بلوچستان کا ٹوئٹری راجا


بلوچستان جہاں گزشتہ ایک سال سے حکومت کی طرف سے اصلاحات کا ڈھونگ ٹوئٹر پر پیٹا جا رہا ہے۔ وہیں پر صوبے میں حکومتی معاملات پرانے حکومتوں سے بھی بدتر بنا دیے گئے ہیں۔ ہر چاپلوسی کرنے والے افسر کو اچھی پوسٹنگ، جبکہ غلط حکومتی احکامات سے انکاری افسر ان کو کُھڈے لائن لگایا جارہا ہے۔ موجود وزیراعلی بلوچستان اپنے سے پہلے بلوچستان سابق وزرائے اعلی جن میں ان کے دادا اور والد محترم بھی شامل ہیں کی طرز حکمرانی سے بھی سخت نالاں نظر آتے ہیں۔

وہ جب بھی قومی میڈیا یا پھر ٹوئٹر پر نمودار ہوتے ہیں تو صوبے سے دور لوگوں کو یوں لگتا ہے کہ وہ یوں کام کر رہے ہیں جیسے کوئی خلیفہ وقت کر رہا ہو۔ ہو لیکن حقائق اور سرکاری ریکارڈ کے کاغذات دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ سب الفاظ کی ہیر پھیر کہ سوائے کچھ نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے اقدامات کم اٹھائے گئے جہاں پر ایک پٹواری کے خاطر ہر ایک ڈویژن کے کمشنر کو تبدیل کیا گیا جائے لیکن موجودہ حکومت کو یہ سعادت حاصل ہے۔

ایسے میں اس کو گوڈ گورننس کہا جائے تو توہین ہوگی۔ پاکستان ایڈمنسٹریشن سروس کے ایاز مندوخیل نے بطور کمشنر سبی ڈویژن دو پٹواری کو کرپشن کے الزام میں اپنے ڈویژن میں ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں تبدیل کیا جو کہ رولز آف بزنس کے تحت ان کا اختیار تھا۔ لیکن شفافیت کے دعویدار حکومت نے کمشنر سبی کو پٹواریوں کو واپس اپنی جگہ پر لگانے کا حکم دیا گیا۔ کمشنر نے خلاف قانون حکومتی حکم ماننے کے بجائے حکومت کو تحریری طور پر بتایا کہ یہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے۔ حکومت بلوچستان کو اپنے انتظامی سربراہ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بلوچستان، کوئٹہ ذریعے لکھے ہوئے خط جس کا عنوان۔ گریڈ 1 سے 15 تک کے ریونیو ملازمین کی غیر اختیاراتی ٹرانسفر۔ بحوالہ بورڈ آف ریونیو بلوچستان آرڈر نمبر 65 A 3 بتاریخ 20 اگست 2018 جس کے ذریعے پٹواری محمد رفیق کو ضلع ہرنائی سے ضلع ڈیرہ بگٹی تبادلہ کیا گیا ہے۔ آرڈر نمبر 365 A 3 بتاریخ 31 اگست 2018 جس کے ذریعے 2 پٹواری الہی بخش اور مہر گل کو ضلع زیارت اور ڈیرہ بگٹی سے ضلع ڈیرہ بگٹی تبادلہ کیا گیا۔ اور آرڈر نمبری 83 اے 3 / 404۔ 09 22 فروری 2018 جس کے ذریعے کمشنر مکران ڈویژن بمقام تربت کی جانب سے کی ہوئی پٹواریوں اور قانونگو کی ٹرانسفرز اس جواز کے ساتھ منسوخ کی گئیں کہ سکیل نمبر 1 تا 17 کے تبادلہ کے لئے مجاز اتھارٹی وزیر مال ہیں۔

2۔ بمطابق نوٹیفیکیشن نمبری

SO (R۔ I) ۔ 3 ( 9 ) / 2012۔ S&GAD/ 2116۔ 2215

بتاریخ 17 جولائی 2012 سلسلہ نمبر 10 گریڈ پے سکیل 1 سے پے سکیل 17 ریونیو سٹاف کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے لئے مجاز اتھارٹی وزیر مال ہے۔ اسی نوٹیفیکیشن کے مطابق وزیر مال/ بورڈ آف ریونیو عملہ مال بالخصوص پٹواریوں کے تبادلے کے احکامات جاری کر رہا ہے۔ جبکہ جب بھی کمشنرز نے ریونیو عملہ با لخصوص پٹواریوں کے تبادلہ کے احکامات جاری کیے تو بورڈ آف ریونیو نے اس کا سختی سے نوٹس لیا، جبکہ کلرکس اور اسسٹنٹس کے تبادلہ کے بارے میں کیے جانے والے کمشنرز کے احکامات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

3۔ 9 جولائی 2018 کو ایس اینڈ جی اے ڈی نے اپنے مراسلہ نمبر

SO (R۔ I) 5 ( 13 ) S&GAD۔ 2018۔ 1841

کے ذریعے اعلی عدالتوں کے فیصلہ جات سے جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا سی پی نمبر 2812 / 2017 اور ہائی کورٹ آف بلوچستان کا سی پی نمبر 138 برائے 2018 تمام متعلقین بشمول دفتر ہذا کو برائے عمل درآمد مطلع کیا ہے۔ ہائی کورٹ آف بلوچصتان کے فیصلہ کے پیرا 23 کے متعلقہ سب پیراز میں ذکر ہے کہ :۔

” (IV)
نوٹیفیکیشن بتاریخ 17 جولائی 2012 سرکاری ملازمیں کی تحیناتی اور تبادلہ کی حد تک منسٹرز کو تفویض کردہ اختیارات آئین میں بیان کی گئی سکیم آف گورننس اور متعلقہ قواعد کے صریحا ”خلاف ہیں اور ان کی کوئی فانونی حیثیت نہیں ہے“

” (IX)
سرکاری عملداروں کی جانب سے سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے احکامات کی تعمیل مین ناکامی کی صورت میں چیف سکریٹری اور انتظامی سکریٹری آئین کے آرٹیکل 204 ( 3 ) (a) کے تناظر میں توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے ”

4۔ حکومت بلوچستان کے رولز آف نزنس کے رول نمبر 22، شیڈول 3، سلسلہ نمبر 4 کے مطابق گریڑ 1 تا 15 کے تبادلہ کی مجاز اتھارٹی ہیڈ آف اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹ/ کمشنر ہے۔ اور یہ رول لاگو ہوتا ہے جبکہ ایس اینڈ جی اے ڈی کا متعلقہ نوٹیفیکیشن عدالت عالیہ غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔

5۔ مندرجہ بالا حقائق اور رولز آف بزنس 2012 اور بالا عدالتوں کے فیصلہ جات کی روشنی مین یہ دفتر وزیر مال کی جانب سے جاری کیے گئے تبادلہ کے احکامات پر عمل درآمد سے قاصر ہے۔

اس خط کے بعد کمشنر کو نہ صرف اپنا خط لینے کا واپس لینے کا کہا گیا بلکہ کہ اس گستاخانہ خط لکھنے پر حکومت ناراض بھی ہوئی یہاں تک کہ اس کو نہ صرف عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ بلکہ کہ آٹھ مہینوں سے سے او ایس ڈی رکھا ہوا ہے جبکہ ہمیں روز ٹوئٹر پر پر کوئی نہ کوئی نوید ٹیوٹر والی سرکار کی جانب سے سنائی جاتی ہے یہاں سب کچھ بہترین ہورہا ہے

کیا یہ وزیراعلیٰ کی شان کے خلاف نہیں ہے کہ کوئٹہ میں میں ایک روڈ پر اس کے نام کا بورڈ آویزاں کردیا جائے اور وزیراعلیٰ اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے نہ صرف شیئر کریں بلکہ خوشی سے پھولے نہ سمائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).