دھڑا دھڑ طلاقیں کیوں ہو رہی ہیں؟ (2)


\"lubna نئی جگہ ہے نئی زندگی ہے شائد اس لئیے وہ مجھ سے بات نہیں کرتی، ایک ارینجڈ شادی کے بعد کینیڈا شفٹ ہوگئی تو اس کے شوہر نے سوچا۔ اس کے کچھ دن کے بعد اس نے اپنا سامان اور شادی میں ملا زیور بیگوں میں لپیٹا اور بس لے کر امریکہ چلی گئی۔ کینیڈا اور امریکہ کے بیچ میں تو ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہاں پر امریکہ میں رہتا تھا وہ آدمی جس سے وہ اصل میں شادی کرنا چاہتی تھی۔ اپنے کینیڈین شوہر سے طلاق لینے کی بھی اس نے زحمت نہیں کی۔ طلاق کیسی جب شادی ہی نہ ہوئی؟ یہ تو خیال ہی نہیں آیا ہوگا اس کے اردگرد لوگوں کو کہ دوشیزہ کی خاموشی کا مطلب ہمیشہ اقرار نہیں ہوتا، کبھی اس کا مطلب انکار بھی ہوتا ہے۔ اس کا شوہر شدید ڈپریشن میں چلا گیا۔وہ ایک شریف آدمی تھا او اس نے سب اپنی زندگی میں ٹھیک کرنے کی ہمیشہ کوشش کی تھی۔ وہ ایک \”انوسنٹ بائی اسٹینڈر\” یا \”کولیٹرل ڈیمیج\” بن گیا۔ اگر ماں‌ باپ اپنی بیٹی کی بات سنتے تو اس کو ایسا کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اپنی پسند سے شوہر چننا ہر لڑکی کا پیدائشی حق ہے۔ اب وہ کسی بھی چن لے اس بارے میں‌ کسی اور کو کچھ کہنے کا تو حق ہوسکتا ہے لیکن کچھ کرنے کا نہیں۔ اس وقت میرے ذہن میں اس یوروپین آرکیسٹرا کا خیال آیا جس کے کنڈکٹر کی بیٹی ایک دوسرے ملک کے میوزیشن کو پسند کرتی ہے ۔ جب وہ اپنا وایولن لے کر آتا ہے تو بڑے میاں کہتے ہیں، ایک بیٹی کو کھونے سے بہتر ہے کہ ایک وایولنسٹ کا اضافہ کیا جائے ، یہ سن کر ان کی بیٹی ہنس پڑتی ہے اور پھر وہ سب مل کر آرکسٹرا بجانے لگتے ہیں۔

پہلے زمانے میں‌ لوگوں‌ کی طبعی عمر کم تھی اور شادی شدہ زندگی کا دورانیہ اتنا نہیں‌ تھا جیسا کہ اب ہے۔ انسان عمر کے ساتھ اور اپنی تعلیم\"paki-couple-shot\" اور تجربے کے ساتھ بدلتا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں اکثر جوڑے سالوں الگ رہتے تھے۔ شادی انفرادی خوشیوں‌ کا نہیں بلکہ اجتماعی فائدے کا راستہ تھیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سول میٹ ہوتا ہے، یعنی دنیا میں‌ صرف ایک دفعہ محبت ہوتی ہے اور جوڑے آسمان پر بنتے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں‌ کہ اگر اختلافات ہوں‌ تب بھی گفت و شنید سے کمپرومائز کے ساتھ زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ کیا طلاق ہمیشہ ایک غلط فیصلہ ہے؟ کچھ صورتیں‌ ایسی بھی ہیں جہاں‌ طلاق نہ لینا ایک غلط فیصلہ ہو سکتا ہے۔

نارمن کی مقتولہ کی کہانی

نارمن ایک نسبتاً چھوٹا سا شہر ہے۔ پچھلے سال اس صدمے والی خبر نے سب کو چونکا دیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو چاقو کے وار کرکے جان سے مار دیا۔ اس کی وجہ گھریلو تنازع بتائی گئی۔ اس لڑکی کی یہ دوسری شادی تھی۔ پہلی شادی سے ایک بچہ تھا جس کو وہ پاکستان سے یہاں‌بلانا چاہتی تھی۔ یہ شادی مشکل تھی لیکن اس نے آخر تک اس کو بچانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں‌اپنی جان سے گئی۔ اس بچے کے لئیے مجھے افسوس ہے۔ ایک ماں‌کی طرح‌ کوئی اس سے محبت نہیں‌کرسکے گا۔ \”بیٹا اب اس گھر سے تمہارا جنازہ ہی نکلنا چاہئیے!\” یہ فقرہ کون نہیں‌جانتا۔ شائد گھریلو تشدد کی شکار خواتین یہ سمجھتی\"paki03\" ہیں‌کہ وہ اپنے بچوں کے لئیے نیکی کررہی ہیں۔ اس گھر میں‌رہ کر وہ ایسی بیٹیاں‌بڑی کریں‌گی جو خود تشدد کا نشانہ بنیں‌گی اور ایسے بیٹے جو باپ کے نقش قدم پر چلیں‌گے۔ ثریا این فاؤنڈیشن اوکلاہوما میں‌ ان خواتین کی مدد کے لئیے قائم ہوئی ہے جو کہ خوش آئیند قدم ہے۔ ایک ابیوسو عرب نے اپنی صفائی میں‌ایک ترک سے کہا، برادر آپ تو جانتے ہیں‌کہ عرب اپنی بیویوں‌سے کیسا سلوک کرتے ہیں۔ تو ترک نے اس کو جواب دیا، برادر میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں‌کہ ترک عربوں‌کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ اپنی کمیونٹی کے لوگ ان کو واپس گھر چلے جانے پر تو اکسا لیتے ہیں‌ لیکن وہ رات کے بیچ میں‌اس وقت ان کی مدد کو نہیں‌ پہنچتے جب ان کے گھروں‌ میں‌ مار کوٹ چل رہی ہوتی ہے۔ ان خواتین کے مسائل نہایت پیچیدہ ہیں کیونکہ ان کو ایک مکمل بالغ انسان کی حیثیت نہیں‌دی جاتی اور اپنے ماں باپ یا شوہر کے گھروں‌سے باہر گزارے ہوئے وقت کو ان کے لئیے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کو اپنے پیروں‌ پر کھڑا ہونے میں‌ اندر سے ہی لوگوں‌کو ان کی مدد کرنا پڑے گی جس کی شروعات سوچ بدلنے سے شروع ہوگی۔ ایک دن اچانک ہی تو چاقو مار کر قتل نہیں‌ ہوجاتا۔ یہاں تک بات پہنچنے سے پہلے ہی طلاق لے لینا مناسب ہوتا۔

