اسلامی جمعیت طلبہ۔۔۔ کچھ ذاتی مشاہدات، کچھ سوالات


\"moqaddusجمعیت پر بات چل ہی پڑی ہے تو سوچا کہ ہم بھی اپنے سلیم ملک اور دیگر جمیعت سے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کر لیں کیوں کہ ہمارا سیشن بھی وہی تھا جو سلیم ملک صاحب کا تھا مگر کئی سال ریگولر پڑھنے کی وجہ سے مجھ میں اتنی جرات نہیں کہ کسی بھی نقطہ نظر کی تردید کرسکوں کیونکہ ہر بندہ اپنی جگہ سچا اور پکا ہے۔ مگر میری ہمدردیاں جمعیت سے متاثر احباب کی بجائے جمعیت کےمتاثرین سے زیادہ ہے۔ کیونکہ میں نے بھی اس پنجرے میں کافی سال پیچ و تاب کھا کر گذارے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کا یقیناً ہولڈ تھا یا ہے مگر کہا جاتا ہے کہ ہمارے دور میں ہی کراچی یونیورسٹی میں جمعیت کا راج تھا جسے ایم کیوایم نے ایسا ملیا میٹ کردیا کہ اب تک جماعت اسلامی کراچی سے نہیں اٹھ سکی۔ مگرپنجاب یونیورسٹی بھی جماعت اسلامی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ایک بڑی مین پاور پیدا کرتی ہے جو پاکستان میں ان کی منافقت اور جھوٹ پر مبنی سوچ کی ترویج میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جمعیت کو زیادہ انسانی وسائل ، قانون،’’ آئی ۔ ای۔ آر‘‘،’’ جیولوجی‘‘،’’ کیمکل انجینئیر‘‘، ’’کامرس کالج ‘‘ (اور ہر وہ کورس جس میں دو سے زائد سال لگتے ہوں) سے ملتےہیں یا دوسرے لفظوں میں لمبے عرصے تک چلنے والے تعلیمی سیشن ان کے عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے ان کا ٹارگٹ ہوتےہیں، یہی وجہ ہے کہ لاء ڈیپارٹمنٹ کے شعبے سے نکلنے والے وکیل اور جج زیادہ تر جماعت اسلامی کے سائے میں پروان چڑھے ہوتے ہیں (میں نام بھی لے سکتا ہوں مگر آپ ان کو ان کے فیصلوں اور سوچ سے آسانی سے پہچان سکتے ہیں)۔ آئی آر کے شعبے میں زیادہ تر اساتذہ داخلہ لیتےہیں جو بعد میں سکولوں یا کالجوں میں جا کر اپنا فلسفہ مودودیہ کو موثر طریقے سے پروان چڑھاتے ہیں۔ کامرس کا شعبہ چونکہ اکاونٹ سے وابستہ ہوتا ہے لہذا بقول میرے ایک استاد دوست، جہا ں کہیں بھی کوئی کرپشن کا بڑا کیس ہوگا وہاں جماعت اسلامی کے کارکن لازمی ملوث ہوں گے اور حیرت ہے کہ میرے علم میں جب بھی ایسے کیس آئے اس میں واقعی جماعت اسلامی کے لوگ ملوث پائے گئے۔ (ریفرینس کی ضرورت پڑے تو دیا جا سکتا ہے)۔ اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب بھی جماعت اسلامی کسی دوسری جماعت کے کندھوں پر چڑھ کر آتی ہے تو دو وزارتوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے، محکمہ تعلیم یا خزانہ کا محکمہ۔ کہ سراج الحق (سابق ناظم جمعیت ) بھی جماعت اسلامی کے امیر بننے سے پہلے وزیر خزانہ ہی تھے۔

یونیورسٹی کے کچھ اپنے تئیں یا حقیقت میں بڑے زمیندار دوستوں کے بقول اور یہ کافی حد تک ٹھیک بھی ہے کہ جمعیت کے زیادہ تر سرگرم کارکنوں کا تعلق دیہات سے ہوتا ہے جن کی بقول شخصے اپنے علاقوں میں کوئی خاص عزت یا مقام نہیں ہوتا یا دوسرے لفظوں میں یہ وہ طالب علم ہوتےہیں جن کے خاندان دیہات کے غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر دیہات میں بسنے والے ان غریب مگر محنتی خاندانوں کی دل سے عزت کرتا ہوں مگرافسوس یہی طبقہ دیہات میں کمی کمین کہلاتا ہے۔ اور ان کی دیہات میں پہچان ایک جولاہے، کمہار، موچی، نائی، ترکھان، تیلی سےبڑھ کر نہیں ہوتی۔ اور تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ اس طبقہ کا کوئی فرد جتنا مرضی دولت مند بھی ہوجائے جب تک اپنے گاوں میں رہے گا وہ ان لاحقوں سے جان نہیں چھڑا سکتا تا وقتکہ وہ اپنے گاوں سے شہر کی طرف نقل مکانی کرجائےجہاں ذات پات کا اتنا دخل یا اس بارے پوچھ گچھ نہیں ہوتی ۔ لہذا اسی غریب طبقے کا اگر کوئی بچہ جیسے تیسے یونیورسٹی پہنچ جائے تو جمعیت کے لیے یہ بندہ، بہترین قربانی کا بکرا ثابت ہوتا ہے کہ اسے جہاں چاہے جب چاہے، بلا روک ٹوک استعمال کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ وہ طالب علم بے شک آپسی لڑائی یا پھر گروہی لڑائی میں مارا جائے تو جمعیت کوایک اور شہید مل جاتا ہے جس سے وہ شہر کی دیواریں اس شہید کی عظمت سے کالا کر دیتے ہیں اور اگر وہ زندہ بھی رہے تو اس طرح کے قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہے خواہ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ اور دوسری طرف اس غریب نوجوان کو جمعیت کی صورت میں ایسا پلیٹ فارم ملتا ہےجہاں نہ صرف وہ دیہات میں دی گئ اپنی محرومیوں کے گن گن کر بدلے لے سکتا ہے۔ بلکہ احسن طریقے سےاپنے نام کے ساتھ جڑا بظاہر تضحیک آمیز لقب جیسے نائی، موچی، ترکھان، جولاہا وغیرہ ہٹا کر کھوکھر، غوری، ڈار، انصاری، ملک، مہر، سے تبدیل کرکے کر اپنا رتبہ بھی آسانی سے بلند کرسکتا ہے۔ مگر وائے اس کے علاقے کے بھیدی یونیورسٹی فیلوز کے جو اس کا پول کھول دیتے ہیں اور جمعیت سے نالاں لوگوں کی نجی محفلوں سے اس عظیم ناظم یا زیادہ سرگرم کارکن کو اسی دیہی نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ جس سے اسکا تعلق ہوتا ہے۔ جیسے مہر بطخا (اس سے بطخ مراد ہے)، چھوٹو رام، نیما جولاہا، شیدا نائی، شا قہ پوہلی، چیمہ چوّل۔ اس سلسلے میں ان دیہی جماعتیوں کی اگر چہ بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ اس کا پس منظر جاننے والے سے اچھی دوستی رہے کہ وہ کسی اور کو اسی اصلیت نہ بتا دے مگر جب بھی وہ کوئی ایسی حرکت کرتا ہےتو اس کا بھیدی پھر یہ بھید کھول کر ہی دم لیتا ہے۔ یار پیچھے سے ہے کیا ؟ مگر دیکھو یہاں کیا کیا ظلم کرتا پھرتا ہے۔

 مگر اس طرح کے جمعیت کے کارکنان اپنی شناخت پرہاتھ صاف کرنے کے بعد اسلام کا غازہ لگا کر یونیورسٹی میں ایسا نظام نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے اسلام کی بجائے ان کی اپنی انا اور انتقام دونوں کی تسکین ہوسکے اوروہ اپنے اوپر دیہات میں ہونے والےوالی اسکے خاندانی ناانصافیوں کا جم کر اپنے ہا تھوں سے خود بدلہ لے سکے اور پھر بے شک دل سے کوئی عزت کرے نہ کرے مگر، کم از کم ڈنڈے کے زور سےہی اسکی کچھ تو عزت بحال ہو بے شک کیمپس کی حدود میں ہی۔ ایسے طالب علم کے بارے میں میرے ایک ماہر نفسیات دوست کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جب تک غلام رہتےہیں ان جیسا تابعدار کوئی نہیں ہوتا مگر جب ان کو طاقت مل جاتی ہے تو ان جیسا سخت دل اور ظالم کوئی نہیں ہوتا اور شائد حضرت علیؓ کا قول بھی غالباً ایسے ہی افراد کے بارے ہوتا ہے کہ جب کسی انسان کو اقتدار یا طاقت ملتی ہے تو وہ بدل نہیں جاتا بلکہ اس کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

 جمعیت کے چنگل میں ڈے اسکالر یا مقامی لڑکے، لڑکیا ں قابو نہیں آتے مگر جان چھڑانے کے لئے ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ مگر نائٹ اسکالر جو ہوسٹلز میں رہتے ہیں (جس کا مزا میں نے بھی چکھا ہے) وہ ان کے مکمل یرغمال ہوتےہیں اور یہ ان کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اسے کافی لوگ بتا چکے ہیں۔ ہوسٹلوں میں بھی جماعت کا بھتہ میس کی سپلائی سے لے کر غیر قانونی جمعیت کے گوریلے، ناجائز چندوں کی صورت میں رائج ہوتا ہے۔ اور طلباء کو یہ چندہ ہر صورت دینا ہی ہوتا ہے۔ بعض مصنوعات جیسے شیزان کا کچھ سال بائیکاٹ اس اعلان کے ساتھ ہوتا ہے کہ چونکہ یہ احمدیوں کی کولڈ ڈرنکس ہیں لہذا ان کی خریدو فروخت حرام ہے۔ مگر اچھی رقم لگ جائے تو وہ مصنوعات پھر حلال ہو جاتی تھیں۔ اور اسی طرح اگر کوئی مزید اچھی رقم لگا دے یا پھر کسی جماعتئے نے گھٹیا مال کی فیکٹری لگا لی ہوتو اسکو ترجیح دی جاتی ہے مگر اسلامی بھتہ سے وہ بھی نہیں بچے گا ۔ آجکل پتہ نہیں کس کی سپلائی جاری ہے کیونکہ مجھے کوئی پانچ چھ سال ہوگئے ہیں میں اپنے شفیق اساتذہ سے ملنے یونیورسٹی نہیں جا سکا۔ اس بھتہ کی بات کا مجھے کچھ کیموفلاج جماعتیوں کی بدولت پتہ چلا۔

 جس طرح اچھے اور برے طالبان کی پاکستان میں ایک عمومی اصطلا ح چلتی ہے اسی طرح جمعیت کے بارے میں بھی اچھے اور برے جماعتیوں کی اصطلاح چلتی ہے یہ اچھے اور برے طالبان بقول یاسر پیرزادہ کے ’’جو پاکستان میں پھٹے وہ برا طالب اور جو سرحد پار پھٹے وہ برا طالب ہو تا ہے۔ یونیورسٹی کیمپس میں بھی اچھے برے جماعتئے ایسے ہی ہوتے ہیں اور وہ جو سلیم ملک صاحب تششدد والی بات کرتے ہیں وہ سو فیصد ٹھیک ہے، میرے قریبی دوستوں کے ساتھ یہ سلوک ہوچکا ہے۔ طریقہ کار یہی ہے کہ بُرے جماعتیے اپنی راہ میں رکاوٹ بندے کو اسلامی راہ میں رکاوٹ قرار دے کر، ٹارگٹ کرکے کسی بھی گھٹیا الزام میں یا تو اٹھا کر لے جاتے ہیں تاکہ خوب تسلی سے اسکی دھلائی کی جاسکے اور اس مخالف بندے پر تعذیرات و حدود کا اطلاق زیادہ ہو تو اسے اذیتیں دے کر مار بھی دیا جاتا تھا یا پھر اگر ان کو محسوس ہوجائے کہ یہ بندہ، مستقبل میں کوئی مصیبت کھڑی کرسکتا ہےتوبرے جماعتیے اس کی ٹھکائی، دوسرے طالب علموں کے سامنےہی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ اس کی کم از کم جو لڑکیوں کے سامنے عزت بنی ہوتی ہے وہ تو خاک میں ملے اور اس سے ایک پنتھ دو کاج کے مصداق اگر کسی اورطالب علم کے اندر جمعیت مخالف کیڑا پرورش پا رہا ہو تو اوہ اسے فوراً اپنے ذہن سے نکال دے ورنہ وہ بھی ایسے ہی بے عزت و آبرو ہو سکتا ہے۔ تو اس طرح جب جمیعت مخالف کی اچھی خاصی پٹائی ہوجاتی ہے تو اچانک ’’اچھے جماعتیے‘‘ کہیں سے رحمت کے فرشتے بن کر ٹپک پڑتے ہیں اور بیچ بچاو کرانا شروع کردیتے ہیں کہ ’’ اوئے یہ کیا کررہے ہو، ہمارے یار، ہمارے جگری دوست کو ماررہے ہو؟ پیچھے ہٹو؟ اور پھر اس بیچارے کو چھڑا کر لے جاتے ہیں ۔ اور پھر اسے نصیحتیں کرتے ہیں کہ برادر احتیاط سے کام لیا کریں یہ تو شکر ہے کہ ہم پہنچ گئے ورنہ پتہ نہیں کیا ہوجاتا اور یقیناً ہم ان برے جماعتیوں کو جمعیت کے سرکردہ لیڈران سے کہہ کر ان کی رکنیت معطل کرا دیں گے اور اگر ہوسکا تو کیمپس سے بھی نکلوا سکتے ہیں ۔ بس یہ بتا دیں کہ کیا آ پ ان میں سے کسی کو پہچانتے ہیں؟اگر نہیں بھی تو فکرمت کریں ہم اس پر سختی سے کنٹرول کریں گے۔ اس طرح یوں پھینٹی کھانے والے کو سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ میں کسے برا کہے اور کسے اچھا؟ اس کی ایک اہم مثال جو احباب دے بھی چکے ہیں کہ عمران خان کی ہے کہ کیسے اسے پہلے پھینٹی لگائی اورجب اسے میڈیا کے سامنے رَج کے ذلیل کرلیا تو اچانک جماعت اسلامی کے فرشتے عمائدین وہاں پہنچ گئے اور اپنے عہدے داروں کو خوب لتاڑا بلکہ کئی کارکنوں کو عہدے سے فارغ بھی کیا۔ مگردرحقیقت عمران خان کو یہ پیغام ضرور دے دیا گیا ہے خبردار یہاں جمیعت ہی زندہ رہے گی باقی جماعتیں زندہ نہ چھوڑی جائیں گی۔ اور کیا پھر جمعیت کی مادر تنظیم جماعت اسلامی کی کامیابی نہیں کہ اتنی ٹھکائی کروا کے بھی، عمران خان کی کلیدی ٹیم میں جمعیت کے ہی سابقہ لوگ براجمان ہیں ۔ تو پھر جمعیت زندہ ہوئی کہ ناں؟

 میرے ہی دور میں طلباء یونین کے آخری الیکشن ہوئے اور پی ایس ایف، جمعیت کی حریف بن کر ابھری۔ اس دوران لڑکے لڑکیوں کے مخلو ط جلسے ہونے لگے اور حقوق نسواں کے خود ساختہ ٹھیکیدار لڑکوں کی تو چاندی ہوگئ۔ اور جابجا لڑکے لڑکیاں لان، پارکوں، نہر کے کنارے، کنٹینوں میں اکھٹے نظر آنے لگے۔ مگر جماعیتے تھے کہ ایسے نظر چرا کر گذر جاتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ حتیٰ کہ میں نے کئی دفعہ کچھ عہددار جماعتیوں کو شرم دلانے کی کوشش کی کہ قبلہ حضور یہ کیا ہو رہا ہے ؟کہاں گئے آپ کے فحاشی توڑ اسکواڈ؟ تو وہ کھسیانا سا ہوکر کہتے کہ بس ذرا الیکشن ہو لینے دیں۔ پھر دیکھیں ان کا کیا حشر ہوتا ہے۔ اور پھر واقعی وہی ہوا کہ جیسے ہی الیکشن ختم ہوا جمعیت جیت تو گئ مگر مخالفت میں بھی اتنے زیادہ ووٹ پڑے کہ ان کو سمجھ نہ آرہی تھی کہ یہ ووٹ کون ڈال گیا ۔ بس پھر اقتدار بحال ہوتے ہی چن چن کر پی ایس ایف کے جیالوں کی ہر طرح سے دھلائی کی گئی۔ کسی کو پونڈی کے الزام میں کسی کو غنڈہ گردی کے الزام میں اور جہاں بس نہ چل سکا اس پر اسلحہ ڈال کر گرفتار کروا دیا گیا جیسے اس زمانے کے بلوچ سردار طالب علم میرباز خان کھتران (اگر میں نام نہیں بھولا) اسی طرح پی ایس ایف کی نائلہ قادری کے ساتھ بھی سننے میں آیا کہ اس کے سمیت اس کے ساتھی لڑکیوں کے ساتھ بھی کافی بدسلوکی ہوئی۔

اب آجائیے کیمپس میں پڑھنے والی لڑکیوں پر، ظاہر ہے کہ دور دراز دیہی یا دیہی نما علاقوں سے آئی اکثر لڑکیاں، پہلے سال تو اپنے آپ کو خوب لپیٹ کر رکھتی ہیں مگر جیسے جیسے ان کو شہر کی ہوا لگتی جاتی ہے ان کے جسم کا لباس دوسرے سال تک شٹل کاک اور پھرسے حجاب اور پھر حجاب سے ہوتا ہوا حدیقہ کیانی کے لباس سے میچ کرنا شروع ہو جاتا ہے مگر انہی میں وہ لڑکیا ں بھی ہوتی ہیں جو پہلے سال حدیقہ کیانی کی کاپی ہوتی ہیں مگر دوسرے سال ڈاکٹر فرحت ھاشمی بن چکی ہوتیں ہیں مگر ایسی لڑکیوں کی تعداد انگلیوں میں گنی جاسکتی ہیں اور اسی قسم کی پرھیز گار لڑکیا ں جماعتیوں کی امر بالمعروف ونهي عن المنكرٹیم کی بھی سرگرم رکن ہوتی ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جہاں مخلوط تعلیم ہوگی وہاں مرد و عورت میں کش ثقل، مرکز مائل جیسی قوتیں بھی تو کام کریں گی ہی۔ اسی طرح ان کے مقابل جوان لڑکوں کی بھی مختلف قسمیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جو پہلے تو فوراً شلوار قمیض سے چھٹکارا حاصل کرکے پتلون شرٹ پہننے لگتےہیں اور چونکہ ان کو جنید جمشید کی طرح فیشن کی اتنی پہچان نہیں ہوتی لہذا جب وہ انارکلی بازار جاتے تھے (کیونکہ اس وقت انارکلی ہی واحد بازار ان طلباء کی پہنچ میں ہوتا تھا کیونکہ یونیورسٹی کی بس نیوکیمپس سےاولڈ کیمپس ان کو مفت میں لے جاتی تھی جو مین نیوانارکلی سے متصل ہے۔ )تو نہ صرف پروفیسر انور مسعود کی’’ بھولی مجیں ‘‘ دیکھ کر حیران ہوتے بلکہ اسی چکر میں بعض اوقات ان تتلیوں کی دوکانوں میں موجودگی میں بھائو تائو کے بغیر ہی مہنگے داموں پتلونیں خرید لیتے۔ اس دور میں بھی دوکاندار سیانے ہی ہوتے تھے کہ ان کو معلوم ہوتا تھا کہ متروک فیشن کا اسٹاک ان طالب علموں کے آگے ہی بک پائے گا۔

اسی طرح لڑکیوں کے معاملے میں بھی لڑکوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں کچھ تو حلیے سے ہی پرہیز گار طوطوں کی طرح ہی مذہبی ہوتے ہیں جیسے ہی کوئی بے پردہ لڑکی نظر آئی تو شیطان کا غلبہ اپنے اور آنے سے پہلے 10 دفعہ لاحول، اورکم از کم 50 دفعہ استغفراللہ لازمی پڑھتے ہیں مگر شنید کہ شیطان مختلف روپ میں آکر ان کا خواب میں بھی ساتھ نہیں چھوڑتا کہ جب تک غسل نہ کرلیں ان کوافاقہ نہیں ہوتا۔ انہی میں کچھ ہمارے جیسے خوامخوا ہ سنجیدہ نظر آنے والے، ہاتھ میں تسبیح لیے بھی پھر رہے ہوتے ہیں جن کو جیسے ہی کوئی لڑکی نظر آتی ہے وہ آئی بلا ٹال توں کی تسبیح شروع کر دیتے ہیں کہ کہیں کوئی بات ہی نہ کرلے اور مجھے تو کم از کم حسرت ہی رہی ہے لہذا ہم اس جان کنی کے عذاب سے گزر کر دور ہی دور سے وقتی خوش ہو کر فقیرانہ دعا کر کے آگے چلے جاتے ہیں کہ چلیں ہمارا نہیں تو اللہ تعالیٰ اس لڑکی کا ہی نصیب اچھا کرے۔ کیونکہ میرے جیسے لڑکوں کو یقین ہوتا تھا کہ کہ کامیابی تو ملنی نہیں لہذا وقت کیوں ضائع کیا جائے۔ بس انگور وں کو کھٹا ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔ اسی طرح وہ طالب علم جو زیادہ حوصلہ مند ہوتے ہیں وہ لڑکیوں سے کسی نہ کسی طرح سلام دعا تو لے لیتے ہیں مگر پھر ٹانگیں کانپنی شروع ہوجاتی ہیں ۔ لہذا سلسلہ کلام آگے نہیں بڑھ پاتا۔ کچھ بیک ڈور پالیسی اپنا کر بھی لڑکیوں کے نزدیک ہونے کی کوشش کرتےہیں جیسے کسی کی اسائنمنٹ لکھ دینا یا نوٹس تلاش کرکے دینا۔ اس قسم کے لڑکے بظاہر توبڑے پڑھاکو نظر آتے ہیں مگر یہ بھی ایک قسم کو بوبی ٹریپ ہی ہوتا ہے۔ بھلے اسے لڑکی بھائی بھائی کہہ کہہ کر نہ تھکے وہ قطعاً مائنڈ نہیں کرتے بلکہ کسی نہ کسی طریقے سے تعلق بحال رکھنا چاہتے ہیں ۔ بعض تو کسی لڑکی سے راہ و رسم بڑھانے کے لیے اپنےآپ کو کسی مضمون میں کمزور ظاہر کرکے اسے استاد کا درجہ دے کر بھی ان کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسی طرح ہر شعبے میں ایک آدھ طالب علم ’’چاچا نما‘‘ بھی ہوتا ہے  جسکی عمر تو شائد اتنی زیادہ نہیں ہوتی مگر دوسروں سے عمر رسیدہ نظر آتا ہے اس چاچا نما طالب علم نے ہر لڑکی کا گھریلومسائل سے لے کر اکیڈمک دکھ سکھ بظاہر پدرانہ مگر اندر سے ٹھرکیانہ شفقت سے سننا اور اسکا حل دینا ہوتا ہے ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ چاچا نما طالب علم لڑکیوں کے سب سے زیادہ راز سینے میں سجائے رکھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کسی کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچے اور سیش ختم ہونے تک یہ بھی اپنے آپ کو چار و ناچار چاچا تسلیم کر ہی لیتا ہے۔ اگر چہ اس امید کا دامن نہیں چھوڑتا کہ شاید۔۔۔ شاید کوئی لڑکی اسے چاچے کی نظر سے نہیں بلکہ اپنے خوابوں کے شہزادے کی نظر سے دیکھ ہی لے۔ اور پھر جب تعلیمی سیشن ختم ہونے کو ہوتا ہے کہ یقین کریں کسی لڑکے یا لڑکی اتنی گھٹن زدہ فضا کے باوجود کیمپس چھوڑنے کو دل نہیں کرتا اور مگر کامیاب داستان محبت ایک آدھ جوڑے تک ہی شادی جیسے بندھن میں پایہ تکمیل تک پہنچ پاتا ورنہ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہّی مچی ہوتی ہے ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ اب ان کیمپس کے طلباءو طالبات کی شادیوں کی ریشو کیا ہے مجھے علم نہیں ۔ لہذا یہ کہنا کہ جماعتیے صرف بھائی بہنوں کو مارتےہیں وہ بھی غلط ہے ۔ بعض اوقات ان کی مخبری ایک ہی لڑکی سے لائن مارنے والے دو امید واروں میں سے ایک ناکام عاشق کی حرکت بھی ہوسکتی ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے زمانے میں موبائل تو تھا نہیں لہذا عشق لڑانا بھی اتنا آسان نہ تھا۔ لہذا کتابوں سے لو لگانے میں بھی بعض اوقات کافی ریلیف ملتا تھا۔

اب یہ بھی حقیقت ہے کہ چونکہ جمعیت کے کارکنان سے لڑکیا ں ایسے ہی دور بھاگتی ہیں جیسے باورچی خانوں میں اکثر رینگنے والےحشرات یا دیگر ممالیہ کو دیکھ کر چیخیں مار کر بھاگ جاتی ہیں اور اگر کبھی مجبوراً سامنا کرنا بھی پڑ جائے تو ایسی بے زاری سے بات کرتی ہیں کہ ان کی باڈی لینگوئنج چیخ چیخ کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ ’’چل ہُن مغروں وی لےجا‘‘  یہی وجہ ہے پھر جماعتیے انہیں لڑکی یا لڑکیوں کو کسی دوسرے غیر محرم لڑکے یا لڑکوں کو آپس میں مسکرا کر بات کرتے دیکھتے ہیں تو یقیناً جماعتیوں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔ کہ ساڈھے وچ کی کمی اے؟ اور پھر یہ کہ چونکہ انہوں نے ہر یونیورسٹی کی طالبہ کو اپنی بہن قرار دیا ہوتا ہے لہذا بقول حمیر ھاشمی، ہم مخلوط تعلیم میں یہ تو چاھتےہیں کہ ہم دوسروں کی بہنوں کے ساتھ دوستی کریں مگر ہمیں یہ گوارہ نہیں کہ کوئی ہماری بہن کے ساتھ دوستی کی جرات بھی کرے۔ لہذا یہ اپنی بہنوں کو غیر محرم سے بچانے کےلئے ہر موقع پر چاق و چوبند نظر آتے ہیں ۔ ہاں اسی بہن بھائی کے منہ بولے رشتے کی آڑ میں اپنی پیاری پیاری بہنوں کو گاہے بگاہے تربیتی نشت کے نام سے افکار جمعیت کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ پہاں بھی یہاں مرکز مائل قوت کی بجائے مرکز گریز قوت زیادہ غالب رہتی ہے مگر یہ بھی ثابت قدمی سے ڈٹے رہتےہیں اور اگر اسی تبلیغ کے دوران اپنی کہانی بھی فٹ ہوجائے اور کوئی لڑکی جمعیت کے افکار سے متاثر ہو ہی جائے یا پھر اس لڑکی کا خاندانی پس منظر بھی جماعت سےہی ہو، تو ایسے میں جمعیت کے حقوق نسواں کے محنت کار بڑے فخر سے اپنے تنظیمی ساتھیوں کو بتا رہے ہوتےہیں کہ ’’بس بھائی دعا کرو کہ میرا بھی گھر بس جائے کیونکہ آج کل ڈیپارٹمنٹ کی فلاں بہن سے رشتے کی بات چل رہی ہے‘‘۔ اب جماعتیوں کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے یونیورسٹی کو فحاشی و عریانی کا اڈا بننے سے روکا ہوا ہے اور لڑکیوں ایسا تحفظ دیا ہوا ہے کہ والدین اپنی بچیاں جمعیت کے بھروسے پر آنکھیں بند کرکے یونیورسٹی چھوڑ کر جاتے ہیں سراسر لغو و بے سروپا ہے کیونکہ یہ جو تصور ہم نے بنا رکھا ہے کہ ہم مرد،عورتوں کی عزت کے محافظ ہیں بہت غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ جب عورت خود نہ چاہے تو آپ اس کا راستہ نہیں روک سکتے وہ سو رستے برائی کے تلاش کرلے گی۔ اور پھر ہم نے یہ کب سے سمجھ لیا ہے کہ لڑکیا ں پیچھے سے شریف ہی نہیں ہوتیں یا ان کے یونیورسٹی میں خراب ہونے کے مواقع زیادہ ہوتےہیں ۔ یا یہ کہ جمعیت مافیا ہی ان کوزبردستی نیکوکار بناتا ہے ورنہ پتہ نہیں کیمپس کیا سے کیا ہوجائے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مشہور مصوّر کی پینٹنگز کو دیکھ کر جب ایک خاتون نے کہا کہ اسے تو ان پینٹنگز میں فحاشی نظر آرہی ہے تو وہ مصوّر بولے ’’خاتون یہ تو پتہ نہیں کہ ان پینٹنگز میں فحاشی ہے یا نہیں مگر آپ کے اندر چھپی فحاشی ضرور باہر آ گئی ہے‘‘ تو کیا جس نے خرمستی کرنی ہے ان کے لیے کیمپس سے باہر پارک، ریسٹورینٹ وغیرہ بند کردیے گئے ہیں اسی طرح ویب چیٹنگ اور سوشل میڈیا کس مرض کی دوا ہے؟ لہذا برائی اگر کوئی کرنا چاہے وہ اسی کے اختیار میں ہے نہ کہ ان نام نہاد خدائی فوجداروں کے۔

اب آجائیں دہشت گردی کی طرف، تو یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان جہاد میں جتنا جماعت اسلامی اور اسکی ذیلی جماعت، اسلامی جمعیت طلباء نے غریبوں کے بچوں کو اپنے ڈالر اور ریال کھرے کرنے کے لیے نام نہاد جہاد کے نام پر ہزاروں نوجوانوں کو اس آگ میں جھونکا وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ بلکہ اسکا اظہار اب بھی جماعت کے عمائدین بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ میں نے ان دنوں جب افغان جہاد عروج پر تھا،  جماعت اسلامی کی حلیف افغان وارلارڈ اور حزب اسلامی کے سربراہ، گلبدین حکمت یار کی شان و شوکت اور پشاور میں محل نما رہائش بھی دیکھ رکھی ہےجس کے گر د سینکڑوں محافظوں کا پہرہ ہوتا تھا۔ اس افغان جہاد نے جمعیت کا حصہ تفصیل سے بیا ن کر دیا جائے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں ۔ اسی طرح نام نہاد کشمیری مجاہد ہیرو، بقول سابق صدر آزاد کشمیرسردار عبدالقیوم مرحوم،  چرار شریف کو آگ لگانے والا میجر مست گل، جب پاکستان میں آیا تو اسے پنجاب یونیورسٹی میں ایک عظیم مجاہد کے نام سے متعارف کروایا گیا اور ماشاءاللہ سے اب یہی مست گل، پاکستان دشمن احرار گروپ کے ساتھ مل کر پاکستانیوں کو مرتد و زندیق قرار دے کر مار رہا ہے۔ اور خوب گل کھلا رہا ہے۔ اسی طرح ہوسٹلوں میں اسلحہ کے انبار بھی میں نے خود دیکھے ہیں جو بعض اوقات پولیس کے چھاپوں کے دوران استعمال بھی ہوئے اور پولیس کو کئی دفعہ پسپا بھی ہونا پڑا۔ کچھ شوقیہ طور پر اسلحہ، شمالی علاقہ جات کے ٹور کے دوران بھی لایا جاتا تھا کیونکہ واپسی پر یونیورسٹی بس ہمیشہ براستہ پشاوراور باڑہ مارکیٹ سے ہو کر ہی یونیورسٹی واپس آتی ۔ جہاں سے یہی جمعیت والے اپنی پسند کا ذاتی مگر ناجائز اسلحہ بھی خرید کر لاتے تھے۔ اور چونکہ یونیورسٹی کی بس کسی چیک پوسٹ پر چیک نہیں ہوتی تھی۔ لہذا شوقیہ اسلحہ آسانی سے سمگل ہوجاتا ۔ بعض جماعتیے اس قسم کو اسلحہ دوستوں میں دوگنی قیمت پر بیچ بھی دیا کرتے تھے۔

یاد رہے کہ اس قسم کا شوقیہ اسلحہ اس ا سلحے کے علاوہ ہوتا تھا جو جماعت کے خفیہ مسلح گروہ استعمال کرتے تھے ۔ یہ گوریلے، بڑے تصادم اور ٹارچر سیلز کے لیے جمعیت الگ سے تیار کرتی تھی جوکم از کم آٹھ دس سال تک جمعیت کے خفیہ گروہ کی صورت میں کام کرتے رہتے تھے۔ بعض اوقات مشکل حالات میں، جب کبھی حکومت کی طرف سے دباو میں ہوتے تو، ان گوریلوں کا، یونیورسٹی میں قانونی جواز رکھنے کے لیے ان کو مخصوص سیٹوں پر بار بار داخلہ بھی کروا لیا جاتا، شائد اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ نہیں مجھے علم نہیں ۔ اور اچھے حالات میں تو جتنے مرضی جماعتئے غیر قانونی طور پر ہوسٹلوں میں رہیں کس کی جرات ہے کہ انہیں ہوسٹل سے نکال سکے ۔ ہوسٹل نمبر 1 میں تو کون کون رہتا تھا ہمیں کوئی علم نہ ہوتا تھا کیونکہ وہ جمعیت کا نائن زیرو ہے ۔ اچھا ایک اور بات بھی دلچسپ ہے کہ جو جماعتی غنڈے، کیمپس کی حدود میں شیر ہوتے ہیں وہ جیسے ہی کیمپس سے باہر قدم رکھتے ہیں یہ کینچوے بن کر رہ جاتے ہیں۔

شنید تھی کہ ہر ہوسٹل میں ایمرجینسی اسلحہ تو ہوتا ہی ہے مگر بڑی مقدار میں اسلحہ گرلز ہوسٹل میں رکھا جاتا ہے جہاں پولیس کے لیے جانا اپنے آپ پر ریپ، چادر چاردیواری کے تقدس، عورتوں کی بے حرمتی جیسی دفعات لگوانے کے مترادف ہے۔ جس ہوسٹل میں، میں خود رہا ہوں وہاں کے اسلحہ کے انبار تو میں نے خود دیکھے ہیں ۔ ان میں کچھ اسلحہ ان سیانے جماعتیوں کا بھی ہوتا تھا جو جہاد کے لیے مفت ملنے والا اسلحہ اگر افغان سرحد پر بیچ نہ سکے اور سمگلروں کےذریعے یونیورسٹی میں لے آئے۔ پھر تو ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب روس کے پُرزے پُرزے ہونے پر جماعت اسلامی نے اس کا سارا سہرا اپنے سر باندھ کر فتح کا جشن منایا تو اپنے گوریلوں کو پھر طالبان کی تربیت میں لگا دیا اور امریکہ نے جب مکمل تنخواہ بند کردی تو دھشت گردوں کے نہ صرف سہولت کار بنے بلکہ ان کو پناہیں دینے کے ساتھ ساتھ، ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹوں کے مطابق ٹارگٹ بھی وضع کرنے میں مدد دی۔ اور نتیجہ آپکے سامنے ہے کہ پھر القاعدہ کے شیخ خالد سے لے کرسری لنکا کی ٹیم کے حملہ آور منصورہ و پنجاب یونیورسٹی کے ھاسٹلز سے ہی برامد ہوئے۔ اور اب تک ہو رہے ہیں

 میں نے اس دور میں جمعیت کے کئی مظاہروں اور لڑائیوں کو بھی دیکھا ہے۔ مجھے ایک وہ لڑائی بھی یاد ہے جب، جمعیت کی ایک قریبی کالج میں ، مخالف تنظیم سے مسلح لڑائی ہوئی تو اسی دور میں جمعیت کے لڑکے کو گولی لگی اور وہ تڑپنے لگا۔ ہم تو خیر ڈر کے مارے اوٹ میں تھے۔ پھر جب کچھ دیر بعد لڑائی رکی تو میں نےواقف جماعتیے کو دیکھا اور کہا کہ یار اسے تو ہسپتا ل لے چلو تو آنکھ مار کر کہنے لگا کہ یار اب کوئی فائدہ نہیں، اب یہ بچے گا نہیں ویسے بھی اگر یہ شہید ہوگیا تو مخالفین کے خلاف مقدمہ پکا بنے گا۔ یہ بس اس کے گرد کھڑے ہو کر نعرے لگانے لگے اور کبھی ادھر کبھی ادھر اور جب تک ایمبولینس آئی وہ لڑکا \”شہید\” ہوچکا تھا اور پھر اس شہادت کے خلاف جمعیت نے کئی جلوس بھی نکالے ۔ مگر یہ الگ بات ہےکہ اس بے بس تڑپتے لڑکے کی لاش کئی دنوں تک میری آنکھوں کے گرد کھومتی رہی کہ میں کئی دن تک سو نہ پایا۔ اب بھی جب کبھی مجھے وہ منظر یاد آتا ہے تو جھرجھری سی آجاتی ہے۔ اسکی ایک اور حالیہ مثال جو سب کو یاد ہوگی وہ 2012 میں ایک سابق ناظم جمعیت کے ہاتھوں دوسرے ناظم اویس فاروقی کا قتل ہے جسے کبھی فرقہ واریت اور کبھی اس وقت کے وی سی کے محلاتی سازشوں کا شاخسانہ قرار دیا گیااور خوب جلوس نکالے گیے مگر جب میڈیا نے سچ دکھا دیا تو شہید اویس فاروقی جو  بیچارہ سمبڑیال کے ایک گائوں کے غریب والدین کا بیٹا تھا وہ ان کا سہارا تو نہ بن سکا مگر جمعیت کے افکار کو ایک دفعہ پھر سے زندہ کر گیا۔

احباب کی یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ کئی لوگ ان کی بلیک میلنگ سے تنگ آکر اس کے ہمدرد بن بیٹھتے تھے کہ مجھے کئی ناظمین کا پتہ ہے کہ وہ قطعاً مولانا مودودی سے متفق نہ تھے بلکہ  مولانا مودودی کی بجائے فاروق مودودی سے متفق تھےاسی لیے وہ اپنے آپ کو کیموفلاج کرنے کے لیے ان کی ہاں سے ہاں ملانے پر مجبور تھے۔ چونکہ میری بھی اچھے خاصے لوگوں سے سلام دعا تھی، اور لڑکی تو کوئی گھاس نہیں ڈالتی تھی یا میرے اندر ایسے گٹس نہ تھے، داڑھی میری جمعیت کی طرح ہی تھی جو کہ خاندانی روایت کے طور پر جمی ہوئی تھی اور ان کے دعوتی جلسوں میں دعوت ہوتی تو منہ دکھانے چلا بھی جاتا جیسے کوئی اپنے بڑے کو دکھانے کے لیے بغیر وضو نماز پڑھ لے۔ اس کے علاوہ جماعتیے ہمیں کبھی کبھار کسی شہید یا دیگر کسی ایشو پر مظاہر ے کے لیے بھی زبردستی بسوں میں بھر بھر کر لے جاتے تھے تو جانا پڑتا تھا یہ الگ بات ہے کہ میرے ہمدرد جماعتیے دوست کسی خطرے مثلاً لاٹھی چارج یا گرفتاری کے موقع پر پہل ہی کہہ دیتے کہ کاظمی یار دوڑ اپنی اپنی۔ اور میں نے ہمیشہ ان کی نصیحتوں پر عمل کیا کیونکہ مجھے اپنی شہادت کے جلوس نکلوانے کا کوئی شوق نہ تھا۔ اور پھر جب اپنی لڑائی میں خود لیڈران، ایڈوانس بھاگنے کی نیت سے ہی آئے ہوں تو باقی لشکر کیا لڑے گابس مار ہی کھائے گا ناں۔

چونکہ میں ان کے معاملات سے لاتعلق ہی رہتا تھااور ان کی ہر بات پر جبر ی ہاں بھی کرنا پڑتی تھی تو وہ مجھے اپنا ہمدرد ہی نہیں سمجھتے تھے بلکہ مجھے رفیق بننے کی پیشکش کرچکے تھے مگر میں بدقسمتی سے یہ کہہ کر ان کی خواہش شائستہ طریقے سے ٹھکرا دیتا کہ بھائی میں ابھی اتنی اہم منصب پر فائز ہونے کا اھل نہیں نہ ہی ابھی تک اپنے نفس پر قابو پاسکا ہوں اور نہ نیکی کے نزدیک بھی جا پایا ہوں لہذا رفاقت کا فارم بھرنے کی جرات نہیں کر پاتا ۔ حالانکہ کہ کئی تربیتی نشتیں اٹینڈ کرنے اور، ظفر جمال بلوچ کےخط اور جدید جہادی فلسفہ پڑھ کر بھی مجھ پر اثر نہ ہوسکا تھا۔ بس میں اپنی صفائی کے بارے یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے بس ظالموں سے جان بچانے کی خاطر کچھ بے ضرر جھوٹ بولنا پڑتے تھے یا پھر یہ کہہ لیں میں ایمان کے کمزور ترین درجے پر فائز ہوں یا یہ سمجھ لیں کہ ’’یار ان پرہیز گار لوگوں کے کون منہ لگے بس جان چھڑاو اور وقت گزارو کسی طرح سے‘‘ یہی وجہ ہے کہ مجھے ان کی اندر کی چیونٹیوں جسی رینگتی منافقت سے خوب آگاہی رہتی تھی۔

یہی جماعتیے جہاں ایک طرف فرقہ واریت اور تعصب سے بالاتر ہوکر مودودیت کا پر چار کرتے ہیں وہیں یہ ہر فرقے میں فلم ’’ٹرانسفارمر‘‘ کی طرح ضم ہوجاتے ہیں اور پھر اپنا کام دکھا کر اس فرقے سے مکھن کےبال کی طرح بڑی صفائی سے نکل جاتے ہیں، جیسا کہ یونیورسٹی میں غالباً 1994 میں جب انہوں نے اہل تشیع کے اجتماع پر ناظمین کے ساتھ حملہ کیا تو جوابی لڑائی میں ان کا ایک ناظم مارا گیا ۔ تو انہوں نے فوراً یہ کہانی گھڑی کہ اہل تشیع کے اجتماع میں سپاہ صحابہ نے حملہ کیا تھا ہمارے ناظمین تو بس صلح صفائی کے لیے گئے تھے کہ اہل تشیع کی ظالمانہ فائرنگ سے ان کا مظلوم ناظم مارا گیا اور پھر حسب روایت بے شمار احتجاجی جلوس نکلے ۔ پھر بعد میں جب ان شہیدوں کا خون سوکھ گیا تو گرفتار شدہ شیعہ طلبا ء کو ملتان کے ایک مقدمے میں جہاں جمیعت نے شیعہ طلباء کی تنظیم کے بندے مارے تھے، ایک معاہدے کے تحت دونوں جانب مقدمات تو ختم ہوگئے مگر شہید وں کا خون جمیعت کی مزید خونی آبیاری کرگیا۔ اور اہل تشیع طلباء کے اجتماعات ہمیشہ کے لئے بند ہو گیے۔

اب تو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ تر ڈیپارٹمنٹ میں اساتذہ بھی جمعیت کے سابقہ کارکنان ہی ہیں اگر نہیں تو وہ بھی سسک سسک کر استاد گیری کر رہے ہیں سوائے چند دبنگ قسم کے اساتذہ کے کیونکہ جیسے ہی کسی استاد نے تھوڑی سی ان کے حکم کی سرتابی کی نہیں تو اس بیچارے کو جینا حرام ہوجاتا ہے اور پھر جمعیت، اس استاد کی، گھٹیا ترین الزامات سے لے کر من گھڑت پروپیگنڈے سے اس کی وہ مٹی پلید کرتے ہیں کہ ’’بندہ صفائی دینے کے قابل بھی نہیں رہتا‘‘ اور لبرل اساتذہ تو ان کے ہمیشہ نشانے ر ہتے ہیں کہ راوی تو یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ڈاکٹر مہدی حسن جو کہ ہمارے دور میں جرنلزم کے بڑے نمایاں اورمقبول استاد تھے ان کی پی ایچ ڈی کو اٹھارہ سال تک روکے رکھا گیا ۔ شائد ہی یہ صورت حال اب بھی بہتر ہوئی ہو۔ ورنہ پنجاب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ۔ اورخواتین اساتذہ تو اس سے بھی بری حالت میں ہوتی ہیں کہ اگر وہ جماعت کی حمایت نہ کریں تو کہاں جائیں یا پھر بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسٹاک ہوم سنڈروم کا مریض تصور کرلیں ۔

تو کیا ہم فرض کر لیں کہ جماعت ایک انتہائی پرہیز گاروں کا ٹولہ ہوتا ہے جو پنجاب یونیورسٹی کو داعش یا طالبانی اسلام سے مزین ریاست بنا کر چلا رہا ہے۔ یا کہ پاکستان کے بہترین دماغوں کو شاہ دولے شاہ یا مودودی چوہوں میں تبدیل کرکے پاکستان کو ایک ایسی تلخ ریاست میں تبدیل کررہا ہے کہ جس کا ذکر دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والی دھشت گردی میں سے نکل آتا ہے اور اس کے باوجود کہ کون ستر ہزار بے گناہ پاکستانیوں کو قاتل ہے ہم واضح طور پر قاتلوں کی مذمت نہیں کر پا رہے یا عوام کو کنفیوژن میں ڈالنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ جماعت اسلامی کےسابقہ امیر، منورحسن کے طالبان کے حق میں کھلم کھلا بیانات ان کی طالبانی اسلام سے محبت اور مائنڈ سیٹ کی بھرپور تائید کرتے نظرآتےہیں ۔ اور تو اور پاکستان کے سنجیدہ غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ طالبان، داعش اورکسی بھی قسم کی دھشت گردی کے پیچھے جماعت اسلامی کی فکر ہی کام کررہی ہے جو پاکستان کی ریاست کو اما م تیمیہ، حسن البناء، مہدی سوڈانی۔ سید قطب کے افکار کی روشنی میں چلانا چاہ رہے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ نواز شریف سے لے کر عمران خان کی ساری سرگرم ٹیم سابق جماعتیوں پر مشتمل ہے، میں اسحاق ڈار، احسن اقبال، حنیف عباسی، آخر کن کن لوگوں کے نام لوں ؟۔ اسی طرح نمایاں صحافی، نام لینے کی ضرورت نہیں کہ دھشت گردوں کے بارے میں بھی اگر چاہیں تو ہمددردی پیدا کرسکتے ہیں جیس کہ ہم نے دیکھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کس ہوشیاری سے قوم کی بیٹی بنا دیا کہ جیسے وہ بیچاری کسی جگہ کلینک میں غریبوں کا علاج کر رہی تھی یا پھر کسی پارک میں غریب بچوں کو پڑھا رہی تھی کہ امریکن سی آئی اے آئی اور اسے اٹھا کر لے گئ۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اس نے اپنے پہلے خاوند امجد سے طلاق لے کر القائدہ کے سرکردہ لیڈر شیخ خالد کے بھانجے سے شادی کرکےاپنے معصوم بچوں سمیت القائدہ میں شمولیت کر کے ان کی اہم اہم کارکن بن چکی تھی اور اسکا پتہ ایک گرفتار القائدہ کے دھشت گرد نے دیا تھا کہ وہ امریکہ کی نظر میں آئی۔ اسی طرح وہی حافظ صاحب جو جمعیت کے ترانے پڑھتے تھے اب طالبان کے بھی اسی خشوع و خضوع سے پڑھ رہے ہیں ورنہ طالبان جیسے جاہل لوگوں کوکیا پتہ کہ میڈیا کورج اور سوشل میڈیا تک موثر رسائی کیسے کرنی ہے؟ ، ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق یہ کام بھی انہی لوگوں کام ہے۔ لہذا فاروق مودودی کے بقول وزیروں سے لے کر جج تک انہیں کے ہیں کہ کسی دھشت گرد کو سزا نہ ملتی اگر ملٹری کورٹس نہ بنتی۔

ابھی تک ’’ہم سب‘‘ میں جتنے بھی لوگوں نے جمعیت صفائی پیش کی ہے انہوں نے کتاب میلے کا ذکر بار بار کیا ہے جیسے یہی ایک علمی کام رہ گیا ہے جو دنیا کے اور کسی کونے میں نہیں ہوتا، حالانکہ کتاب میلہ تو لاہور کے اور بھی کئی مقامات پر لگتا ہے یہ کوئی انہونا کام یا بڑے کریڈٹ کی بات نہیں بس ایک سالانہ سہولت ہے کہ ایک چھت تلے کتابیں بکتی ہیں مگر میرے جمعیت سے چند سوالات ہیں جن کے جواب اگر وہ تسلی بخش دے سکیں تو مہربانی ہوگی۔

1۔ جمعیت یہ بتائے کہ صرف ان کے ہی زیادہ تر سالانہ اجتماع کیمپس کی حدود میں کس قانون کے تحت ہوتے رہیں ہیں یا ہوتے ہیں ؟

2۔ آپ کی جماعت کے علاوہ کسی اور طلباء تنظیم کا وجود کیوں نہیں ہے؟ صر ف آپ کے ہی پوسٹر اور اسٹال کیوں لگتےہیں۔

3۔ آپ لوگوں کےاحسن اقدامات کی وجہ سے دنیا کی جامعات میں پنجاب یونیورسٹی کی کس نمبر پر کھڑی ہے؟

4۔ یونیورسٹی سے ہر سال کتنے پی ایچ ڈی نکل رہے ہیں جن کی تحقیقات کی وجہ سے معاشرے میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔

5۔ بین الاقوامی شہرت کے کتنے تحقیقی جریدے جمعیت کی شبانہ روز علمی محنت کی وجہ سے نکل رہے ہیں ؟

6۔ ابھی تک پنجاب یونیورسٹی کے کتنی محققین کی نوبل پرائز کے لیے نامزدگی ہی ہوئی ہے؟

7۔ سالانہ کتنی تحقیقی کانفرنسیں جس میں بین الاقوامی سائینسدانوں کی شرکت بھی ہوتی ہو، منعقد کی جا رہی ہیں ؟

8۔ اگر آپ ڈنڈا استعمال نہ کریں تو کتنے لوگ آپ کی بات سننے کے لیے تیا ر ہوں گے کبھی اس پر سوچا ہے ؟ یا کہ اس کا اچھی طرح اندازہ ہے۔

9- کیا وجہ ہے کہ قابل اساتذہ کو کسی نہ کسی بہانے سے یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور کردیا جاتا ہے؟ کیونکہ ان کی مقبولیت آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔

10-کیا وجہ ہے کہ گاہے بگاہے مطلوب دھشت گرد آپ کے زیر انتظام ہوسٹلوں سے ہی برآمد ہوتے ہیں؟

تو جناب اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان حقائق کے باوجود  جمعیت معصوم ہے یا کچھ نہیں کرتی تو مجھے آپکی کبوتر جیسی معصومیت پر ترس آتا ہے۔ اورجمعیت کا یہ کہنا کہ وہ برا کام نہیں کرتے بلکہ برائی کو روکتے ہیں تو مجھے بادشاہی مسجد کے نواح میں مقیم لوگوں کا دن کے وقت دیا ہوا وہ بیان یاد آجاتا ہے کہ وہ ہر کسی سے کہتے پھرتے ہیں کہ ’’ ہم برا کام نہیں کرتے صرف گاتے بجاتے ہیں‘‘اسی طرح جبکہ جمعیت بھی برا کام تو نہیں کرتی مگر ہر مخالف پر موقع بہ موقع تشدد ضرور کرتی ہے ۔

(مقدس کاظمی نے پنجاب یونیورسٹی سے ڈبل ایم ایس سی کر رکھی ہے اور چار مضامین میں پرائیویٹ طالب علم کے طور پر ایم اے کی ڈگری بھی پنجاب یونیورسٹی ہی سے حاصل کی۔ انہوں نے ہندی زبان کا پی جی ڈی بھی پنجاب یونیورسٹی ہی سے کیا۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments