یہ تبدیلی بھی آپ کو مبارک ہو!


ایک وقت تھا جب زُباں بندی کی گہری گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ ابلاغ اور اظہار کے ذرائع بھی بہت محدود تھے۔ مگر اِیسے حبس زدہ ماحول میں بھی اختلاف رائے کا وجود کسی حد تک مثُبت اور نتیجہ خیز مُباحثوں کو جَنم دیتا تھا۔ آدابِ گفُتگو کوخاطر میں لاتے ہوئے لوگ اپنے اپنے مُؤقف کے حق میں دلائل پیش کرتے۔ تاریخی، سماجی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی حقائق کو منطق کی کسوٹی پر دلیل کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے اپنے مُؤقف کی تائید میں پِیش کرتے اور بَحث برائے بَحث کی بجائے انکار اور اقرار کی پگڈنڈی سے گزرتی ہوئی بات کسی منطقی انجام تک پہنچ جاتی۔ یہاں تک کے تھڑا سیاست کے دوران ہونے والی بحث وتکرار میں، موجودہ ٹی وی ٹاک شوز سے زیادہ، تدبر، تحمل اور برداشت پائی جاتی تھی۔

اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ظلم، جبر اور نا انصافی پر سراپا احتجاج ہونے کے استعارے بھی اپنے اندر ایک جاذبیت رکھتے تھے۔ سیاسی جلسوں، احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں سے ”ظلم کے یہ ضابطے، ہم نہیں مانتے“ جیسے فلک شگاف نعروں کی گونج سنائی دیتی تھی۔

جَبر کی اندھی راتوں کی چشم آشوب تاریکی میں علی عباس جلالپوری اور سبط حسن جیسے لوگوں کے روشن خیالات کے جگنو ٹمٹماتے تھے جنہوں نے عام فکری مغالطوں اور ماضی کے مزاروں سے چادر اٹھا کر کھوج کی نئی راہیں متعین کیں۔ اور جالب کی انکار سے لبریز کھنکتی گرج محبوس فضاؤں میں کچھ یوں گونجتی تھی۔

اِس دستُور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

پھر کتنے منظر بدلے اور کتنے پس منظر۔ ایک وقت آیا کے وہی لوگ جو صبح بے نور میں سیاہ دستور بنانے کے شریک جرم تھے انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جب یہِی شعر سرمنبر دہرائے تو جالب کے انکار کا معانی اور مفہوم دُھندلا سا گیا۔ ظلم اور نا انصافی کے خلاف مزاحمت کا جو بیانیہ تشکیل پا رہا تھا غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوتا چلا گیا۔

اور پھر ایک دن آیا کے ”چور چور چور،“ ”پکڑو پکڑو پکڑو،“ ”کسی کو نہیں چھوڑوں گا،“ ”تبدیلی لاؤں گا“ کا شور سنائی دیا۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی بستی میں رات کے تاریک پہر میں کوئی شخص اگر چور چور کی چیخ وپکار کرتا بھاگ رہا ہو تو بستی کے بیشتر لوگ اُس کے پیچھے اُسی سَمت میں وہی راگ الاپتے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کے چوری کِس کی ہوئی ہے؟ کیا چوری ہوا ہے؟ چور کون ہے؟ اور دیکھتے ہی دیکھتے اک ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی ایک ہجوم بنتا چلا گیا۔ جس نے ”تبدیلی، تبدیلی“ کا شور برپا کر دیا۔ اِس ہجوم کو پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر پذیرائی دی گئی، حتیٰ کہ اسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیا گیا اور بلآخر ’تبدیلی‘ آگئی۔

ظلم، جبر اور نا انصافی کی ایک اور داستان شروع ہو ئی۔ توقع تھی کہ جہاں شبِ ظلمات کی سیاہی میں اضافہ ہوا وہاں انکار، احتجاج، مذمت اور مزاحمتی سیاست کا بیانیہ اور استعارے بھی مزید مربوط اور مضبوط ہوتے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ انکار اور احتجاج کے استعاروں اور مزاحمتی سیاسی بیانیہ کی لُغت کا فقدان ہوتا چلا گیا۔ اور اَب احوال یہ ہے کے احتجاجی مظاہروں اور سیاسی جلسوں سے اُن فلک شگاف نعروں کی بجائے ”باجی چور،“ ”بیٹی چور،“ ”باپ چور،“ ”بیغیرت،“ ”کتا،“ ”دلا،“ کی چیخ وپکار سنائی دیتی ہے۔

جہاں لوگ اختلاف رائے رکھنے پر اپنے مُؤقف کے حق میں دلائل پیش کرتے تھے وہاں دلیل کی جگہ کردار کُشی، دُشنام طرازی اور گالی نے لے لی ہے۔ اب لوگ اپنے مُؤقف کو ثابت کرنے کے لئے مدلل بحث و مباحثہ پر توانائی صرف کرنے کی بجائے مخالفین کی ماں، بیٹی یا بہن کا ویڈیو کلپ ڈھونڈنا اور پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔ تاکہ کسی بھی نقطہ پر اختلاف اور اِنکار کی جرات ہی پیدا نہ ہو۔

اور اِس طرح مزاحمتی سیاست کا بیانیہ جو پہلے ہی غیر یقینی صورتحال کا شکار تھا ’تبدیلی‘ کی تاب نہ لاتا ہوا گالی میں بدل گیا ہے۔ اور یہ ”تبدیلی“ بھی آپ کو مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).