”لوگ در لوگ“ اور فرخ سہیل گوئندی کی جہاں گردی


فرخ سہیل گوئندی کی کتاب ”لوگ در لوگ“ اپنے موضوعاتی تنوع کے باعث جہاں قاری کو نگر نگر کی سیر کراتی اور منفرد عالمی شخصیات سے براہ ِراست ملاتی ہے وہاں یہ مسئلہ بھی پیدا کرتی ہے کہ اسے لائبریری میں رکھتے وقت کس شعبہء علم کے خانے میں سجایا جائے۔ اس جمالیاتی مسئلے کی وجہ یہ ہے کہ ”لوگ در لوگ“ میں جہاں ہمارے سامنے بڑے لوگوں کے منفرد شخصی خاکے آتے ہیں تو اس کے پہلو بہ پہلو تاریخ، عمرانیات، سیاسیات اور سفر نامے کی تمام اصناف بھی ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس میں فلسفہ اور فلسفہء تاریخ کے ساتھ نفسیاتی بصیرت کے دریا بھی بہہ رہے ہیں تو کچھ غلط نہ ہو گا، ”لوگ در لوگ“ عام کتاب ہر گز نہیں ہے یہ سیاست کی عبقری شخصیات کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہے۔

اس کتاب کی یہی وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے Readability کا گراف ہماری توقعات سے خاصا اونچا نظر آتا ہے اور یہ مسئلہ واقعی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ اس کتاب کو حُسن ِ ترتیب اور حُسن ِ تہذیب کے اعتبار سے لائبریری کے کس خانے کی زینت بنایا جائے! یہ کتاب اگرچہ شخصی خاکوں پر مشتمل ہے لیکن جس طرح غزل کی ہئیت میں رہتے ہوئے اس میں نت نئے تجربات قاری کو چونکاتے ہیں بالکل اسی طرح جناب ِگوئندی نے خاکہ نگاری کی صنف کو اس کے تمام بنیادی تقاضوں سمیت فنی اور فکری وسعتوں سے ہمکنار کیا ہے۔

یہ کتاب پڑھنے کے بعد خاکہ نگاری کے بارے میں میری سابقہ رائے بدل گئی ہے اس میں مزید گہرائی اور گیرائی پیدا ہوئی ہے۔ کتاب میں بتیس خاکے شامل ہیں لیکن ہر خاکے میں ہمارا واسطہ ایک اور شخص سے پڑتا ہے جوبڑی بے تکلفی سے گھومتا پھرتا اور باتیں کرتا نظر آتا ہے اور یہ فرخ سہیل گوئندی کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے! لہذا ”لوگ در لوگ“ میں بتیس نہیں بلکہ تینتیس خاکے شامل ہیں اور اس خوبی کی وجہ سے یہ کتاب خود نوشت سوانح کا درجہ بھی حاصل کر جاتی ہے۔

یہ ایک عام آدمی کی خاص سرگزشت بن جاتی ہے۔ اس کتاب میں شامل کئی شخصیات تو ہماری جانی پہچانی ہیں لیکن ہمارے گوئندی نے جس اُسلوب اور انداز میں ان شخصیات کو ہمارے سامنے لایا وہ تمام زاویے ہمارے لیے نئے ہیں۔ البتہ کچھ شخصیات تو بالکل نئی ہیں جیسا کہ حاجی مستان مرزا کا کردار، یہ انڈیا کا وہ پہلا افسانوی اور حقیقی ڈان ہے جس نے عالمی شہرت حاصل کی اور واقعی جس کا انتظار گیارہ ملکوں کی پولیس کر رہی تھی اور جس ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔

فرح سہیل گوئندی نے اپنے جادو بیان قلم اور تصویری بیانیے کی بدولت اسے عام قاری کے سامنے لا بٹھایا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس خاکے میں مجھے حاجی مستان مرزا تو ڈان کم نظر آیا البتہ ہمارے فرخ گوئندی بذات خود قلم کی دنیا کے ڈان زیادہ دکھائی دے رہے تھے۔ فرخ گوئندی کا سب سے بڑا اور لائق توجہ پہلو یہ ہے کہ یہ کسی کے سامنے بیٹھ کر اس سے خواہ مخواہ متاثر یا مرعوب نہیں ہوتے بلکہ بڑے اعتماد سے اس کی شخصیت کا تجزیہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

شخصیت کی تہہ میں اُتر کر اس کے پوشیدہ اور بنیادی پہلوؤں کی نقاب کشائی ایسی ماہرانہ نفاست سے کرتے ہیں کہ بہ قول شاعر، کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جا است۔ ہر خاکے میں ممدوح کے ظاہری اور باطنی اوصاف، مزاج اور افتادِ طبع پر صرف وہی تخلیق کار روانی اور جولانی کے ساتھ لکھ سکتا ہے جو پہلے خودشخصی نفسیات سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ فنِ خاکہ نگاری اور اعلیٰ ادب کی خصوصیات کا عمدہ ذوق بھی رکھتا ہو۔ ہمارے گوئندی ان تمام خوبیوں سے متصف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شخصیت کی جامع تصویر کشی کرنے میں اُ ن کو خاص کمال حاصل ہے اور اُن کے تحریر کردہ خاکوں میں کسی قسم کی جانب داری یا مبالغہ آرائی کا شائبہ تک موجود نہیں ہوتا۔

