دنیا بھر کے عوام متنازعہ قیادت کیوں منتخب کر رہے ہیں؟


تاہم پہلے تین قائدین کی حد تک دو باتیں بہر طور کہی جا سکتی ہیں۔ نمبرایک۔ ترقی کے وہ وعدے جو ان تینوں نے مختصر مدت میں پورے کرنا تھے وہ آج تک پورے نہیں ہوسکے نریندرا مودی وعدوں کے پورا نہ ہونے کے باوجود دوبارہ منتخب ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے امکانات بھی کم نہیں ہے۔ عمران خان کے حامی بھی معاشی ترقی کو کرپٹ حکمرانوں کی پھانسی سے مشروط کیے بیٹھے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی ان تینوں ملکوں میں پہلے سے زیادہ مشکل ہوئی ہے لیکن ان تینوں قائدین کی گفتگو کا موضوع بھی وہی ہے اور زور خطابت بھی اسی طرح اور بدستور جاری و ساری ہے۔ یعنی نہ وعدے پورے ہوئے اور نہ گفتگو کا اسلوب بدلا۔

دوسرے، سب سے اہم کارنامہ جو ان تینوں کے ساتھ ساتھ بورس جانسن جیسے قائدین نے انجام دیا ہے وہ معاشروں کو تقسیم در تقسیم کے ایسے پیچیدہ مرحلے میں داخل کر دینا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ کم ازکم مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتا۔

معاشرے کے مختلف گروہ اپنی زندگیوں کی خراب صورتحال کا ذمہ دار اسی معاشرے میں رہنے والے دوسرے افراد کو ٹھہرا کر ان سے قطع تعلق کی راہ پر گامزن ہیں۔ سیاسی اختلافات نے آج جیسی شدت، تلخی اور بد تہذیبی ماضی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ میری اس بات کا ثبوت معاشرے کے ہر گروہ میں سکڑاؤ کا عمل ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ ہر گروہ چاہے وہ سیاسی ہو مذہبی ہو یا سماجی مسلسل چھوٹے سے چھوٹا ہوتا چلا جارہا ہے۔ سکڑاؤ کے اس عمل میں اختلافات کو ہوا دینے والے قائدین عوام کی جذباتی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔

اس عمل میں مخدوش اقتصادی صورتحال (جس کو جان بوجھ کر خراب رکھا جاتا ہے ) کہ مبینہ ذمہ داروں کے خلاف زور خطابت کو عوام اس لیے پسند کرتے ہیں کیونکہ اس طرح انہیں اپنے غصے کو نام اور سمت دینے میں آسانی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی عوام جب یہ سنتے ہیں کہ ان کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار کرپٹ سیاستدان ہیں تو ان کی راحت دیدنی ہوتی ہے اس طرح کم از کم انہیں یہ علم ہو جاتا ہے کہ ان کو اس حال تک کس نے پہنچایا ہے۔

یہاں کچھ دانشوروں کو یہ گمان گزرا کہ شاید یہ عمل پوسٹ ٹروتھ ہے۔ یہ طالب علم اس ضمن میں گزارش کر چکا اور اب مزید وضاحت کر رہا ہے کہ یہ پوسٹ ٹروتھ سے کہیں زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ عوام کو فراہم کی جانے والی ان معلومات کے درست یا غلط ہونے پر نہ کسی کا دھیان ہوتا ہے اور نہ توجہ۔ کیوں کہ صحیح حقائق کا ادراک ان کے غصے کو بے سمت کر سکتا ہے اور وہ دوبارہ بے بسی کے اس احساس میں ڈوب سکتے ہیں کہ جہاں نہ قاتل کی خبر ہوتی ہے اور نہ انتقام کا یارا۔

جذباتی تسکین اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نو آبادیاتی استعمار وقتا فوقتا جن معاشرتی گروہوں کو ان قائدیین کے ذریعے خراب صورتحال کا ذمہ دار قرار دے ان گروہوں کے خلاف یہ معاشرے ہمہ وقت آمادہ جہاد رہیں۔ ہندوستان امریکہ اور اب پاکستان میں ایسے قائدین نے معاشی ترقی کے جو اہداف حاصل کیے ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ لیکن ان ملکوں کی عوام کو یہ یقین ضرور دلا دیا گیا ہے کہ ان کی خراب صورتحال کے ذمہ داروں کا تعین کرلیا گیا ہے اب عوام کم ازکم اس سرشاری میں ضرور مبتلا ہیں کہ ذمہ داروں کا تعین ہو چکا ان کے کیفر کردار تک پہنچتے ہی اچھے دن ضرور طلوع ہوں گے۔

یہ دن نہ بھی آئے تو کم از کم ان مذکورہ قائدین نے اپنے ملکوں کے عوام کے لئے غصے کی سمت کا تعین بہرحال کر دیا ہے امید کی جاسکتی ہے کہ جدید نو آبادیاتی استعمار میں ایسے قائدین عوام کی جذباتی ضرورت کو پورا کرنے کا کام اسی طرح سر انجام دیتے رہیں گے۔ اس لئے بجا طور پر یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں اسی قبیل کے قائدین کی کامیابی کے امکانات روشن رہیں گے۔

خلاصہ کلام کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدید نوآبادیاتی نظام کو ایسے قائدین کی ضرورت رہتی ہے کہ جو معاشروں میں انتشار پیدا کرتے رہیں۔ مذکورہ چار قائدین کے علاوہ بھی اسی طرح کی مزید قیادت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایسی قیادت جو معاشروں کو اتحاد اور اتفاق کی جانب لے جا سکے بتدریج منظر سے غائب ہوتی چلی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2