ہاری ہلچل کا بڑا کردار کامریڈ عثمان لغاری


\"ibarhim
ابراھیم کنبھر

۲۳ ستمبر کی تاریخ گذر گئی ، مجھے اس دن سندھ کے سفید بالوں والے اس بوڑھے کامریڈ کی بہت یاد آئی جس نے اپنی ساری زندگی بائیں بازو کی سیاست، ترقی پسند، لبرل، جمہوری، نظریاتی اور انقلابی تحریکوں کے لئے وقف کر رکھی تھی۔

وہ جس کا چہرا پرکشش تھا، اس کے لبوں پر صدیوں سے مسکراہٹیں شاد و آباد تھیں، وہ کامریڈ جس نے کئی تحریکوں کو ابھرتے، بڑھتے، سرگرم ہوتے اور پھر کمزور اور غیرفعال ہوتے بھی دیکھا لیکن وہ ایک دن کے لئے بھی مایوس نہیں ہوا، وہ کبھی تھکا نہیں، ہارنہیں مانی، امیدیں تو جیسے اس کی پلو میں بندھی ہوئی ہوں، وہ اور اس کی جدوجہد خود ایک حوصلہ تھی، ڈھارس بندھانا اور تسلی دینے میں کمال کی مہارت رکھتا تھا۔ وہ چاچا ، ادا ، کامریڈ اور سائیں۔ ۔ ایسا لگتا تھا جیسے مظلوموں کی فتح کا دن بس آنے والے کل کے سورج کے ساتھ ہی ہمارے دہلیز پر آئے گا۔ ۔ وہ جسے گلے ملتے ہی ہم سارے زمانے کے دکھ درد بھول جایا کرتے تھے، شاعر ایاز گل نے کہا ’’تم تک کیا پہنچے، میرے نینوں کی ساری تھکن ختم ہوئی‘‘۔ ان سے بات کرکے اور باتیں کرنے کو دل چاہتا تھا، وہ کم گو تھا لیکن بقول فراز وہ بولیں تو واقعی لبوں سے پھول جھڑا کرتے تھے۔

اس کامریڈ کو میں نے بہت نزدیک سے دیکھا تھا، کئی برسوں تک اس سے تعلق، رابطااورگپ شپ رہی، وہ سراپا سندھ تھا، اپنا وطن، اپنی مٹی ، اپنی زبان، اپنے وسائل، اپنی پہچان، ان کی سب باتیں ، بحث مباحثے، گپ شپ ان ہی موضوعات پر شروع ہوکر ختم ہوا کرتی تھیں۔ ان کے دل میں مظلوم ، محکوم اور پسے ہوئے عوام کے لئے کچھ کرجانے کی ایک تڑپ تھی، سندھ کی دھرتی اسکا پہلا عشق رہا، شعور کی آنکھ کھولنے سے لیکر مرگ بستر کی آخری ہچکی تک اس نے اپنی مٹی سے وفا نبھائی ، پھر ہلتی اور بند ہوتی آنکھوں میں محکوم طبقے کی آزادی کے سپنے سجا کروہ ہم سب سے بچھڑ گئے۔

\"usman-laghari\"

یہ تعارف تو یوں بھی کرایا جا سکتا ہے کہ ا س کا نام عثمان لغاری تھا، وہ حیدرآباد اور بدین دو اضلا ع کے بیچ اپنے گاؤں سکندر لغاری کا باسی تھا، اپنے بڑے بھائی کامریڈ لقمان جنہیں وہ زندگی کا پہلا دوست مانتے تھے ، سے متاثرہوکر سیاست میں کب پاؤں رکھا وہ دن اسے بھی یاد نہیں تھا، لیکن دونوں بھائیوں نے ہاری ہلچل سے سیاست کا آغاز کیا اور پھر دنوں نے پہلے اپنے گھر پھر گھرانے، گاؤں، آس پاس کے دیہات، تحصیل اور پھر پورے ضلعے کو سیاست کا مرکز ہی بنا دیا۔ کامریڈ عثمان اس ساتھ کا ساتھی تھا جس نے پاکستان بننے کے فوری بعد ہاری حقوق، نظریاتی سیاست اور طبقاتی جدوجہد کے نعروں سے صوبے کے جاگیردار اور سرمایہ دار گٹھ جوڑ کی نیندیں حرام کررکھی تھیں۔ نئے نویلے دیس میں سندھ کے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں، میروں پیروں اور سرداروں کو اگر کسی تحریک سے حقیقی طور پر خطرہ محسوس ہوا تو وہ ہاری ہلچل تھی۔ جب بعض بانیان پاکستان اور سندھی مسلم لیگی اکابرین نئے ملک میں حصول اقتدار، سندھ کی ہندو آبادی کو سرحد پار بھگانے اور نئے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کی تیاریوں کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف اقتداری سازشوں میں مصروف عمل تھے، اس وقت بھی سندھ میں ایک طبقے نے ہاری حقوق کا نعرہ بلند کرکے برابری کا مطالبہ کیا تھا، کامریڈ عثمان لغاری بھی اسی تحریک سے وابسطہ ایک سیاسی رکن تھا۔

کچھ ہی عرصے میں ہاری حقوق کی یہ تحریک نے ایسا زور پکڑا کہ سندھ کے حاکم زادے اپنے محلوں میں کانپ اٹھے، پھر ان جاگیرداروں نے کسان حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں۔ جب 1949ء میں مولوی نظیر احمد، عبدالوحید سومرو اور کئی ہاری لیڈروں کو گرفتار کیا گیا تو ان کے حق میں بات کرنا بھی جرم ٹھرا۔ ایک مسلم لیگی رہنما اور صوبائی وزیر پیرالہی بخش نے کسانوں کے حق میں بات کی تو ایوب کھوڑو نے اسے مسلم لیگ سے ہی نکال دیا ایک اور اسمبلی ممبر قاضی مجتبیٰ بھی ہاری تحریک کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں بولے تو اسے بھی چیف پارلیمینٹری سیکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔

اس زمانے میں ایوب کھوڑو کے دست راست وزیرداخلہ سندھ قاضی فضل اللہ نے تو حد ہی کردی۔ اس نے ہاری کمیٹی کے سربراہان پر یہ الزامات لگائے کہ’’ہاری کمیٹی والے سب کے سب غیر مسلم کمیونسٹو ں سے مدد لیتے ہیں اور انہوں نے مرکزی اور صوبائی حکومت پر حملہ کرنے کی سازش کی ہے‘‘۔ یہ ان وڈیروں کا خوف نہیں تو اور کیا تھا ان سب کا سربراہ تھا خان بہادر ایوب کھوڑو۔ جی یہ وہی کھوڑو تھے جنہوں نے آگے چل کر انتخابات میں اپنے برادر نسبتی کو جتوانے کے لئے کامریڈ حیدر بخش کو نہ صرف گرفتار کروایا تھا بلکہ ان کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کروا دیے تھے۔ 24 اگست 1949ء کو جب دادو جوہی کے صوبائی حلقے پر ضمنی اتخابات ہو رہے تھے تو ایوب کھوڑو نے اپنے برادر نسبتی عبداللطیف کو امیدوار نامزد کیا۔ اس کے مقابلے میں حیدربخش جتوئی، مقامی وکیل شفیع محمد، پیرالہی بخش کا بیٹا شاہ نواز اور ہاری لیڈر تاج صحرائی امیدوار تھے، لیکن اصل مقابلہ جاگیرداروں اور ہاریوں کے امیدواروں کے درمیان تھا۔ اسی خوف کی وجہ سے حکومت نے حیدربخش جتوئی کو گرفتار کروایا اور اس کے نامزدگی فارموں پر جعلی دستخط ہونے کے اعتراضات لگا کر اس کو انتخابات میں حصہ نہیں لینے سے محروم کردیا گیا۔ تاج صحرائی کا نام ووٹر لسٹ سے نکلوا کر کہا گیا کہ یہ بھی اہل نہیں مقامی وکیل کو گرفتار کروا لیا گیا اور پیرالہی بخش کے بیٹے کی عمر ایک ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے ذریعے کم کروا کر اسے بھی نااہل کروا دیا۔ کامریڈ عثمان اسی حیدربخش جتوئی کا یار تھا اسی تاج صحرائی کا بیلی تھا۔

مولوی نذیر احمد، عبدالوحید سومرو، حیدربخش جتوئی، کامریڈ سوبھو گیانچندانی، کامریڈ جام ساقی، شہید نذیر عباسی ، عزیز سلام بخاری، قاضی فیض محمد، رئیس بروہی، کامریڈ روچی رام، قاضی غفار، ابن حیات پنہور اس سیاسی ہلچل کے بڑے نمایاں کردار رہے ہیں، جو تھوڑے بہت فرق سے اس سفر کے ساتھی بنے تھے۔ لیکن اس تحریک میں کامریڈ عثمان لغاری اور اس کے کئی دوست بھی گمنام خاموش سپاہی بن کر کام میں لگے ہوئے تھے، جن کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا، جن میں قادر بخش طالبانی، محب علی نظامانی، باقر سنائی، پھوٹو رستمانی، لیاقت جامی، احسان عظیم، ان کا ساتھی سائیں بشیر پنھور، علی محمد خاصخیلی ، احمد خان لغای، کامریڈ عثمان ان سب کے لئے ہر وقت حاضر ہوا کرتے تھے۔ اب تو ان میں کچھ لوگ زندہ ہیں پر جو بھی ہیں وہ اب بھی اسی نظریے پر ثابت قدم ہیں۔ انقلابیوں کے ہراول دستوں کے ساتھ ان کامریڈوں کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے جو پچھلی صفوں میں تادم مرگ مستقل مزاجی سے جہد مسلسل کا عملی نمونہ ہوں اور اس تحریک کا ایک حصہ رہیں۔ ایسے سیاسی کارکنان کے بارے میں آج بھی کوئی سروے کروایا جائے تو وہ ہزاروں کی تعداد میں مل جائیں گے ، جن کی انقلاب سے جمھوریت تک کی ہوئی جدوجہد ان دکھاوے والے سیاسی کارکنوں سے ہزاروں گنا زیادہ ہوگی جنہوں نے اس جدوجہد کو بعد میں کیش کروا کر اچھی نوکریاں اور رعایتں لی ہیں۔

سندھ میں ان گنت کامریڈ اب بھی ہیں جو ایک جہد مسلسل کی علامت ہیں۔ ان سیاسی ورکروں کی سچائی کو سلام ہے جو سالوں کے اس سفر میں تھکے نہیں ، جمعوں نوحانی، عارب کیڑانو، کرم وسان، فضل نوڑھیو، حاجی ماستر اوباھیو جونیجو، ماموں اشرف رند، انور نوحانی، سراج سیال، سائیں فیض محمد ٹالپر، محمد بخش جرورا، لال محمد جروار، رسول بخش خاصخیلی، زورآور خان، ڈاکٹر دلدار لغاری اور ایم آرڈی جدوجہد میں جیلوں میں جانے اوروالے کئی گمنام سیاسی ورکرز ان کے علاوہ ہیں جن پر سندھ کو آج بھی ناز ہے۔

کامریڈ عثمان بھی وہ سچا سیاسی سپاہی تھا جس نے آخری سانس تک تھک ہار کر مایوس ہونے کا تاثر تک نہیں دیا۔ یہ بات الگ ہے کہ ساری عمر اسے بڑے بڑے سیاسی اسٹیجوں پر بیٹھنے کی کبھی عادت نہیں رہی، نہ وہ کسی مائیک ، ڈائس اور روسٹرم پر تقریر کرنے کا شوقین تھا، اور تو اور اس کے آس پاس رہنے والے کئی لوگوں کو یہ تک پتا نہیں تھا کہ اپنی بھرپور جوانی میں ایک فوجی آمر کے قائم کردہ فوجی کورٹ کے فیصلے کے بنیاد پر نہ صرف وہ جیل میں گیا بلکہ ہاری ہلچل اور کسانوں کے حقوق کی بات کرنے کے جرم میں وہ کوڑوں کی سزا کھا چکا تھا۔ سر بازار کوڑے کھا کر بھی وہ سیاست میں ایک عام کارکن کی طرح رہا۔ اس نے کبھی اپنی اس سیاسی قربانی کو کیش کرنا تو درکنار ذکر تک نہیں کیا۔ یہ بات یا تو اس کے گھر والوں کے علم میں تھی یا اس کے جیل کے ساتھیوں اور کامریڈوں کو۔ وہ جب تک زندہ رہے اس نے سندھ میں ہونے والے ہر اس جلسے میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھا ، جہاں اپنی مٹی، اپنی دھرتی، اپنی زبان، شھری آزادیوں، بنیادی حقوق، انقلاب، نظریہ، فکر اور جمہوریت اور محکوم عوام کے اتحاد کی بات ہوتی ہو۔ یا وہ پروگرام جس میں سامراج، ظلم، آمر اوروقت کے ظالم حاکم کے خلاف تقریریں احتجاج اور تقریریں ہوں۔

سندھ کی نظریاتی سیاست کی نیا ہچکولے ضرور کھا رہی ہے اور سندھ کی سیاست کبھی اس طرح جمود کا شکار نہیں رہی جیسے اب لگ رہی ہے۔ وہاں انقلاب کی آرزو تھی، برابری اور سراسری کے نظام کی دھڑکتی امنگ تھی۔ اب تو اس کی جگہ کھوکھلے نعروں ، جھوٹے وعدوں ، جھانسوں اور بینظیر جیسی عظیم ہستی کے نام پر خیراتی کارڈ ز والی سیاست نے لے لی ہے جسے ایک دن دم توڑنا ہی ہے۔ کیونکہ سندھ میں مزاحمتی تحریکوں کا ایک ریکارڈ ہے، اور سندھ کے کامریڈ عثمان لغاری جیسے کئی مزدور کسان دوست سیاسی ورکر ہیں جو ہر تحریک کا حصہ رہے ہیں۔ یہ تو غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی’’مہربانی‘‘ ہے کہ سندھ میں نظریاتی، فکری اور انقلابی سیاست جمود کا شکارہے۔ نظریاتی سیاست کے آگے بند باندھنے والی جماعت کو آج خود ایک نئے نظریے کی تلاش ہے، کیونکہ وہ بھی تو اپنی فکر اور سیاسی فلسفے سے مکر چکی ہے۔

پہلے کامریڈ لقمان اور پھر کامریڈ عثمان کی سیاسی اور ہاری تحریک میں سرگرمی تھی کہ بکھودیرو کے شیر حیدربخش جتوئی مہینے دوسرے مہینے اگھامانی ، گلاب لغٖاری اور چمبڑ میں دکھائی دیتا تھا۔ چمبڑ میں ہاری ورکز زمین داروں کے ظلم سے اتنے تنگ آگئے کہ انہوں نے ہاری عدالتیں لگائیں، جن میں ہاری خود منصف بن کر بڑے زمینداروں کے خلاف مقدمہ چلاتے تھے۔ آخر میں زمینداروں کو بھاری جرمانہ کی سزائیں دی جاتی تھی۔ سندھ کے زمین دار اس زمانے میں بھی چڑھتے سورج کے سلامی اور حاکم وقت کے بندے تھے اس لئے پیدل پارٹی کامریڈوں کی کورٹ سے سزا کا ان پر کوئی خاص اثر نھیں ہوتا تھا البتہ یہ ضرور تھا کہ وہ خواری سے بچنے کے لئے ہاریوں پر ہاتھ ہلکا رکھتے تھے اور انہی عدالتوں کی وجہ سے جاگیرداروں میں تحریک کا خوف بیٹھ گیا۔

کامریڈ عثمان کی بیٹھک کسی سیاسی اور نظریاتی یونیورسٹی کے مثل تھی۔ میں نے اس بیٹھک پر جب بھی دیکھا تو سیاسی گپ شپ، بحث مباحثہ ہوتے دیکھا، آس پاس کیا پورے سندھ کے کامریڈوں کے لئے عثمان لغاری کا گاؤں دوسرا گھر تھا۔ نذیر عباسی اور کامریڈ جام ساقی سے لیکر سینکڑوں سیاسی ورکر اورسربراہ جب گرفتاری سے بچنے کے لئے انڈر گراونڈ ہوا کرتے تھے تو ان کے پاس چھپنے کے لئے کا مریڈ عثمان کی آغوش پہلا آپشن ہی ہوا کرتا تھا اور واقعی کامریڈ کی آغوش ماں کی آغوش سے کم نہیں ہوا کرتی تھی۔ پھر ایسا ہوتا تھا کہ کئی مہینے اور سالوں تک کامریڈ اسی گاؤں میں پناہ لئے ہوئے ہوتے، لیکن کامریڈ کی وہ بیٹھک، کامریڈ کا گاؤں اور آس پاس کے دیہات بھی کامریڈ کے گذر جانے کے بعد جیسے ویران ہو چکے ہیں۔ وہ بیٹھک جہاں سیاسی بحث مباحثوں میں راتیں گذر جاتی تھی اب اس بیٹھک کبھی کبھی کوئی مہمان آتا ہے۔ وہ ادبی سیاسی نشستیں ا ب ماند پڑچکیں، نہ کوئی بحث نہ سرگرمی، بس کامریڈ کی پوتی ننھی گڑیا سورٹھ لغٖاری اکیلی ہی اپنے استاد اور دادا کے خوابوں کو تعبیر دینے کے لئے سیاسی درس و تدریس کو آگے بڑھا رہی ہے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments