پروفیسر شہباز علی: درویش کی پرواز کی کچھ بات کریں


\"muhammadہم لوگوں کا ایک المیہ ہے۔ ہم صرف ان شخصیات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جو شہرت کی بلندیوں تک پہنچ چکے ہیں (بھلے وہ اس ناموری کے ہر گزمستحق نہ ہوں)۔ لکھنے والے بھی انہی پر لکھے جا رہے ہیں جن کے بارے میں سب کچھ بار بار چھپ یا نشر ہوچکا ہے ۔ آرگنائزر بھی مڑ مڑ کر انہیں فنکاروں کے ساتھ محفلیں منعقد کر رہے ہیں جن کے پاس اب کچھ نیا نہیں۔ جو کچھ بھی ہے، گھسا پٹا ہے۔

اکثرسنویئے یہ سمجھتے ہیں کہ اتائی کے گانے بجانے میں رس ہو ہی نہیں ہو سکتا۔ مٹھاس صرف مراثی کے گھر کی لونڈی ہے۔ نیز موسیقی کتابوں سے نہیں سیکھی جا سکتی اور اسے قلمبند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی باتیں صرف وہی کرتے ہیں جو موسیقی کا عملی مظاہرہ کرنے سے قاصر ہیں۔ انکی خدمت میں عرض ہے کہ باوجود پنڈت بھات کھانڈے سے بغض رکھنے کے دنیا کا ہر مراثی (ماسوائے کرناٹکی موسیقی کے، کیونکہ اسکی دنیا ہی نرالی ہے) پنڈت جی کی کتابوں میں لکھے دس ٹھاٹوں کو ہی مانتا اورعمل کرتا ہے ۔

کائنات میں ایک سے ایک بڑھ کر نابغہ روزگار موجود ہے جو اپنی چھوٹی سے دنیا میں گم ہے۔ اسے شہرت سے کچھ لینا دینا نہیں مگر ہاں نامی گرامی اس کے آستانے پر حاضری دینے آتے ہیں اور بیحد قدر کرتے ہیں۔ آج کے مضمون میں اک ایسے ہی درویش کا ذکر ہے جنہیں میں ذاتی طور پر کئی برسوں سے جانتا ہوں اور انکا ادنیٰ سا شاگرد بھی ہوں۔ عموماً اس قسم کے مضامین لکھتے ہوئے ہم لوگ اپنے ممدوح کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔ میری کوشش ہو گی کہ حقیقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے جب پروفیسر شہباز علی کے بارے میں کچھ بیان کیا جائے ۔

پروفیسر اردو کے ہیں مشہور تاریخی درس گاہ گارڈن کالج راولپنڈی میں۔موسیقی کا شوق انکے والد صاحب کو تھا ۔ انکو بھی ہو گیا۔ سن سن کر خود ہی گانے بھی لگ گئے اور باجا (harmonium)بھی بجانے لگے۔ لڑکپن میں ہی پرفارم بھی کرنا شروع کر دیا اور موسیقی کے مقابلے بھی جیتنا شروع ہو گئے۔لیکن استاد کی تلاش جاری تھی۔ کسی نیک انسان نے انہیں بتلایا کہ موسیقی کے ایک عظیم رہنما آپکے محلے میں ہی رہتے ہیںان سے سیکھئے۔ اسطرح شہباز بھائی قاضی ظہور الحق صاحب سے باقاعدہ سیکھنا شروع ہو گئے۔ قاضی صاحب جیسی ہستی کاذکرتو ساری عمر بھی کیا جائے تو حق ادا نہ ہو گا۔ ان پر شہباز بھائی ایک مفصل مضمون اپنی کتاب ’سر سنسار‘ میں تحریر کر چکے ہیں۔ سرسری سا تذکرہ اس مضمون میں موجود ہے:

قاضی صاحب کا موسیقی پر یہ احسان ہے کہ انہوں نے اسے ایک نظم وضبط کے دائرے میں قید کر کے بِنا ہوا بنائے سلیس انداز میں طالبعلموں کیلئے پیش کیا اور ہرکسی\"prof-shahbaz-ali\" کو بغیر فیس سچا علم دیا۔ اس طرح انہوں نے اپنے استاد یعنی پنڈت کرشنا راﺅ شنکر پنڈت جی کا حق ادا کیا جن کا نصب العین موسیقی کو اسکے طالب تک بے لوث پہچانا تھا۔ اب یہ حق شہباز بھائی ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت پورے پاکستان میںچند ہی ایسی ہستیاں ہونگی جو واقعی یہ چاہتے ہوں کہ ان کے پاس آنے والے موسیقی سیکھیں اور فیض پائیں۔ شہباز بھائی ان میں سے ایک ہیں۔ ان کے پاس زیادہ تر ایسے حضرات آتے ہیں جو مراثیوں کے ہتھے چڑھ کر اپنا پیسہ، وقت اور گلہ برباد کر چکے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں میں بھی دو قسم کے حضرات پائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر تو وہ جو اس بات کا رعب جھاڑتے ہیں کہ وہ فلانے خاں صاحب کے شاگرد رہ چکے ہیں جب شہباز بھائی انہیں ’سا رے گا ما ‘ کا پلٹہ کرواتے ہیں۔ ان کے نزدیک ’سا رے گا ما‘ سیکھنا ان کی توہین ہے کیونکہ جن خاں صاحب کے یہ شاگرد رہ چکے ہوتے ہیں وہ ان کے ساتھ یہ ’استادی‘ کر جاتا ہے کہ انہیں چند غزلیں یا ٹھمریاں طوطے کی طرح رٹوا جاتا ہے۔ ان لوگوں کی شہباز بھائی سے توقع یہ ہوتی ہے کہ وہ انہیں مزید راگ رٹوا دیں۔ ایسے لوگوں کو پھر شہباز بھائی یہ کہتے ہیں کہ جو راگ یا ٹھمری آتی ہے اسکی مزید بڑھت کر کے دکھاو یا سارے سر شدھ، تیور اور مدھم اوپر نیچے لگا کر دکھاﺅ۔ یہاں ان کا پانی اتر جاتا ہے۔ کیونکہ مراثی نے موسیقی کے مروجہ اصولوں کے تحت تو سکھانا ہوتا نہیں ہے۔ کیونکہ اگر کلیہ سکھا دیا تو پھر اتائی فرفر گانے بجانے لگتا ہے۔ دوسری قسم کے لوگ ، جو کہ شاذ و نادر ہی ملتے ہیں سب کچھ شہباز بھائی پر چھوڑ دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ حضور ہمیں تو کچھ علم نہیں آپ جیسے مناسب سمجھیں سکھائیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ سیکھتے بھی ایسے ہی لوگ ہیں۔

شہباز بھائی کے سکھانے کے انداز میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک سلیبس نئے آنے والے کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ وہی سلیبس ہے جو قاضی صاحب کے استاد نے مرتب کیا تھا۔ اسوقت سارے ہندوستان میں موسیقی خواہ ووکل ہو یا انسٹرومینٹل اسی سلیبس کے فارمولے کے تحت سکھائی جاتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ساری دنیا پنڈت جی کی شاگرد ہے۔ نقطہ یہ ہے کہ موسیقی دیگر علوم کی طرح ایک علم ہے اور اسے بتدریج سیکھانا چاہیے۔

سلیبس میں پچاس پلٹے ہوتے ہیں۔ اگر یہ ذہن نشین کر لیئے جائیں سمجھ کر اور سر کی پہچان ایسے کر لی جائے جیسے انسان اپنے ماں باپ کو پہچانتا ہے تو موسیقی بہت آرام سے سیکھی جا سکھتی ہے مگر اس میں انتھک ریاضت کی ضرورت ہے۔ سمجھ لیجئے کہ یہ سلیبس نسخہ کیمیاءہے۔ شہباز بھائی ہر راگ نہیں سکھاتے۔ کوئی بھی سچا استاد ایسا نہیں کرتا۔ وہ آپ کو صرف تین راگوں (بلاول، بھیروی اور ایمن) میں یہ پلٹے کروا دیں گے ۔ اس طرح بارہ کے بارہ سروں کی مشق ہو جاتی ہے۔ یہ پلٹے ہر راگ میں فٹ ہو جاتے ہیں۔ پھراس سلیبس کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہر راگ کا سرگم تال میں لکھ دیا گیا ہے۔ اگر شاگرد لے کا بنیادی نکتہ سمجھ لے تو با آسانی ہر سرگم گا سکتا ہے۔ صرف اتنی سی بات سمجھ لینے اور عبور حاصل کرنے کے بعد کوئی بھی راگ گانا یا بجانا مشکل نہیں۔ آگے کام صرف تحقیق اور ریاضت کا ہے جو ہر انسان اپنی بساط کے مطابق ہی کر سکتا ہے۔

شہباز بھائی کی موسیقی سکھانے کی دیانتداری کی بہترین مثال ان کا طالبعلموں کو یہ سکھلانا ہے کہ سر پر عبور کیسے حاصل کیا جائے۔ وہ آپکو پانچوے کالے یعنی اے شارپ سے کھرج بھرنے کا مشورہ دیں گے۔ اور وہ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ اب اوپر جاﺅ۔ وہ کھرج نیچے کی جانب بھروائیں گے۔ یہ اتنی خوبصورت مشق ہے کہ میں صرف اسے ہی بطور ریاضت کرتا رہتا ہوں۔ مجھے پلٹہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پلٹہ کرنا ضروری نہیں۔ دراصل میں نے اپنی منزل کا تعین کیا ہوا ہے اور میرا ہدف بہت ہی معمولی سا ہے ۔ کھرج بھر کر ہی پورا ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سے یہ بھی اخذ نہ کیجئے گا کہ کھرج بھرنا کوئی عام مشق ہے۔ بڑے بڑے گویے گھنٹوں گھنٹوں سالہا سال کھرج ہی بھرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال پنڈت وشنو دگمبر ہیں جنکے استاد نے انہیں نو سال تک صرف کھرج ہی بھروایا۔ شہباز بھائی ہمیں سمجھاتے ہیں کہ کھرج یعنی سا میں ہی سارے سر ہیں۔ اگر سا درست لگنا شروع ہو جائے تو باقی تمام سر خود بخود لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اورکھرج جتنا مندر استھان میں بھرا جائے اتنا ہی آواز مضبوط ہوتا ہے۔ نکھرتا ہے اور آرام سے تار سپتک میں جانا شروع ہو جاتا ہے۔ مگر مراثی کی تعلیم اس اصول کے برعکس ہوتی ہے۔ وہ بھلا کیسے برداشت کر سکتا ہے اتائی کو مٹھاس اور سر میں گاتے ہوئے۔ مگر مراثی اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں خود ہی گر گیا۔ مراثی نے سکھانے کے معاملے میں بے ایمانی اپنی اولاد سے بھی کی۔ اسے یہ سوچ کر سب گر نہیں سکھائے کے اگر سکھلا دیے تو میرا فرمانبردار نہ رہے گا۔ اس بخل کی وجہ سے یہ فن مراثیوں سے نکل کر اب شہباز بھائی جیسے اتائیوں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ آج کل مراثیوں کے بچے شہباز بھائی کے آگے پیچھے پھر رہے ہوتے ہیں کہ خاں صاحب سکھا دو۔ ایک مثال خلیفہ ارشاد صاحب کا نواسہ ہے۔ خلیفہ صاحب سے زیادہ طبلہ نہ سیکھ سکا ان کے انتقال کے سبب۔ تین تال کا برابر کا ٹھیکہ لگا لیتا ہے مگر لے کو چار ماترے گرا کر ایک تالہ ، تلواڑہ یا جھومرہ نہیں لگا سکتا۔ اب شہباز بھائی کوئی طبلے کے معلم تو ہیں نہیں مگر مراثیوں کی اولادوں کو طبلہ سکھا رہے ہیں۔

شہباز بھائی کمال کے سولو ہارمونیم نواز ہیں۔ یہ ساز کسی سے بھی نہیں سیکھا بس ماسٹر صادق (پنڈی والے ) کی صحبت میں وقت گذار کر خود ہی ان کا انگ اپنی روح میں حلول کر لیا۔ مراد مند ہیں۔ ماسٹر صاحب کو ہی اپنا استاد کہتے ہیں۔ حال ہی میں انکی قبر کو پکا کروایا۔ باقاعدگی سے ان کی قبر پر حاضری دیتے ہیں۔ اور اسی طرح کی گرو دکشنا قاضی صاحب کو بھی دیتے ہیں۔ جب بھی دل اداس ہوتا ہے قاضی صاحب کی قبر کی زیارت کرتے ہیں اور طبعیت پرسکون ہو جاتی ہے۔

\"ghulam

بات ہورہی تھی سولو ہارمونیم کی۔ شہباز بھائی کے سولو ہارمونیم کا چرچہ سنکر ایک دن غلام علی بھائی ان کے گھر اچانک تشریف لے آئے۔ غلام علی وہ فنکار جن کے قدموں میں سارا ہندوستان بیٹھتا ہے۔ بولے کہ  ’تمہارا ہارمونیم میں سن چکا ہوں۔ یہ تو ماسٹر صادق صاحب کا انگ ہے ۔ بس تمہیں مبارکباد دینے آیا ہوں۔ پھر بولے کہ ’میرا یہ اصول ہے کہ میں کسی کے گھر نہیں بجاتا لیکن میں آپ کے لئے بجاﺅں گا۔‘ شہباز بھائی نے انہیں جرمن ریڈ کا باجا دیا اور غلام علی نے ان کے لیے بجایا۔ کتنا بڑا خراجِ تحسین ہے! یہ بات شاید ہر کسی کو معلوم نہ ہو کہ غلام علی کمال کا سولو ہارمونیم اور طبلہ بجاتے ہیں۔ غلام علی کے ایک شاگرد غلام ربانی نے ایک ملاقات میں ہمیں یہ بتا کر حیران کر دیا کہ غلام علی نے طبلے کی کئے چیزیں نامور طبلہ نواز تاری کو سکھلائی ہیں ڈانٹ پلا پلا کر۔ تاری سے تہائیاں سم پر نہیں آتی تھیں اور پھر غلام علی طبلہ پکڑ کر تاری کو بتایا کرتے تھے۔ معلوم نہیں تاری اب اس بات کو مانے گا یا نہیں!

شہباز بھائی نے موسیقی سب ہی کو بہت دل سے سکھائی لیکن زیادہ تر شاگردوں نے انہیں مایوس کیا۔ انہوں نے بہت محنت اور پیار سے ایک بچہ جس کا نام احسن علی ہے تیار کیا۔ احسن بہت سریلا گاتا تھا۔ شہباز بھائی کی میوزک کلاس میں آیا کرتا تھا۔ پھر دو سال گھر آتا رہا اور تانپورے کے ساتھ ریاض کرنے کے قابل ہوگیا۔ بڑا خیال بھی گانے لگ گیا۔ بس اسکے بعد غائب ہو گیا۔ آجکا میوزک ٹیچر ہے اشرافیہ کے ایک سکول میں۔ اس بات سے شہباز بھائی بہت دل گرفتہ ہوئے۔ لیکن سکھانا نہیں چھوڑا۔ ہم تو آج تک سیکھ رہے ہیں ان سے۔ انکی باتوں سے ہی بہت کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے۔ بقول شہباز بھائی ان کا بہترین شاگرد ایک چینی لیانگ ہاﺅ (آفاق علی )ہے جو ان سے کلاسیکل موسیقی سیکھنے پاکستان آیا۔ فوجی آمر پرویز مشرف نے چین کے ایک دورے پر آفاق کو سنا اور حیران رہ گئے کہ کیسے ایک چینی مہدی حسن کی غزلیں روانی سے گا رہا ہے۔ مشرف صاحب نے پاکستان لوٹتے ہی یہ حکم جاری کیا کہ وہ آفاق کے استاد سے ملنا چاہتے ہیں جو کبھی بجا نہ لایا گیا کیونکہ درمیان میں پی این سی اے Pakistan National Council of the Artsپل کا کام کر رہی تھی۔ شہباز بھائی چونکہ ایک درویش ہیں۔ اس قسم کے اداروں کے افسران کی چاپلوسی نہیں کرتے لہذا بات آئی گئی ہو گئی۔ اسی دوران مشرف صاحب کا بوریا بستر بھی گول ہو گیا۔

شہباز بھائی کی موسیقی کے لئے ایک اور قابلِ ذکر خدمت ان کی ایوارڈ یافتہ کتاب ’سر سنسار‘ ہے جسے انہوں نے اپنے پیسے سے چھاپا۔ اس میں چوبیس فنکاروں کے خاکے ہیں۔ زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جو بہت زیادہ مشہور نہیں ہوئے مگر فن کے اعتبار سے باکمال تھے مثلاً عبدالقادر پیا رنگ، فیروز خان نشی والے (آنندو چٹرجی کے دادا استاد)، میاں نبی بخش کالرے والے، توکل حسین، طفیل نیازی وغیرہ۔اس کتاب میں کافی اہم معلومات ہیں۔ اسے پڑھ کر دل افسردہ ہو جاتا ہے اور خیال آتا ہے کہ، \”یہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں\”۔۔۔

 

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments