کا دیہاتی جاگنے میں ٹوٹل چار سیکنڈ لگاتا ہے لہذا۔۔۔ آگے کی پوری کاروائی سنسر کی جاتی ہے۔.

بس اتنا بتائے دیتے ہیں کہ ہم نے محترم کی عزیزگان کے متعلق سلیس پنجابی میں \”نستعلیق\” گفتگو کی.جس سے شرما کے \”بھائی\” صاحب نے تشریف لے جانا مناسب سمجھا.

لیکن طبیعت بی بی ہونے کے ساتھ ہلکی سی ڈھیٹ بھی تھی ویسے بھی انہوں نے پڑھ رکھا تھا کہ ٹھنڈ اور بے عزتی جتنی محسوس کی جائے اتنی بڑھتی ہے لہذا تیسرے دن چلے آئے اپنے سابقہ \”رویے\” کی معافی مانگنے اور ہم نے بھی کمال مروت سے معاف کردیا.

اور موصوف کو لگا ہم بہن بھائی چارے پر آمادہ ہوگئے ہیں لہذا پھر سے ہمیں مسکرا کر سلام کرنا خود پر فرض کر لیا.

ہم جو مسکراہٹوں سے پہلے ہی عاجز آئے بیٹھے تھے اور اس پہلے معرکے کے بعد سے کہیں بمباری بھی نہیں کی تھی تو اچانک ہمارے فسادی دماغ نے ہمیشہ کی طرح ساتھ دیا.پانچ دن پہلے بلی کے جو بچے اس جہان فانی میں تشریف لائے تھے ہم نے انہیں دنیا دکھانے کا فیصلہ کیا شاپر میں ڈالا، ٹارگٹڈ کارروائی کرتے ہوئے دشمن کے اڈوں کو نشانہ بنایا.اب اس اچانک افتاد کا کسی کو علم نہ تھا اور تیز پنجوں والے اوفینسو ڈرے ہوئے چار بلی کے بچے اوران سے لڑتا تن تنہا مجاہد. اور ہماری طرف سے ایچ او ڈی کو راؤنڈ کے وقت پہنچائی گئی معصوم خبر کے شائد \”اس طرف\” کوئی گیم کھیل رہے ہیں \”سنیرز\” ۔ مارکسسٹ ایچ اوڈی اور صالح بھائی، باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ اشک پینا کیسا دلدوز واقعہ ہوتا ہے.

اور جب ہم نے عین موقع پر بلی کے چاروں بچوں کو گود لے کے غرباء کی انجیلینا جولی بننے کا فیصلہ کیا تو صالح بھائی کے شرمندگی چھپائے نہیں چھپتی تھی.

ایک اور بھائی صاحب تھے جو اپنی بد قسمتی اور ہماری خوش قسمتی سے ہماری ہی کلاس میں پڑھا کرتے تھے..وہ ہر وقت کو ایجوکیشن کے عظیم ترین نقصانات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ ہماری جنس کا یونیورسٹی میں پڑھنا کتنے ارب ڈالر کی انڈسٹری کے فروغ کا سبب ہے ان کے ان فیکٹس اینڈ فگرز کا بدلہ تو خیر ہم نے ان کو گروپ لیڈر بنوا کر پولیٹیکل اکانومی پر پریزینٹیشن دلوا کر ہی لے لیا تھا لیکن ایک دن جب انہوں نے ایک کلاس فیلو کو وصی شاہ کی نظم مہکتے ہوئے کاغذ پر لکھ کر دی اور نیچے انتہائی خوبصورت الفاظ میں اپنا نام مع تخلص لکھا اور ہم نے وہ کاغذ ایز اٹ از نوٹس بورڈ پر لگا دیا . \”صالح\”پریمی صاحب کو آٹھ دن کی جبری رخصت پر بھیجے جانے کا حکم نامہ جاری ہوا تو اس موقع پر ثالثی کے فرائض بھی ہم ہی نے ادا کیے اور موصوف کو معافی دلوا کر ایک اور\”بھائی\” نیک کر لیا.

جمیعت کی ایک قسم وہ بھی تھی جن سے کڑیاں دل سے اترے اور نظر سے گر جانے والے مسٹنڈوں کو کٹ لگوا کر کلیجے ٹھنڈ پایا کرتی تھیں.

ایک قسم وہ بھی تھی جو مددگار کے روپ میں کبھی ایڈمن بلاک تو کبھی ڈیپارٹمنٹ میں نمودار ہوتی ہے..کہنا یہ ہے کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں.جمیعت پر تنقید یا یونیورسٹیز میں ان کے رویوں پر تنقید دراصل ان کی پولیٹیکل ایفیلیشن پر نہیں بلکہ ان کا اپنے سوا کسی کو سٹیک ہولڈر نہ سمجھنے والے رویے پر ہوتی ہے اور معذرت کے ساتھ کبھی کبھی منافقت نما مصلحت پر بھی..کیونکہ جمیت ہی کے ایک سابق ناظم کے کمرے سے چرس نکلنا چھوٹا واقعہ نہیں تھا اور اکلوتا بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments