جنرل ضیاء الحق ولی کامل؟


سترہ اگست کو جنرل ضیاء کی برسی تھی۔ گزشتہ دنوں پنجاب سے ایک بزرگ کوئٹہ تشریف لائے تھے۔ کسی مجلس میں جنرل ضیاء الحق کے متعلق گفتگو جاری تھی۔ جنرل ضیاء کو اسلام دشمن کہا جا رہا تھا۔ پنجاب کا بزرگ بھی مرد مومن کا شیدائی تھا۔ ایک دم لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ ضیاء تو وقت کا ولی اللہ تھا۔ میں نے اس کی قبر پر مراقبہ کیا ہے مجھے وہاں سے ولایت کی بو آئی ہے۔ ضیاء کے ولی کامل ہونے کا کشف ہوا ہے۔

یہ تو تھا پنجاب کے بزرگ کا کشف۔ اس سے یہ بات تو واضح ہوئی کہ ضیاء کی قبر میں کوئی اور مدفون ہے۔ یا پھر قبر میں کوئی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ 88 میں ڈی این اے ٹیسٹ بھی نہیں تھا۔ بلندی پر جہاز کے اندر بلاسٹ ہونے کے بعد پر انسانوں کا قیمہ ہی زمین تک پہنچے گا۔ صحیح سلامت پہنچنا مشکل نہیں نا ممکن یے۔ یہ ازراہ تفنن عرض کیا۔ اب آتے ہیں حقائق کی طرف۔

مولانا عبید اللہ سندھی رحمتہ اللہ فرماتے تھے کہ پنجاب میں صحیح الفکری نہیں۔ اب تک یہاں جو فکر پیدا ہوئے ان میں بالعموم سلامت روی اور توازن کی کمی ہے۔ مولانا سندھی کا کہنا بالکل درست ہے۔ پنجاب میں آج تک مجموعی طور پر پختہ سیاسی سوچ اور نظریہ پیدا نہیں ہو سکا۔ پنجاب سے فرقے تو بہت اٹھتے ہیں۔ فتنے ابھرتے ہیں۔ لیکن صحیح فکر پیدا نہیں ہوتی۔ جمہوری سوچ کا فقدان ہے۔ فرقہ پرست تنظیموں کی آبیاری پنجاب سے ہوئی۔

اس لیے میری رائے میں پنجاب کے بزرگ کا کشف قابل اعتبار نہیں ویسے بھی شریعت میں خواب اور کشف کو بطور دلیل پیش نہیں کر سکتے اور نہ یہ حجت ہے۔ جہاں تک رہی ضیاء الحق کی بات۔ اتنی بات تو یقینی ہے کہ ضیاء الحق کا اسلام کا نعرہ محض ایک دھوکا تھا۔ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ضیاء نے پاکستان کے سادہ لوح عوام کے سامنے اسلام کا نام لیا۔ ملک کو اسلامائزیشن کی طرف نہیں بلکہ ایکسٹریمیزم کی طرف لے جایا گیا۔ چالیس سال ہو چکے ہیں ہم ضیاء کی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک کو اسلحہ دیا۔ فرقہ پرست بنائے۔ دہشت گرد تنظیمیں بنائیں۔ نوجوانوں کو تعلیم کی بجائے کلاشنکوف کی تعلیم دلائی۔ ہم آج تک فرقہ پرستی اور دہشت گردی سے جان نہیں چھڑا سکے۔

ضیاء الحق نے افغانستان میں روس کا راستہ روکنے میں امریکا کا بھرپور ساتھ دیا۔ روس تو ٹوٹ گیا۔ امریکا سنگل سپر پاور بنا۔ دنیا بائی پولر سے یونی پولر بن گئی۔ روس کے ٹوٹنے سے امریکا دنیا کا مائی باپ بن گیا۔ جس کے نتیجے میں سب سے بڑا نقصان اسلام اور امت مسلمہ کو ہوا۔ اب آپ خود نتجہ نکالیں کہ جنرل ضیاء نے امریکا کے لیے جہاد کیا یا اسلام کے لیے۔ پاکستان سماجی معاشی اور سیاسی طور پر تباہ ہوا۔ اس کا کریڈٹ بھی جنرل ضیاء کے کھاتے میں جاتا یے۔ اس دور میں بہت سے علماء خصوصا جمعیت علماء اسلام نے ضیاء الحق کے اسلام کو منافقت سے تعبیر کیا۔ آج تاریخ نے جمعیت علماء کے موقف کو درست ثابت کیا۔

جہاں تک سیاسی معاملات کا تعلق ہے۔ جنرل ضیاء ایک ڈکٹیٹر تھا۔ عوامی حکومت پر اس نے ڈاکہ ڈالا تھا۔ مستبد اور جابر حکمران تھا۔ کسی بھی اعتبار سے اس کی حکومت جائز نہیں تھی۔ ایک حریت پسند کبھی بھی ایسے آمر کی حکومت کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ چہ جائیکہ اس کے فیصلوں کو۔ بھٹو کو جنرل ضیاء اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا تھا۔ اس لیے اسے راہ سے ہٹانا ضروری سمجھا۔ بھٹو کے عدالتی قتل کا ذمہ دار بھی جنرل ضیاء ہی تھا۔

پنجاب کا مولوی صاحب جس خوش فہمی میں مبتلا تھا اسے بتایا جائے کہ سال میں چار آدمی بھی جنرل ضیاء کی قبر پر فاتحہ پڑھنے نہیں آتے۔ حالانکہ مقبرہ معروف جگہ فیصل مسجد کے عقب میں ہے۔ جہاں لوگ گھومنے بھی آتے ہیں۔ لیکن ایک آمر کے مرنے کے بعد بے بسی ملاحظہ کریں۔ آج کوئی اپنی نسبت جنرل ضیاء کی طرف کرنا گوارا نہیں کرتا۔ جبکہ بھٹو کا نام آج بھی زندہ ہے۔ لاکھوں لوگ اسے فالو کرتے ہیں۔ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے مٹ جاتے ہیں۔ جبکہ عوام کے دلوں میں بسنے والے جمہوریت پسند لیڈر ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).