پکی رائفل اور کھڑک سنگھ


اگلے وقتوں کی بات ہے۔ ہرنام سنگھ اور کھڑک سنگھ دو ہمسائے ہوا کرتے تھے۔ دونوں کے گھر اور کھیت ساتھ ساتھ تھے۔ جہاں دو برتن ہوں کھنکھناہٹ تو ہوتی ہے۔ سو دونوں میں نوک جھوک چلتی رہتی۔ ہرنام سنگھ کے پاس زمیں جائیداد نوکر چاکر سب کچھ تھا مگر کھڑک سنگھ کا گزارا بمشکل ہوتا تھا۔ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے زندگی سبک اور تیز رواں تھی۔ دونوں میں توتکرار معمول تھا۔ ایک دن کھڑک سنگھ جسے کھانے کے لالے پڑے تھے اس نے اپنا جینے کا سہارا زمیں اور ڈنگر بیچے اور پکی رائفل خرید لایا۔

سارا گاؤں کھڑک سنگھ کا ٹھٹھا اڑانے لگا۔ ہر کوئی اس پہ پھبتیاں کستا۔ کسی نے کہا کھڑک سنگھ تیرے پاس ہے کیا جس کی حفاظت کے لیے تو پکی رائفل اٹھا لایا ہے۔ کسی نے کہا کھڑک سنگھ کا کڑا اور کچھا چوری نہ ہوجائے اس لیے رائفل خریدی ہے۔ کسی نے کہا بے چارا غریب ہے رائفل لے آیا ہے اب چوکیداری کرکے بچوں کا پیٹ پالے گا۔ کسی نے کہا کھیتی سے کہاں اس کا پیٹ بھرتا تھا اب شکار کرکے کھائے گا۔ رائفل کھڑک سنگھ کی چھیڑ بن گئی مگر وہ اپنے موج میں مست۔

دو چار سیانوں نے ہرنام سنگھ کو کہا خبردار ہوجا اپنا انتظام کرلے دشمن دار ہے تو بھی معصومیت میں نہ مارا جائے۔ ہرنام سنگھ نے سب باتیں ایک کان سے سنی اور دوسرے کا نکال دیں۔ ہرنام سنگھ پیٹ بھر کر کھاتا ڈکار مارتا اور واہ گُرو کی مالا جپتا۔ ایک شام حسب روایت ہرنام سنگھ اور کھڑک سنگھ میں چوپال میں لڑائی ہوگئی۔ ہرنام نے کھڑک کو بے نقط سنانا شروع کردیں۔ کہا کھڑک سنگھ تو دو ٹکے کا آدمی ہے تیرے پاس ہے کیا۔

دیکھ میرے پاس دولت ہے، زمیں ہے، مال ڈنگر ہے۔ تو کہاں زمانے بھر میں خوار ہورہا ہے میری چاکری کرلے دو وقت کی روٹی تو ملے گی۔ گوش بر آواز مجمع میں کھڑک سنگھ نے ہرنام کی باتیں سنیں اور کہا۔ ہرنام سیوں تو نے دھن دولت اکٹھا کیا، زمیں جائیداد بنائی، مال ڈنگر پالے مگر تو ان کی حفاظت کا انتظام نہیں کیا۔ ہرنام سیاں تو تیرے نوکر چاکر جائیداد سب کچھ اس تین انچ کی گولی کے آگے ہیچ ہیں۔ ٹھاہ کی آواز آئی ہرنام سنگھ کھیت رہا۔ کھڑک سنگھ ہرنام سنگھ کے حرم سمیت ہر چیز کا مالک ٹھہرا۔

جس کی لاٹھی اس کی بھینس
جس کا ڈنڈا اس کا دھندا

گردش ایام کی رکاب تھام کر پیچھے کی طرف دیکھیں تو یہ 1973 کی عرب اسرائیل کی جنگ کا زمانہ تھا۔ سرحدوں پہ کشیدگی عروج پہ تھی۔ دونوں طرف سے آتشیں اسلحہ اور ہر طرح کے جنگی حربے آزمائے جارہے تھے۔ کون جیتا کون ہارا یہ کہانی پھر سہی۔ اسرائیلی قیادت کی باگ ڈور اک خاتون گولڈا میئر کے ہاتھوں میں تھی۔ اسرائیل کو ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے مگر اس وقت اسرائیل کی بنیادیں اور دفاع اس حد تک مضبوط نہیں تھا۔ اسرائیل اپنے بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔

ایک دن امریکی اسلحہ کمیٹی کا سربراہ سینٹر اسرائیل آیا۔ اس کی گولڈا میئر سے ملاقات طے تھی۔ شام کا وقت تھا دفتر کا ٹائم ختم ہوچکا تھا لہٰذا وزیر اعظم گولڈا میئر نے اسے گھر پہ ملاقات کی دعوت دی۔ ملاقات بہت اہم اور ضروری تھی اس لیے سینٹر رضامند ہوگیا۔ گولڈا میئر نے خود ہی چائے بنائی امریکی سینٹر کو چائے کی پیالی تھمائی اور بات چیت شروع ہوگئی۔ یہ کوئی کوئی ادھر ادھر کی باتیں نہیں اسلحہ خریداری کی ڈیل تھی۔ میزائل، طیارے، توپیں ہتھیاروں کی سودے بازی تھی۔ چائے کی پیالی کے اختتام تک معاملات طے پاگئے اور گولڈا میئر نے امریکی سینٹر کو کہہ دیا ہمیں سودا منظور ہے۔

اگلے روز وزیر اعظم گولڈا میئر نے معاہدے کی تفصیلات کابینہ کے سامنے رکھیں۔ کابینہ نے اعتراضات کا طوفان اٹھا دیا اور ڈٹ کر معاہدے کی مخالفت کی۔ کابینہ کا موقف تھا اگر اسلحہ خریدا گیا تو برسوں تک اسرائیلی قوم کو ایک وقت کے کھانے پہ اکتفا کرنا پڑے گا۔ گولڈا میئر نے سب باتوں سے اتفاق کیا اور کہا اگر ہم جنگ جیت گئے تو دنیا ہمیں صرف فاتح کے طور پہ یاد رکھے گی۔ دوران جنگ ہم نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا یا فاقہ کشی کی کوئی یاد نہیں رکھے گا۔

دنیا صرف فاتح کے آگے جھکتی ہے اور اسی کو یاد رکھتی ہے۔ گولڈا میئر کے دلائل کے سامنے کابینہ کے خدشات کافور ہوگئے اور معاہدے کی منظوری دے دی گئی۔ بعد میں اسی اسلحہ سے اسرائیل کو شکست دی بلکہ عربوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ چنے بھی لوہے کے۔ اس دوران اسرائیلیوں نے کتنی فاقہ کشی کی تاریخ کی کتب میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں۔ اور عربوں نے دعوت شیراز اڑائی اس کا حوالہ بھی کہیں نہیں ملتا۔ اگر کہیں ذکر ہے بس تو اس ہزیمت، پسپائی اور لاشوں کا ہے جو عربوں کے حصے میں آئی۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).