مجھے اس کتاب کا اُسلوب بہت منفرد اور فطری سا محسوس ہوا ہے۔ الفاظ کے چناؤ سے لے کر اُس کے سبھاؤ اور بہاؤ کے تیور دیدنی ہیں۔ ہرلفظ اس سلیقے اور نفاست سے برتا گیا ہے کہ جیسے یہ لفظ اسی کیفیت اور صورتِ حال کے لیے وضع کیا گیا تھاہے۔ فرخ گوئندی کو تخلیقی جملہ لکھنے میں کمال حاصل ہے۔ یہ خاصیت اُردو کے بڑے بڑے لکھنے والوں کے ہاں یا تو بالکل مفقود یا کم کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ تخلیقی جملہ ایک طرف تو حالات و واقعات کا عکاس ہے اور دوسری جانب اپنی ایک الگ اور خود مختار حیثیت بھی رکھتا ہے۔ یہ جملے فکری حوالے سے اتنے بلیغ اور مستحکم ہیں کہ اگر اِنھیں اقوال زریں کہا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔ ان تخلیقی جملوں میں ضرب المثل بننے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔ یہاں کچھ جملے مختلف صفحات سے درج کیے جاتے ہیں جس سے میرے قائم کردی مقدمات کی تصدیق ہو سکے گی:

1) کتابوں کے بعد مشاہدے اور مکالمے کا علم آپ کو علم و حکمت کے نئے در سے متعارف کرواتا ہے۔ (ص 58 )

2) بے بہا علم اقتدار کے لیے رکاوٹ ہوتا ہے اور اگر کوئی اہلِ علم اقتدار تک پہنچ جائے تو پھر اس کو راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ (ص 61 )

3) مجھے زندہ انسانوں سے پیار ہے۔ ہمارے ہاں لوگ کسی عظیم انسان کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں، عظیم ہستی اس فانی دنیا سے رخصت کیاہوئی اس کی پوجا پاٹ کا اہتمام و آغاز ہو جاتا ہے۔ (ص 101 )

4) بڑے لوگ اپنے ارد گرد ہمیشہ بڑے لوگوں کو جمع کرتے ہیں۔ ( 102 )

5) ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں اس میں وہ لوگ عظیم جانے جاتے ہیں جن کے مالی اثاثے اربوں میں ہوں۔ یہاں بھلا تخلیقی اثاثوں کی کیا حیثیت۔ (ص 183 )

6) کسی کا انقلابی ہونا جیل جا کر ہی معلوم ہوتا ہے۔ (ص 181 )

7) انقلابی جیل سے چھوٹے، اس کے ہاتھ میں فکر سے لبریز کتاب نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ (ص 181 )

8) ایک کامیاب جہاں گرد وہ ہوتا ہے جو اپنی منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ، تلاش کو سر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ( 130 )

اس نوع کے زندہ اقوال ”لوگ در لوگ“ میں جگہ جگہ موجود ہیں اور ہر قول سیاسی اور سماجی بصیرت کا آئینہ دار ہے۔ فرخ سہیل گوئندی کے اُسلوب میں اختصار پسندی کا جوہر تحریر کی وقعت میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ دس جملوں کے مفہوم کو ایک جملے میں سمیٹنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ وہ مشکل اور پیچیدہ اظہارِ بیاں سے زیادہ سہل، سادہ اور سلیس طرزِ نگارش کو پسند کرتے ہیں۔ خوشی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ موضوع کی رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ ان کے اُسلوبیاتی پہلو بھی بدلتے چلے جاتے ہیں۔

جنابِ گوئندی کا اُسلوب کہیں کہیں شگفتہ اور شعری وسائل سے مزین بھی نظر آتا ہے جس کی وجہ سے قاری کو کتاب پڑھنے میں سہولت محسوس ہوتی ہے۔ فرخ سہیل گوئندی کی کتاب ”لوگ در لوگ“ پاکستانی مطالعات کے ضمن میں بھی ہمارے لیے ایک تحفہ ہے۔ جب گوئندی مختلف ممالک کا تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہیں تو ایک محبِ وطن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بحیثیت پاکستانی میرے حقو ق و فرائض کیا بنتے ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن کو بروئے کار لا کر میں اپنے ملک کو بہتر بنا سکتا ہوں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ میں پہلے دن سے ایک محبِ وطن شہری ہوں لیکن یہ کتاب پڑھ کر احساس ہوا کہ محبِ وطن ہونے کا اصلی مفہوم کیا ہے۔ فاضل مصنف بذات خود عملی اور نظری سیاست میں خاصے فعال ہیں اس لیے ”لوگ در لوگ“ میں پاکستانی سیاست کے وہ پوشیدہ گوشے بھی سامنے آتے ہیں جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے دوران قاری کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید۔ پاکستانی سیاست سے قطع نظر یہ کتاب عالمی اسلامی سیاست پر بھی ایک مستند دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔

یہ کتاب علمی حلقوں میں ذوق و شوق سے پڑھی جا رہی ہے اور اُمید ہے کہ آنے والے دور میں اس کتاب پر علمی مذاکرے اور مباحثے پیدا ہوں گے۔ پاکستان کی نئی نسل کو یہ کتاب لازمی پڑھنی چاہیے تا کہ وہ یہ جان سکیں کہ ہماری ملک کے وہ لکھاری جو آدھی سے زیادہ دنیا گھوم چکے ہیں اپنے ملک سے کتنی والہانہ اور غیر مشروط محبت رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).