اپنا بھی ٹائم آئے گا


آہ! اپنا بھی ٹائم آئے گا۔ ریحان کی شرٹ پر لکھی تحریر اور اس پر کیا جانے والا ظلم دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق تھا۔ شاید اس شرٹ کو پہنتے وقت سترہ سالہ ریحان نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ گھر کہ دہلیز سے قدم باہر رکھنے کے بعد کبھی اس کا ٹائم نہیں آئے گا۔

کراچی کے سترہ سالہ نوجوان ریحان کو چوری کے شبے میں کچھ نوجوانوں نے رسیوں سے باندھ کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ لاتیں، ڈنڈے، گھونسے، کیا نہیں تھا جو اس نوجوان نے نہ سہا ہو، کتنی تکلیف تھی جو اس نے سہی ہو گی۔ بالا آخر اس نوجوان کی نازک ہڈیاں یہ درد، تکلیف نہ سہہ سکیں اور وہ اپنا ٹائم آنے سے پہلے ہی اس دنیا سے چلا گیا۔

ہمارے معاشرے میں ماب لنچنگ یعنی ہجوم کے تشدد اورہجوم کے ہاتھوں قتل کیے جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کبھی کسی کو دین کے نام پر مار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی کو چور ڈکیت کہہ کر، کبھی کسی کو حراساں کیے جانے کے الزام میں ماردیا جاتا ہے۔

ریحان کی خبر کو پڑھتے اور ویڈیو دیکھتے وقت میرے ذہن میں ایک بار پھر سانحہ سیالکوٹ اور مشال قتل کیس کسی فلم کی طرح چلنے لگ گیا۔ 15 اگست 2010 کی صبح اور رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور سیالکوٹ کے بھرے بازار میں قانون کے پاسداروں کے سامنے دو بھائیوں کو چوری کے شبے میں سرعام مار ا گیا۔ لیکن اس ہجوم میں کھڑے کسی انسان کو یقینی طور پر معلوم نہیں تھا کہ یہ افراد ان بھائیوں کو کیوں مارہے ہیں۔ اور اس تشدد کے بعد کسی ماں کی گود اجاڑ دی گئی۔

تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ مارے جانے والے دونوں بھائی چور نہیں تھے بلکہ ذاتی رنجش میں ماراگیا تھا۔ آخر کار قتل کے پانچ سال بعد دونوں بھائیوں کو انصاف مل سکا۔ لیکن کیا ان سب کو سزائے دینے کے بعد وہ واپس آسکتے ہیں؟ کیا ان کے والدین کو ان کا دکھ،ان پر کیے جانے والا ظلم بھول سکتا ہے؟ میرا خیال ہے نہیں۔

2017 میں مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں زیر تعلیم نوجوان مشال خان کو مشتعل ہجوم نے توہین رسالت کا الزام لگاکر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ جن انگلیوں سے سچ لکھا کرتاتھا ان انگلیوں کو توڑ دیا گیا، وہی ظلم کی داستان دہرائی گئی۔ ڈنڈے، لاتیں، پتھر، گھسیٹنا کیا ظلم تھا جو اس پر نہ کیا گیا ہو؟ اور وہ بھی اپنا ٹائم آنے سے پہلے اس ظالم دنیا سے چلا گیا۔ مقدمہ چلا تفتیش شروع ہوئی اور معلو م ہوا کہ توہین رسالت کا مورد الزام ٹھہرائے جانے والے نوجوان مشال کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے بعد قتل کیا گیا تھا جس کے بعد مرکز ی ملزمان فرار ہیں۔

کتنے مظالم ہیں جو لکھتے لکھتے شاید ہاتھ تھک جائیں یا ذہین بھی لیکن ان داستانوں کی تعداد ختم نہیں ہوگی۔ بہرحال ان تمام کیسز میں دو چیزیں اہم ہیں جن پر ہم سب کو بحیثیت انسان سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ہجوم میں کھڑے افراد کی اندھی تقلید اور لاشعوری ہے اور دوسرا سوشل میڈیا کا غلط استعمال۔ سانحہ سیالکوٹ ہو، مشال قتل کیس یا کراچی کا ریحان ان تمام واقعات میں کھڑے کسی بھی فرد کو ان کے مجرم کے ہونے یا ہونے کی تصدیق نہیں تھی اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ تشدد کرنے والے افراد کیوں تشدد کررہے ہیں۔ وہ تو بس اندھی تقلید کے فارمولے تھے، اندھے، گونگے، بہرے لوگ۔

دوسرا کیا کبھی ہم نے سوشل میڈیا پر ان ظلم کی تصاویر اور ویڈیوز شئیر کرتے وقت سوچا ہے کہ متاثرہ خاندانوں پر کیا بیتے گی؟ کیا کوئی ماں، کوئی باپ، یا کوئی بہن یا بھائی اپنے پیاروں پر کیے جانے والے اس ظلم کو دیکھ پائے گا؟ کیا اپنے پیاروں کو کھونے کے بعد کسی میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ ظلم کے بعد ایک اور ظلم سہے گا۔ خدارا اپنا انسان ہونے کاحق ادا کریں لیکن بول کر، لکھ کر، آوازبن کر لیکن اس قسم کی ویڈیوز اور تصاویروں کوشئیرکرنے سے اجتناب کریں۔ یقین جانیں بہت تکلیف دہ ہے یہ سب۔

میں ریحان کی حمایت نہیں کرتی اور نہ تفتیش سے قبل کہہ سکتے ہیں کہ ریحان چور یا ڈاکو تھالیکن اگر وہ چور تھا یا ڈاکو تھا تو کیا ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیں؟ کیا ہمیں بحیثیت مسلمان یہ زیب دیتا ہے کہ ہم کسی کی اس طرح سے جان لیں؟ کیا ہمارے ایمان اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ ہم کسی پر ہونے والے ظلم پرصُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ کی مثال بن جائیں۔ کیا معاشرے میں ہونے والی برائیوں کو ختم کرنے کے لئے صرف ویڈیو بنا کر شئیر کرنے سے ہم اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں۔

بہرحال اس واقعے کے ملزموں کو سزا ملتی ہے یا نہیں یا شفاف تحیقات ہوتی ہیں یا نہیں؟ یہ وقت بتائے گا لیکن مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ہمیں اپنی آنکھیں، دماغ اور کان کھلیں رکھنے ہیں اور اندھی تقلید سے اجتناب کرنا ہے۔ ورنہ شاید ان سب سے دوری کسی ریحان، مشال اور معاز جیسے نوجوانوں کا اپنا ٹائم آنے سے پہلے کھو دیں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).