ٹینا اور جم کی کہانی

ٹینا ایک ریسرچر ہے اور کالج میں ریسرچ پڑھاتی ہے۔ اس کی پڑھائی میں‌ اتنا ٹائم لگ گیا کہ شادی کرتے کرتے 35 سال عمر ہوگئی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کے بچے ہوں۔ لیکن اس کا شوہر چاہتا ہی نہیں‌ تھا کہ ان کے بچے ہوں کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ بچے ہونے سے ٹینا کی توجہ بٹ جائے گی اور وہ اس کے ساتھ زیادہ وقت نہیں‌ گزار سکے گی۔ اس طرح‌ بچے پیدا کرنے کا وقت نکل گیا۔ ٹینا کا وقت تو وہ اپنے لئیے\"paki-couple-2\" بچا رہا تھا لیکن اپنا وقت سارا اپنے کام اور کلائنٹس کے ساتھ فٹ بال دیکھنے پر صرف کرتا۔ اس کی اچھی تنخواہ بھی تھی لیکن کریڈٹ کارڈوں‌ پر 100 ہزار ڈالر کا قرضہ چڑھایا ہوا تھا۔ ٹینا محنتی اور زمہ دار تھی، تنخواہ کم ہونے کے باوجود اس کے بینک میں‌ سیونگ بھی تھی اور کریڈٹ کارڈوں پر کوئی قرضہ بھی نہیں تھا۔ ٹینا کام پر جاتی پھر گھر واپس آتی، اکیلے کھانا کھاتی اور اپنے آفس کا کام کرتی۔ اس کے شوہر کے گھر واپس آنے سے پہلے وہ سو چکی ہوتی تھی۔ کہنے لگی آخری دو سال میں نے قید تنہائی میں‌ گذارے جس سے مجھے ڈپریشن ہوگیا کیونکہ اس کے ماں باپ اور بہن بھائی کسی دوسری اسٹیٹ میں رہتے تھے۔ اس نے کئی بار اپنے شوہر سے اس کی توجہ کا مطالبہ کیا لیکن وہ اس بات کو اہم نہیں سمجھتا تھا۔

ٹینا اور اس نے مل کر مکان خریدا ہوا تھا۔ امریکی شادی شدہ جوڑا اپنے تمام اثاثے کا برابر کا شریک ہوتا ہے جس میں‌ مکان، گاڑی، سارا سامان اور قرضہ سب شامل ہیں۔ گھر کی ہر مہنے پیمنٹ جاتی ہے اور سب یہی چاہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ تک وہ پے آف ہوجائے تاکہ وہ اپنے بڑھاپے کے دن اس میں‌ گزار سکیں۔ ٹینا ایک نہایت زہین خاتون تھی اور ایک دقیانوسی کیتھولک گھرانے سے ہونے کے باوجود اس کے سائنسی خیالات تھے۔ اس کے شوہر کا دماغ بچپن کے سکھائے ہوئے اسباق سے نہیں نکلا تھا لیکن وہ جتنا ہوسکے وہ اس موضوع پر بحث سے گریز کرتی۔\"paki-01\"

اس کے شوہر نے اس کو بتائے بغیر مکان بیچ کر اپنے کریڈٹ کارڈز کا قرضہ اتارنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن ٹائٹل کمپنی کے باہر گاڑی روکی، اس کو اندر لے گیا اور تمام کاغذوں پر دستخط کرائے۔ ٹینا نے کہا کہ میں‌ ایک تحقیق دان ہوں‌، میرا سائکالوجی اور قانونی دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنا اور ان کو درست طریقے سے سارے ڈپارٹمنٹ کے لئیے جمع کرانا روز کا کام ہے۔ میں‌ 10 سال کی بچی نہیں‌ تھی کہ مجھے پتا نہ چلے کہ وہ کیا کررہا ہے۔ اس نے میری زندگی کو اپنے فائدے کے لئیے استعمال کیا اور جواب میں مجھے وہ نہیں‌ملا جس کے لئیے میں‌ نے اس کا تمام زندگی کے لئیے ہاتھ تھاما تھا۔ کہنے لگی، طلاق کے بارے میں‌ میں‌ کئی سال سے سوچ رہی تھی لیکن اس دن جم نے اپنے تابوت میں‌ کیلیں‌ لگا دی تھیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments