سلامتی کونسل کا اجلاس: کشمیر پر پاکستانی سفارت کاری کا امتحان


اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پاکستان کی درخواست پر جمعہ کے روز مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور برصغیر میں کشیدگی پر غور کرنے والی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسے پاکستان کی شاندار سفارتی کامیابی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 1971 کے بعد پہلی بار کشمیر کا معاملہ سلامتی کونسل میں بحث کے لئے پیش ہوگا۔ تاہم اس کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ سلامتی کونسل میں پاکستان کا ایجنڈا کیا ہوگا۔

کیا کشمیر میں استصواب کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دہائی دی جائے گی یا مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالی پر اضطراب کا اظہار کیا جائے گا۔ جناب وزیر اعظم اپنی تقاریر اور متعدد ٹوئٹ پیغامات میں کشمیر کے مسئلہ کو مسلمانوں اور عالم اسلام کا مسئلہ قرار دے چکے ہیں۔ اگر جمعہ کے روز سلامتی کونسل کی بحث میں بھی اسی نکتہ کو بنیاد بنایا گیا اور کسی متوقع قرار داد میں کشمیر میں مسلمانوں کی نسل پرستی کو بنیادی مسئلہ اور بھارت کی طرف سے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا معاملہ اس میں شامل کروانے کی کوشش کی گئی تو اس میں کامیابی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ وزیر خارجہ خود یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ایک ارب سے زیادہ آبادی کا ملک بھارت ایک بڑی منڈی ہے۔ اقوام عالم کے مفادات اس مارکیٹ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان اس وقت جن معاشی حالات سے گزر رہا ہے، ان کی روشنی میں پاکستان کے پاس بہت زیادہ سفارتی آپشنز موجود نہیں ہیں۔ معاشی معاملات میں دوسرے ملکوں اور عالمی اداروں کا محتاج ملک کسی اہم اور جائز سیاسی معاملہ میں بھی اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ سلامتی کونسل میں بحث اور قرارداد کی تجاویز کے دوران پاکستانی وفد اور نمائیندوں کو اپنی گفتگو اور تجاویز میں بہت عقل مندی سے الفاظ کا چناؤ کرنا پڑے گا۔

یہ اندیشہ موجود ہے کہ اگر اس بحث میں زیب داستان کے لئے شاہ محمود قریشی جیسی  لفاظی اور وزیر اعظم عمران خان کی طرح جذبات سے کام لیا گیا تو پاکستان، کشمیر کے انسانی مسئلہ کو بھی عالمی ایجنڈے پر لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ اس کے برعکس دانشمندی سے طے کی گئی منصوبہ بندی کے تحت غیر جذباتی مدلل گفتگو سے سلامتی کونسل کے رکن ملکوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مکمل لاک آؤٹ کو 12 روز بیت چکے ہیں ۔ کشمیر کا ہر شہر، قصبہ، محلہ اور سڑک بند کی گئی ہے۔ کشمیری لوگوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔ کسی علاقے کی بہبود و ترقی اور کسی ملک کے اتحاد و مساوات کے نام نہاد ایجنڈا کے لئے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو مقید رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خاص طور سے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے اس معاملہ میں مداخلت سے انکار کے بعد عالمی ادارے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق بحال کرنے کا پابند کرے۔

یہ معاملہ پاکستان کی خواہش اور چین کی باقاعدہ درخواست پر سلامتی کونسل میں اٹھایا جا رہا ہے۔ اس لئے بنیادی طور پر پاکستان کے رویہ سے ہی یہ طے ہوگا کہ سلامتی کونسل میں بحث کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اگر اس بحث کے آغاز میں ہی گزشتہ ستر برس کی تاریخ کا احوال سناتے ہوئے بھارت پر اشتعال انگیز الزام تراشی کی کوشش کی گئی تو جواب میں بھارت اور اس کے حامی ممالک کی طرف سے بھی سخت اور مسترد کرنے والا رویہ سامنے آئے گا۔ اس تلخ بیانی کے نتیجہ میں اگر کسی قرارداد پر اتفاق رائے نہ ہو سکا یا کسی مستقل رکن ملک نے کسی بھارت مخالف قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے ویٹو کا حق استعمال کیا تو پاکستان کی یہ سفارتی کوشش بری طرح ناکام ہوسکتی ہے۔ اس کے برعکس متوازن گفتگو کے ذریعے کشمیری عوام کے انسانی حقوق پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی گئی اور سلامتی کونسل کے ارکان کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ کشمیری عوام کے ساتھ روا رکھا گیا غیر انسانی سلوک ختم کروائے تو پاکستان کسی حد تک سفارتی کامیابی کی امید کرسکتا ہے۔

پاکستانی حکومت کو چند باتیں اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے:

1۔ اقوام متحدہ کے ذریعے کشمیر کے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا امکان موجود نہیں۔ اس عالمی ادارہ کے پاس کوئی حقیقی طاقت بھی نہیں ہے ۔ اس پلیٹ فارم سے اس مسئلہ پر گزشتہ 70 برس کے دوران کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ۔ اب یہ توقع کر لینا خام خیالی ہوگی کہ سلامتی کونسل بھارت کو کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کرنے یا وہاں رائے شماری کروانے پر مجبور کرسکتی ہے یا اس سوال پر کوئی نئی قرارداد منظور کرلے گی۔

2۔ یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ پاکستانی وزیر اعظم کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے جن اندیشوں کا اظہار کیا گیا ہے، وہ ایک رائے ہے۔ جو نریندر مودی کے سیاسی پس منظر، بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندو نواز سیاست اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کی روشنی میں قائم کی جاتی ہے۔ پاکستان اس رائے کو اگر سلامتی کونسل میں دلیل کے طور پر پیش کرے گا تو وہ اس کا دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کرسکے گا۔ اس صورت میں یہ معاملہ ایک مؤقف کے مقابلے میں دوسرے مؤقف کی صورت اختیار کرلے گا۔ پاکستان الزام لگائے گا اور بھارت اسے مسترد کردے گا۔ باقی ممالک خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہیں گے۔ ایسی پریشان کن صورت حال سے بچنا، پاکستان کی سفارت کاری کے لئے نہایت اہم ہوگا۔

3۔ پاکستان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیر کی صورت حال پر سلامتی کونسل میں غور بجائے خود کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے۔ اگر اس اجلاس میں حکمت عملی کے لئے کوئی ٹھوس ایجنڈا تیار نہ کیا گیا اور اس فورم کو صرف تقریریں کرنے اور بھارت کو بدنام کرنے کا موقع سمجھنے کی کوشش کی گئی تو اس کا فائدہ بھارت کو ہی ہوگا۔ پاکستان کو اس قسم کے نتیجہ سے بچنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کے معاملہ پر کسی بھی قسم کی قرارداد منظور ہونا ہی اہم ہو گا تاکہ پاکستانی حکومت اور سفارت کاروں کو بڑی خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شاہ محمود قریشی کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر کے معاملہ پر غور کو بہت بڑی سفارتی کامیابی قرار دینے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ پاکستان نے اگرمقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پر بھارت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی تو بھارتی نمائیندے بھی آزاد کشمیر کی حیثیت پر سوال اٹھا کر معاملہ کو پیچیدہ اور مشکل بنا سکتے ہیں۔

4۔ کشمیری عوام کی مشکلات، مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا معاملہ اور اس مسئلہ کے مستقل حل سے بھی پہلے پاکستان کو اس وقت لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کا اندیشہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان گزشتہ روز آزاد کشمیر اسمبلی میں خطاب کے دوران اس کا واشگاف لفظوں میں اظہار کرچکے ہیں۔ لیکن پاکستانی وزیر خارجہ اور سفارت کاروں کو اس بات کا ادراک ہو گا کہ اس صورت حال سے عمران خان کے لفظوں میں ’ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا یا مودی کو سبق سکھایا جائے گا‘ جیسے پرجوش نعروں سے نہیں نمٹا جا سکتا۔ آزاد کشمیر کے صدرسردار مسعود خان نے بھی آج ایک میڈیا ٹیم سے باتیں کرتے ہوئے بھارتی حملہ کو حقیقی خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ بھارتی حکومت پلوامہ جیسے کسی حملہ کا ڈھونگ رچا کر، اس بہانے پاکستان پر حملہ کا عذر تراش سکتی ہے۔

سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران فلور پر تقریروں کے علاوہ رکن ممالک کے نمائندوں سے ملنے اور تبادلہ خیال کے مواقع بھی حاصل ہوں گے۔ پاکستان کو اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی عزائم کے بارے میں اپنے شبہات عالمی طاقتوں تک پہنچانے چاہئیں۔ ایک تو یہ یقین دہانی کروانی چاہئے کہ پاکستان اب نوے کی دہائی کی طرح مقبوضہ کشمیر میں کسی قسم کی مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتا۔ دوسرے یہ کہ بھارتی عزائم کے بارے میں صرف قیاس آرائی سے کام لینے کی بجائے ضروری انٹیلی جنس مواد بھی سیکورٹی کونسل کے مستقل رکن ملکوں تک پہنچایا جائے۔ دنیا اس وقت چاہے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دیتی ہو لیکن دنیا کا کوئی بھی ملک برصغیر میں جنگ کا خواہشمند نہیں۔ یہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں۔ ان کے درمیان کوئی نیا تصادم عسکری ساز و سامان اور تکنیکی صلاحیت میں عدم توازن کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی ایٹمی جنگ میں بدل سکتا ہے۔ دنیا اس اندیشے سے آگاہ ہے۔ پاکستان اپنی حفاظت کے لئے دنیا کے اس خوف کو ڈھال کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

 سلامتی کونسل کا اجلاس کشمیری عوام کی انسانی صورت حال پر دنیا کی توجہ مبذول کروانے کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی صورت حال کو عالمی ایجنڈے پر لانے اور جنگ جوئی سے باز رہنے کے لئے بھارت پر دباؤ میں اضافہ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو یہ موقع کسی قیمت پر ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ کیوں کہ کوئی بھارتی حملہ یا لائن آف کنٹرول پر مہم جوئی اور طویل اشتعال انگیزی پاکستان کی معیشت پر غیر ضروری اور ناقابل برداشت بوجھ کا سبب بن سکتی ہے۔

پاکستان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس وقت علاقے میں اشتعال بڑھانے کی بجائے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اشتعال میں بھارت نے کشمیریوں کے آئینی حقوق تلف کر کے اور پاکستان نے پرجوش بیانات کے ذریعے اضافہ کیا ہے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس اس ناگوار محاذآرائی کو ختم یا کم کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لئے پاکستانی لیڈروں کو اپنے محدود آپشنز کو نہایت مہارت سے استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی۔

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے باہمی مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔ یہ مذاکرات پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ سے معطل ہیں۔ اعتماد سازی اور سفارتی روابط کی بحالی کے لئے الزام تراشی اور اشتعال کی کیفیت ختم ہونا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali