مرنے سے پہلے خواجہ سرا کا خط…. ہم سب کے نام


 \"jawwad-bin-khalil-2\"مرے مہربان دوستو،

میں بہت شکر گزار ہوں کہ مرنے کے بعد ہمارے ایک ساتھی کا خط آپ نے درد اور گداز کے ساتھ پڑھا۔ ایک دن میں نوے ہزار سے زائد نے پڑھا، غم کا اظہار کیا اور اس کے بعد کامیڈی نائٹس ود کپل میں مشغول ہو گئے۔ کیوں نہ لگے ہاتھوں آج کچھ زندوں کی بھی بات ہو جائے کہ کیا کیا جائے یہ کمبخت مارا پیٹ تو آپ کے ساتھ بھی اتنا ہی لگا ہے جتنا میرے ساتھ۔ آپ کے کچھ ساتھیوں نے بڑی عرق ریزی سے ہمارے کروموسوم اور دیگر طبی عوامل پر روشنی ڈالی ہے مگر کیا کروں کہ ہماری روح ہمارے جسم سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ ہم بھی ان کامیڈی نائٹس سے اسی طرح محظوظ ہوتے ہیں جیسے آپ اور آپ کے بیوی بچے۔ کشمیریوں پر ستم کے پہاڑ ٹوٹیں تو ہم بھی اسی طرح غم کا شکار ہوتے ہیں جیسے آپ۔ ہم بھی رنگوں، جگنوؤں کی دنیا کا آپ ہی کی طرح خواب دیکھتے ہیں۔ ہمارے سینوں میں گو کچھ ظاہری فرق ہے لیکن سینے کے اندر دھڑکتا دل، رب کعبہ کی قسم، بڑے زور سے دھڑکتا ہے۔ ہمارے بھی ارمان ہوتے ہیں، ہم بھی کچھ توقیر کی، ناممکن ہی سہی، چاہ کر رہے ہوتے ہیں تو آیئے آج آپ ”زندوں“ سے کچھ دل کی بات کر لی جائے۔

میرے غمخوارو،

جب ہمیں کوئی باپ گھسیٹ کر گھر سے باہر نکال رہا ہوتا ہے تو ہماری چیخیں آپ کے بند کواڑوں کو چھید کر آپ کے کانوں میں تو پڑتی ہوں گی، سات آٹھ سال کے تو آپ کے بھی بچے ہوتے ہوں گے جن کی ایک سسکی بھی آپ کو بے قرار کر دیتی ہے لیکن اسی عمر میں ”ہماری“ چیخیں پر آپ لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ بچوں کے اغوا پر، سنا ہے، آپ کی کوئی سول سوسائٹی ہے جو یکجا اور یک زبان ہو جاتی ہے، ہمارے دن دہاڑے، اپنوں ہی کے ہاتھوں اغوا پر، یہ سوسائٹی معلوم نہیں کہاں ہوتی ہے؟ ہمیں ماں کی مامتا سے جدا کر دیا جاتا ہے، اس کی لوریاں، بوسے، ہمارے لئے خواب بن جاتے ہیں، اس کی ٹھنڈی آغوش کا ایک واہمہ ہی رہ جاتا ہے، کائنات کا پالن ہار آپ سب کی ماﺅں کو سلامت رکھے، ہمیں تو جیتے جی ماں سے ملوانے کی کبھی سعی نہیں کی جاتی۔ ہم اپنے گروﺅں سے رزق اور تربیت پا کر بڑے ہو جاتے ہیں، آپ ان ماں اور باپ جیسے گرو جی کو کبھی ماں یا باپ کا درجہ دینے پر تو تیار نہیں ہوے۔ رب آپ کی جوانیوں کو بھاگ لگائے، ہماری جوانی تو آپ کی جوانی کی جسمانی خواہشات کی آبیاری میں ہی گزر جاتی ہے، سوری، صرف جوان نہیں، اس یک طرفہ لذت کو کشید کرنے میں ادھیڑ عمر اور بوڑھے جوانوں سے بھی آگے ہوتے ہیں۔ آپ کی سول سوسائٹی آتش فشاں بن کر پھوٹ پڑتی ہے اگر کسی ہسپتال میں دل کے مریض کو آپریشن کے لئے ایک سال بعد کی تاریخ ملے لیکن مرے مہربانو، ہمیں تو ہسپتال کا پتا بھی معلوم نہیں، اگر بھولے بھٹکے ہم وہاں چلے بھی جایئں تو آپ جیسے ہی لائق فائق ذمہ داران دھتکار کر باہر نکال دیتے ہیں۔

سنا ہے آپ کے معاشرے میں کوئی تعلیم نامی شے بھی ہوتی ہے جس سے دل و دماغ روشن ہوتے ہیں، ہمیں کیا معلوم۔ شنید ہے کہ پولیس کا فرض آپ کی جان و مال کی \"jawwad\"حفاظت ہوتی ہے، ہمارے لئے تو پولیس ہمارے رزق کو چھین جھپٹ کر لے بھاگنے والا ایک محکمہ ہے۔ کوئی کل ہی کہہ رہا تھا کہ آپ کی کئی بے لوث عوامی تنظیمیں ہوتی ہیں جو غریب عوام کو مفت دسترخوان پر کھانا کھلاتی ہیں، معلوم نہیں ہم عوام میں آتے ہیں کہ نہیں۔ تنظیموں سے یاد آیا آپ کے معاشرے میں ہزاروں غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو دکھوں کے مارے عوام کے درد کا درماں کرتی ہیں، ہمارے لئے تو قابل ذکر صرف ’زیبا“ اور فرشتہ نما انسان امجد ثاقب کی ”اخوت“ ہیں۔ چونکہ ہمارا ووٹ نہیں ہے اس لئے باقی سیاست دانوں کو ووٹ والوں سے زیادہ وفا ہے۔ آپ کے بچے جب گاڑیوں کے شیشے کھول کر ”کھسرا ای اوئے“ کے نعرے لگاتے ہیں تو آپ کے ہونٹوں پر آئی خفیف مسکراہٹ ہم بھی دیکھتے ہیں۔ یقین مانئے اس وقت ہمارا دل کر رہا ہوتا ہے کہ آپ کچھ دیر رک جایئں۔ کیا کریں بچوں کی خوشی ہمارے سینوں کو نہال کر دیتی ہے، بچے من کے سچے جو ہمارے تو نہیں ہو سکتے، ہمارے اندر کے ویران خانوں کو کچھ دیر کے لئے آباد ضرور کر دیتے ہیں۔ نہ، نہ، آپ میں سے کچھ اس پر ناراض ہوتے ہیں، نہ روکا کریں انہیں، ان کے معصوم چہروں سے پھوٹتی خوشی ہی تو ہماری خوشی ہے۔ ویسے چھوٹاسا سوال ہے، برا مت مانیئے گا، انہیں یہ لفظ کھسرا سکھاتا کون ہے؟

مرے ہمدردو،

ہمیں نہیں معلوم شریعت کیا ہوتی ہے؟ اس لئے میں آپ سے اس کی بات ہی نہیں کرتا لیکن اس مہربان و غفور رب پر تو ہمارا بھی ایمان ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ اور کچھ نہیں کیا نماز جنازہ پر بھی ہمارا حق نہیں جس کو پڑھانے سے ابھی کل ہی خیبر پختونخواہ کے علاقے پشاور، حیات آباد کی ہماری ساتھی ”دیوانی“ کی نماز جنازہ پڑھانے سے تمام مولویوں نے انکار کر دیا۔

آپ کے لئے ارسلان افتخار کے نام لمبی چوڑی سیاسی بحث اہم ہے۔  ہمارے لئے تو افتخار چوہدری ایک روشنی کا نام ہے جس نے ہمارے لئے ستمبر 2012 میں اعلیٰ ترین عدالت سے حکم جاری کیا کہ ہمیں ملک کا شہری سمجھا جائے، ہمارے لئے شناختی کارڈ میں الگ خانہ مقرر کیا جائے، ہمیں ووٹ کا حق اور جایئداد میں سے حصہ دیا جائے۔ ایک دن میں نوے ہزار سے زیادہ کی تعداد میں میرا دکھ بانٹنے والو، ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتلاﺅ کہ آپ کو اس فیصلے سے اتفاق ہے؟اگر جواب ہاں ہے تو پھر جہاں آپ کی گفتار اور عمل کا دائرہ کار اس جہاں کی وسعتیں ہیں، مرے لئے آپ مکمل خاموش رہے؟ مانا کہ آپ میں سے بہتوں کو ہمارے بارے کچھ آگہی نہیں تھی لیکن اس بندہ بے مثال شعیب منصور کی ’بول“ کے بعد بھی آپ نہ بولے؟ آپ ہی کے کامیڈی پروگراموں میں ہماری نقل کرنا آج بھی سب سے مقبول ہے۔ آپ کے کسی ڈرامے میں مجھے مرکزی کردار نہیں لیا گیا؟ آپ کے کیا بے مثال شاعر ہیں، تشبیہ، استعارہ، خیال، کمال ان کی میراث ہے، میں تو کبھی شاعری کا موضوع نہیں بنا۔ آپ کے لاجواب لکھاری ہیں جو نسلوں کو اداس کر سکتے ہیں، گڈریا سے لیکر بستی اور راجہ گدھ سے لیکر ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے شاہکار آپ کے معاشرے میں تخلیق ہوتے ہیں، خدا سے شکوہ و جواب شکوہ ہوتا ہے، نہیں ہوتا تو مرا نوحہ کسی افسانے، کسی ناول، کسی کتاب میں نہیں ہوتا۔ زمانہ کروٹ بدل گیا، عورت اس ملک میں وزیر اعظم، قومی اسمبلی سپیکر، مرکزی وزیر، ڈاکٹر، انجینئر، فائٹر پائلٹ، جانے کیا کیا بن گئی، نہیں بنا تو میں آپ کے لئے انسان بھی نہیں بنا۔

خدارا،

ہمیں کچھ نہ دو، سب مال، جاہ و جلال تمہیں مبارک، ہمیں صرف ایک دفعہ ”انسان“ سمجھ لینا۔ اور اگر ممکن ہو تو۔۔۔ ہمارے مرنے سے پہلے۔۔ ہمیں یہ اطلاع بھی پہنچا دینا

سب کا بھلا، سب کی خیر

ایک خواجہ سرا (جو ابھی زندہ ہے)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments