بھارتی وزیرِ دفاع، ضیاالحق کی کرکٹ ڈپلومیسی اور مسئلہ کشمیر


بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ نے یہ کہہ کر ایٹمی جنگ کی طرف پہلا قدم بڑھایا ہے کہ حالات دیکھ کر فیصلہ ہو گا کب ایٹم بم کا استعمال کرنا ہے۔ اس سے تین سال پہلے اس وقت کے بھارتی وزیرِ دفاع منوہر پاریکر نے بھی یہی کہا تھا مگر فوراً وضاحت کر دی گئی کہ یہ وزیر کا ذاتی بیان ہے، حکومت کی یہ پالیسی نہیں۔ دراصل بھارت سمجھتا ہے کہ ہر محاذ ایٹم بم کے استعمال سے فتح کیا جا سکتا ہے مگر ایسا ہر گز نہیں۔ بھارتی راج نیتی کے پرانے پاپیوں کو یہ واقعہ یاد ہو گا 80 ء کی دہائی میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی بھارت کے وزیرِ اعظم بنے، جوان خون میں گرمی تھی سو اس نے انڈین فورسز کو جنگ کی خاطر پاکستانی سر حدوں پر تیار کھڑا کر دیا۔ جب جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے اُسی دوران ایک کرکٹ میچ آ گیا، میچ دیکھنے کے بہانے ضیاء الحق بھی دلی پہنچ گئے۔

راجیو گاندھی کے مشیر انڈیا ٹو ڈے میں لکھتے ہیں: ”ضیا ء الحق بغیر کسی دعوت کے میچ دیکھنے آ گئے، راجیو گاندھی اس وقت پاکستانی صدر سے ملنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ بھارتی فوج کے مسلح دستے راجستھان سیکٹر میں وزیرِ اعظم کے حکم کے منتظر تھے کہ کب جنگ کا حکم آئے اور وہ شروعات کریں۔ میچ چنائے میں تھا اور ضیا ء الحق کو کچھ دیر دہلی میں رکنا تھا۔ راجیو گاندھی ایئر پورٹ نہیں جانا چاہتے تھے مگر اپوزیشن اور مرکزی کابینہ کا خیال تھا کہ اگر پاکستانی صدر بغیر دعوت کے آ رہا ہے تو اس کا استقبال کرنا چاہیے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ سفارتی آداب کے خلاف ہو گا۔

”خیر راجیو ہمارے اصرار پر دہلی ایئر پورٹ گئے، ضیاالحق کا استقبال بڑی سرد مہری کے ساتھ کیا بلکہ جب بے دلی سے ہاتھ ملایا تو آنکھیں نہ ملائیں۔ بھگوان جانتا ہے ضیا الحق کس قدر مضبوط اعصاب کا مالک تھا، اس قدر برے اور توہین آمیز اسقبال پر بھی وہ مسکرا رہا تھا، اسے وہاں سے میچ دیکھنے چنائے جانا تھا۔ ائیر پورٹ پر ہی ضیا ء الحق کچھ دیر راجیو گاندھی کے ساتھ بیٹھا مگر چنائے جانے سے قبل جب وہ مسٹر گاندھی سے الوداعی ہاتھ ملا رہا تھا تو اس نے فقط اتنا کہا ’مسٹر راجیو! آپ پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، کریں۔ مگر ایک چیز ذہن میں ضرور رکھنا کہ دنیا ہلاکو اور چنگیز خان کو بھول جائے گی، وہ صرف ضیاء اور راجیو کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ روایتی جنگ نہیں ہو گی بلکہ ایٹمی جنگ ہو گی، ممکن ہے پاکستان تباہ ہو جائے مگر مسلمان اور ان کی ریاستیں رہیں گی اور اگر انڈیا تباہ ہو گیا تو پھر ہندو ازم ختم ہو جائے گا۔‘ ان جملوں کے بعد میں نے لمحوں میں راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینے کے قطرے دیکھے، ایسے جیسے کسی نے کمر میں چھرا گھونپ دیا ہو۔

”یہی وہ چند لمحات تھے جب ضیا الحق ایک خطر ناک ترین آدمی لگ رہا تھا، اس کا چہرہ، اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ پورے بر صغیر کو ایٹم سے راکھ بنا نا چاہتا ہے، اس نے میزبانوں سے بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ میرے اور راجیو سمیت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ضیا ء الحق اتنے ہلکے پھلکے اور خوشگوار موڈ میں انڈین وزیر اعظم کے لیے مشکلات کا سندیسہ دے گا، اتنے خوبصورت انداز میں ایٹمی جنگ کی دھمکی دے گا۔ بس پھر ہمیں واپسی کا راستہ اختیا ر کرنا پڑا۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں اعلی سطح پر اندازہ ہوا کہ پاکستان بھی ایٹمی قوت بن چکا ہے۔“

یہ واقعہ تو یہی ثابت کر رہا ہے کہ یہ انڈین وزیرِ دفاع کی بھول ہے کہ جنگ جیتنے کے لیے ایٹم بم کے استعمال میں پہل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ معروف کالم نگار منصور آفاق لکھتے ہیں : ”کشمیر کے محاذ پر ہونے والی محدود جنگ میں بھارت کی ناکامی سے اس روایتی جنگ کا آغاز ہو گا جس میں کوئی بھی فریق ایٹمی حملے میں پہل کر سکتا ہے۔ وہ جنگ شروع ہو سکتی ہے جسے کوئی جیت نہیں سکتا۔ جس کے اختتام پر برِصغیر ایسے شمشان میں بدل جائے گا جہاں صرف جلتی ہوئی لاشیں ہوں گی۔ کشمیر میں ہندو ایک ہولو کاسٹ کا خواب دیکھ رہے ہیں، ان کے خیال میں جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا ہمیں وہی کچھ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ کرنا ہے۔ بھگوت گیتا میں ایک اشلوک موجود ہے، پتہ نہیں اس کے ماننے والے اسے کیوں بھول جاتے ہیں ’میں وہ موت ہوں جو ساری دنیا کو تباہ کر سکتی ہے، مجھ میں ہزاروں سورجوں کی گرمی اور قوت بھری ہوئی ہے۔“‘

1962 میں جب چین اور بھارت میں جنگ شروع ہوئی تو پاکستان نے کشمیر کے محاذ پر لڑنے کی تیاری کی مگر امریکہ نے صدر ایوب کو یقین دلایا کہ اگر پاکستان اس جنگ میں غیر جانبدار رہے تو امریکہ مسئلہ کشمیر حل کرا دے گا۔ اسی طرح کا ایک وعدہ ان دنوں امریکہ نے عمران خان کے ساتھ بھی کیا ہے۔ باقی اللہ خیر کرے کیوں کہ ”امریکہ دی نہ یاری اچھی، نہ دشمنی“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).