پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کا مطالبہ ۔ زمینی حقائق کے تناظر میں


آپ سیکولر ازم کی جو بھی تشریح کرتے ہیں اور جس ڈکشنری کی تعریف کو بھی معتبر مانتے ہیں کم از کم یہ بات طے ہے کہ سیکولر ریاست وہ ہے جہاں مذہب کارِ سرکار میں مداخلت نہ کرے بلکہ اسے لوگوں کا ایک نجی مسئلہ شمار کیا جائے۔ جب ہم پاکستان کو مذہبی ریاست کی بجائے ایک سیکولر ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں تو چونکہ ہندو، سکھ یا عیسائی ریاست بننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہذا مذہب سے ہماری مراد دینِ اسلام ہوتا ہے۔

یعنی ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کی بجائے سیکولر ریاست ہونا چاہیے۔ اس سے قطعِ نظر کہ مذہب اور سیاست کی دوئی اور جدائی کا یہ سیکولر بیانہ کس حد تک درست ہے ہمیں پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کیا واقعی پاکستان تا حال ایک مذہبی اور اسلامی ریاست ہے؟ کیا واقعی اس میں اسلامی قوانین نافذ ہیں؟ کیا واقعی اس کے سرکاری معاملات میں مذہب دخیل ہے جسے بے دخل کر کے ہمیں اسے ایک سیکولر ریاست بنانا چاہیے؟

ایک اسلامی ریاست کے نمایاں خدوخال یہ ہیں :

1۔ ریاست کا نظامِ حکومت شورائی خلافت پر مبنی ہوگا جس میں اصحابِ رائے کے مشورے سے اہل اور دین دار شخص کو حکومت کی ذمہ داری سونپی جائے گی اور اس کا لقب ”خلیفہ“ ہوگا۔

2۔ قرآن کی رُو سے ریاست کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہو گی کہ وہ اقامت صلوۃ کا اہتمام کروائے گی اور اس میں کوتاہی کرنے والوں سے بازپُرس کی جائے گی۔

3۔ صاحبِ نصاب مسلمانوں سے زکوۃ و عشر کی وصولی، مستحقین کو اس کی فراہمی اور زکوۃ نہ دینے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی ریاست کے فرائض میں شامل ہو گی۔

4۔ تندرست اور برسرِ روزگار غیر مسلموں سے سالانہ چار درہم جو تقریبا ڈیڑھ ہزار روپے بنتے ہیں، بطورِ جزیہ وصول کیے جائیں گے۔

5۔ عورتوں کے حقوق کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے دینی فرائض (جن میں پردہ بالتاکید شامل ہے ) ، ان کے اختیارات و دائرہءِ کار کی تحدید و تشریح اور قانونی سطح پر ان کا نفاذ کیا جائے گا۔ نیز صلاح مشورے میں ان کی شرکت کے باوجود سلطنت کا حاکمِ اعلیٰ کا منصب صرف مرد کو تفویض کیا جائے گا۔

6۔ پاک دامن مرد و عورت پر بہتان لگانے کی سزا اسی کوڑے، شراب اور زنا کی سزا سو کوڑے، مرتد (جب کہ اس کے تمام شکوک و شبہات اور سوالات کے عقلی اور مدلل جوابات دے کر اس کی تشفی کر دی جائے مگر وہ پھر بھی ارتداد پر مصر رہے گا تو اس) کی سزا قتل اورشادی شدہ بدکار کی سزا سنگسار ہوگی۔

7۔ حالات کی مناسبت اور ضرورت کو دیکھ کر اقدامی جہاد کیا جائے گا۔

اب ذرا انصاف سے بتائیے کہ کہ اسلامی اور مذہبی ریاست کے ان لوازمات میں سے کون سا لازمہ اس وقت پاکستان کے قانون کا جزو ہے جسے ختم کر کے ہم اسے ایک سیکولر ریاست بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اب ذرا سیکولر ریاست کی چند ایک خصوصیات بھی دیکھیے :

1۔ تمام لوگوں کو مذہبی آزادی ہو گی۔

2۔ اقلیتوں کو بلا تفریقِ مذہب اکثریت کے مساوی حقوق دیے جائیں گے۔

3۔ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

4۔ وہی قانون بنایا جائے گا جو ملک و ملت کے مفاد میں اور جمہور عوام کی رائے کے موافق ہوگا۔

5۔ عوام کو اپنے حکمران کے انتخاب کا پورا پورا حق حاصل ہوگا۔

اس بات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ ان میں سے کتنے نکات میں مذہب اور سیکولر ازم متفق اور کتنے میں مخالف ہیں یہ بتائیے کہ ان میں سے کون سی ”سیکولر قانونی نعمت“ ایسی ہے جس سے اس وقت پاکستان کا آئین محروم ہے۔

اب ذرا ان قوانین کی طرف آجائیے جو اسلامی قانون کے طور پر پاکستان کے آئین میں شامل ہیں اور ذرا تعیین فرمائیے کہ ان میں سے کون کون سی شقیں ایسی ہیں جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں یا ملکی خوشحالی کے لیے نقصان دہ ہیں تا کہ انہیں ختم کر کے فوری طور پر ایک مکمل سیکولر ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جائے:

1۔ توہینِ مذہب جرم ہے۔ تمام مذاہب کا احترام ضروری ہے۔

2۔ فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز تقاریر کرنا منع ہے۔

3۔ نکاح کے بغیر جنسی تعلقات استوار کرنا اور ہم جنس پرستی سنگین جرائم ہیں۔

4۔ شراب نوشی اور منشیات پر ”قانونی طور پر“ مکمل پابندی ہے۔

5۔ صدر اور وزیرِ اعظم کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔

6۔ احمدی (قادیانی) چونکہ مسلمان کی تعریف پر پورے نہیں اُترتے لہذا وہ ایک الگ مذہب کے پیروکار شمار کیے جائیں گے انہیں خود کو مسلمان ڈکلیئر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

7۔ توہینِ رسالت کی سزا قتل ہے۔

جہاں تک پہلی چار شقوں کا تعلق ہے تو میرا نہیں خیال کہ کوئی عقل مند ان کی مخالفت کرے گا اور انہیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ شمار کرے گا۔ رہی صدر اور وزیرِ اعظم کے لیے مسلمان ہونے شرط تو پچانوے فی صد مسلم اکثریتی ملک کے حکمران کے لیے یہ شرط کچھ نامناسب نہیں۔ نہ ہی اس سے ملک کی ترقیاتی صحت پر کچھ اثر پڑتا ہے۔ جب کہ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے علاوہ آرمی چیف، چیف جسٹس، وفاقی وزیر اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں تک تمام تر کلیدی عہدوں اور مناصب کی راہ قانوناً غیر مسلموں کے لیے کھلی ہے۔

تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ اس کی آڑ میں ذاتی انتقام کی آگ بجھاتے ہیں۔ اسی طرح توہینِ مذہب کے شبہے میں بے گناہوں کو قتل کردیتے ہیں۔ اگر مقتول مجرم ہو تب بھی انہیں قانون ہاتھ میں لینے کا تو کوئی حق نہیں پہنچتا۔ تو اس پر عرض یہ ہے کہ کیا اس بات کی اجازت انہیں آئین نے دی ہے؟ یا کیا ریاست ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ مشال خان کے قاتلوں وغیرہ کو ملنے والی سزا اس موقف کی یکسر نفی کرتی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ عورتوں اور اقلیتوں پر روا رکھے جانے والے ظلم و تشدد کا حوالہ دیتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ یہ تشدد قانون کی کس شق کی شہ پر ہو رہا ہے؟ اس کا تعلق تو تربیت کے فقدان، تعلیم کی کمی اور بالخصوص دینی احکامات سے ناواقفیت سے ہے۔ قانون میں کسی قسم کی تبدیلی کا مطالبہ کرنا بے سود ہے۔

احمدیت (قادیانیت) کے سلسلے میں عرض یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی صریح تصریحات اور امتِ مسلمہ کے متفقہ فیصلے کی رُو سے ختمِ نبوت کا منکر غیر مسلم ہے۔ پھر اُس پہ طرہ یہ ہے کہ خود احمدی بھی اس بات کے مدعی ہیں کہ وہ (معروف مسلمانوں سے ہٹ کر) ایک مستقل اور واحد برحق مذہب ہیں۔ اب آپ ایک چھوٹی سی کمپنی کو تو یہ حق دیتے ہیں کہ اس کا نام اور اس کا لوگو کسی اور کمپنی کی مصنوعات پر لگانا قانوناً جرم ہوگا لیکن پچانوے فی صد آبادی کو اس بات کا حق نہیں دیتے کہ اس کے مذہب کا نام اور دینی شعائر کو کسی اور مذہب کا پیروکار استعمال نہ کریں۔ کیا عقل و دانش کی بارگاہ میں یہ اقدام جائز ٹھہرے گا؟ پھر یہ سوال اپنی جگہ پر کھڑا ہے کہ ختم نبوت کا قانون سیکولر ازم کے مقصودِ اصلی یعنی ملکی ترقی کے حلق کے کس حصے کا کانٹا ہے کہ اسے نکالا جائے؟

اس کے بعد بھی اسلامی ریاست کے کچھ آثار اگر آپ پاکستان میں ڈھونڈنا چاہتے ہیں تو وہ یہ ہیں :

1۔ قانون میں ایک سطر برائے برکت درج ہے کہ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔

2۔ وطنِ عزیز کا نام ”اسلامی“ جمہوریہ پاکستان ہے اور دارالحکومت کا نام ”اسلام“ آباد ہے۔

3۔ پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ تحریر ہے۔

4۔ سرکاری تقاریب کا آغاز تلاوت سے ہوتا ہے نیز مذہبی تہواروں پر چھٹی ہوتی ہے۔

5۔ اسلامیات بطورِ لازمی مضمون شاملِ نصاب ہے۔

جو لوگ ریاست کو مذہب سے جدا کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو ایک لبرل اور سیکولر ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی میں اس کی ترقی کا راز مضمر سمجھتے ہیں کیا ان کا یہ کہنا ہے کہ مندرجہ بالا پانچ آثارِ مذہب کو بھی مٹا دیا جائے کیوں کہ یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ اگر نہیں تو پھر تعریفات، اصطلاحات اور نظریات کے خول سے باہر نکل کر بتائیں تو سہی کہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے لیے آپ اس کے آئین اور نظامِ حکومت میں کون سی تبدیلی لانا چاہتے ہیں؟ وہ کون سی دینی، اسلامی اور مذہبی قانونی شقیں ہیں جن کے خاتمے کے بعد ہمارے تمام تر سیاسی، سماجی، اقتصادی، امن و امان سے وابستہ اور تعلمی مسائل حل ہو جائیں گے۔

سچ تو یہ ہے کہ نظاموں اور ازموں میں کیا رکھا ہے۔ سعودی عرب کے اسلامی قوانین نے اسے ایک مضبوط معیشت اور پُر امن ملک بننے سے نہیں روکا اور بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست ہو کر بھی فرقہ واریت اور غربت کی آگ میں جل رہا ہے۔ ہمارے اربابِ لوح و قلم کو چاہیے کہ وہ اپنی فکر کی روشنائی سے اللہ کے آخری دین پر اعتراضات کرنے، اربابِ دین کی جبین سیاہ کرنے اور اپنی عاقبت برباد کرنے کی بجائے اپنی توانائیاں کسی تعمیری کام میں صرف کریں۔

حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ غربت، بے روزگاری اور اقتصادی زبوں حالی جیسے مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں۔ جہالت اور تعصب کے اندھیروں میں علم و آگہی اور رواداری کے چراغ جلائیں۔ پاکستان کے گھوسٹ نظامِ تعلیم کی اصلاح کے لیے قلمی جہاد کریں اور عدالت کے کٹہرے سے لے کر حکومت کے ایوانوں تک پھیلی نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جو ہماری ترقی کی را ہ میں حقیقی رکاوٹ ہیں۔ اسلام کو معاف کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).