سیلف ہیلپ کتابوں کو آگ لگا دیں


جس طرح ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کرنے کے بعد شہر کے تمام کتب خانے نذر آتش کر دیے تھے اور خلیفہ ہارون الرشید کے قائم کردہ عظیم الشان دارالحکمہ کو بھی آگ لگا دی تھی اسی طرح کچھ عرصے سے میرا دل بھی چاہ رہا ہے کہ میں اپنی چھوٹی سی لائبریری میں موجود سیلف ہیلپ کی کتابوں کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دوں اور اس کی راکھ راوی میں بہا کر باقی ماندہ زندگی کسی مطمئن سادھو کی طرح انگریزی میں خطبے دیتے ہوئے گزار دوں۔ یہ انقلابی سوچ کافی عرصے سے میرے دماغ میں پرورش پا رہی تھی مگر آج میں نے سوچا کہ آپ کو بھی اس ذہنی انقلاب سے آگاہ کر دوں۔

سیلف ہیلپ (جس کا اردو ترجمہ ”کمک بہ خود“ کیا جا سکتا ہے ) دراصل ایک ایسا موضوع ہے جس پر بات کرنے کے لیے ہمارے جیسے غریب ملک میں بھی بہترین موٹیویشنل سپیکرز موجود ہیں، میں پوری سنجیدگی سے سمجھتا ہوں کہ یہ سب بڑے قابل لوگ ہیں، انہوں نے سیلف ہیلپ کی کتابیں گھول کر پی رکھی ہیں، لوگ ان کی باتیں نہایت شوق سے سنتے ہیں، ان کی گفتگو بہت دلچسپ ہوتی ہے، یہ آپ کو کامیاب لوگوں کی زندگیوں کی مثالوں دے کر سمجھاتے ہیں کہ کیسے آپ بھی اپنی کایا کلپ کر سکتے ہیں۔

یہ سب کوئی مشکل کام نہیں، آپ چاہیں تو ان موٹیویشنل سپیکرز کی باتو ں کو پلے سے باندھ لیں یا پھر خود سیلف ہیلپ کی چنندہ کتابیں پڑھ کر ان میں دی گئی باتو ں پر عمل کرلیں، کامیابی آپ کے قدم چوم لے گی۔ ڈیل کارنیگی سے سٹیفن کووی تک اور نیپولین ہل سے مالکم گلیڈ ول تک، کامیابی کے تمام سنہری اصول ان بزرگوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دیے ہیں، یہ اصول یا انہیں بیان کرنے کا انداز مختلف ہو سکتا ہے مگر ایک بات ان سب میں مشترک ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کامیابی حاصل کرنے کے لیے برائی کا سہارا لینے کا مشورہ نہیں دیتا، منافقت کو شعار بنانے کی تلقین نہیں کرتا یا بدی سے ناتا جوڑنے کے لیے نہیں کہتا۔

الٹا تمام سیلف ہیلپ کتابیں، موٹیویشنل سپیکرز اور گرو ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کامیابی کے لیے اخلاص ضروری ہے اور کردار کی بلندی شرط ہے، اگر دوسروں کے ساتھ بھلائی کا جذبہ، لگن، دیانت داری اور نیک نیتی موجود ہو تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔ مثلاً کچھ سال پہلے ایک کتاب آئی، نام تھا Give and Take، اس کے مصنف آدم گرانٹ نے تحقیق کی مدد سے ثابت کیا کہ جو لوگ اپنے معاملات میں زیادہ کھلے دل کے ہوتے ہیں یا یوں کہیے کہ وہ دوسروں کو دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے، بالآخر وہ اُن لوگوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جو ہر وقت کچھ نہ کچھ سمیٹنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طر ح جس برس چارلس ڈارون کی شہرہ آفاق کتاب Origin of the Species شائع ہوئی اسی سال سیمیول سمائلز کی ”سیلف ہیلپ“ بھی شائع ہوئی، ڈیڑھ سو سال پہلے اس لکھاری نے کامیابی کے حصول کے لیے اعلی ٰکردار کی اہمیت کے بارے میں جو لکھا وہی آج کل موٹیوویشنل سپیکرز ہمیں سمجھاتے رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مجھے کیا تکلیف ہے! اگر صدیوں سے لوگ کامیابی کے نسخوں میں نیکی، کردار سازی، صداقت، ایمانداری اور محنت کی تلقین کرتے آ رہے ہیں تواس میں قابل اعتراض بات کیا ہے۔ لوگوں کو اگر اچھائی کی ہدایت نہ دیں تو کیا شیطان کا پجاری بنا دیں؟ بالکل ایسی بات نہیں مگر اس کے باوجودمیں نے بہر حال سیلف ہیلپ کی کتابوں کو آگ لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کامیابی کے یہ کلیے باقی دنیا میں یقیناکام کرتے ہوں گے مگر وطن عزیز میں کوئی خاص کام نہیں کرتے۔

یقین نہیں آتا تو ابھی ایک چھوٹا سا سروے کر لیتے ہیں، ایک فہرست ان تمام لوگوں کی بنائیں جو آپ کی نظر میں دنیاوی اعتبار سے کامیاب ہیں، اِس میں ارب پتی کاروباری، ہمیشہ اقتدار میں رہنے والے سیاست دان، طاقتور بیوروکریٹس اور ایسے ہی دیگر با اثر افراد کو شامل کریں جو میڈیا پر چھائے رہتے ہیں، کوشش کریں کہ یہ فہرست سو لوگوں پر مشتمل ہو، اب ان کی چھانٹی شروع کریں اور دیکھیں کہ ان میں سے کتنے لو گ اعلی ٰ اخلاق کے اُس درجے پر پورے اترتے ہیں جو ہمیں سیلف ہیلپ کی کتابوں میں لکھا ملتا ہے یا اِس فہرست کو ایمانداری، ایفائے عہد اور وفاداری کی چھلنی سے گزاریں اور دیکھیں کتنے لوگ بچتے ہیں۔

شاید آدھے سے زیادہ لوگ اس فہرست سے باہر نکل جائیں۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگ یہ اعتراض کریں کہ کسی کے کردار، دیانت یا نیک نیتی کے بارے میں عدم ثبوت یا بغیر وجہ کے درست اندازے لگانا ممکن نہیں، ٹھیک بات ہے، مگر اپنی آسانی کے لیے آپ جو بھی معیار مقرر کریں گے یہ فہرست کسی نہ کسی طرح گھٹ کر آدھی سے بھی کم رہ جائے گی۔ میرا مقدمہ یہ نہیں کہ سیلف ہیلپ کی کتابوں میں دیے گئے مشورے بیکار ہو تے ہیں یا پھر ہمارے ملک میں صرف بددیانت اور پست کردار کے لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں، ہر گز نہیں، میں تو صرف یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ اگر کامیابی کے نسخے بس وہی ہیں جو ان کتابوں میں لکھے ہیں تو پھر اپنے ملک میں ایسے لوگ کیوں کر کامیاب ہو جاتے ہیں جن میں وہ خوبیاں پائی ہی نہیں جاتیں جن کا ذکر ہمیں کلید کامیابی جیسی کتابوں میں ملتا ہے۔

درا اصل سیلف ہیلپ کتابوں میں آدھا سچ لکھا ہے، مکمل سچ لکھنا شاید ممکن نہیں۔ کون احمق یہ لکھے گاکہ دنیاوی کامیابی کے حصول کے لیے تھوڑی بہت بے اصولی ضروری ہے اور طوطا چشمی لازمی، سفاک ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں، اور اعلی ٰ کردار تو ویسے بھی پیغمبروں کا وصف ہوتا ہے عام آدمی کا اس سے کیا لینا دینا، کامیاب ہونا ہے تو کسی طاقت ور کی مدح سرائی کرو، چڑھتے سورج کی پوجا کرو اور نظریات سے جان چھڑاکر اور ضمیر کی قید سے نکل کر ہر وہ کام کرو جس میں فائدہ ہے، راوی چین ہی چین لکھے گا۔

کامیابی کا یہ نسخہ تیر بہدف بھی ہے اور محفوظ بھی، اپنے ملک میں کم از کم آج تک کوئی ایسا شخص میری نظر سے نہیں گزار جس نے ان اصولوں پر عمل کیا ہو اور گھاٹے میں رہا ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جن لوگوں کو ایمانداری کا ہیضہ ہے، جو اعلی کردار کے حامل ہیں، جو ہر نئے حکمران کو ڈورے نہیں ڈالتے، وہ ہمیشہ ناکام ہی رہتے ہیں۔ نہیں۔ میں تو فقط پہلی قسم کے لوگوں کو سلام پیش کرکے اپنی سیلف ہیلپ کی کتابوں کو آگ لگانے لگا ہوں جنہوں نے وطن عزیز میں کامیابی حاصل کر نے کے نئے اصول دریافت کیے ہیں، یہ نابغہ روزگار لوگ اب ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، کیا یہ چھوٹی بات ہے کہ انہوں نے کلاسیکی کتابوں میں لکھی تھیوریوں کو غلط ثابت کر کے سیلف ہیلپ کی ایک نئی تھیوری ایجاد کی ہے جس سے باقی دنیا اب تک لا علم تھی۔ اب چونکہ اس خاکسار نے یہ تھیوری بیان کر دی ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان کے موٹیویشنل سپیکر ز جب بھی عام لوگوں کو کامیابی کے نسخے سمجھائیں گے تو انہیں یہ بھی بتائیں گے کہ کامیابی کے لیے سب سے ضروری چیزچڑھتے سورج کی پوجا اور طاقت ور کو سلام ہے، باقی سب کتابی باتیں ہیں۔

کالم کی دُم: پاکستانی اداکارائیں آج کل انگریزی میں بہت چہکار (ٹویٹ) رہی ہیں اور اپنے تئیں یہ ثابت کر نے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ نادرہ، گوری، صائمہ یا انجمن نہیں بلکہ ایسی پڑھی لکھی خواتین ہیں جو کشمیر پر ”سٹینڈ“ لینا جانتی ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ سٹینڈ وہ ہے جو کونکونا سین شرما جیسے آرٹسٹوں نے بھارت میں لیا ہے وہ نہیں جو انوپم کھیر نے لیا ہے۔
”ہم سب“ کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada