کراچی مقبوضہ سا کیوں لگتا ہے؟


مقبوضہ کشمیر ہو یا کراچی کا مسئلہ، لگتا ایسا ہی ہے کہ دونوں علاقوں کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی نہ دکھانے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ بھی کئی دہائیوں سے حل طلب مسئلے کو قانونی طور پر عمل درآمد کروانے کے بجائے ’سیاسی مصلحت‘ سے کام لیتے دکھائی دیتی ہے۔ یہ عالمی مفاہمت کی مکروہ شکل معلوم ہوتی ہے۔ اہل کراچی مفاہمتی سیاست کے دوغلے پن سے کافی آشنا ہیں، ماضی کے ایک قلب دو جان آج کے دیرینہ سیاسی دشمن اور سیاسی دشمن، دوست بنے ہوئے ہیں۔

وفاق کی اتحادی جماعت معاشی شہ رگ کے سرمایہ کاروں اور عوام کو سندھ حکومت کو ٹیکس نہ دینے کا مطالبہ کررہی ہے۔ عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ مملکت کو 70 فیصد اور سندھ کو 90 فیصد ریونیو دینے والا شہر جنگ زدہ علاقہ کی صورتحال پیش کررہا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیانات، احتجاج و دھرنے دے رہی ہیں۔ سمجھ سے بالا ہے کہ ایک جانب حکومت بھی احتجاج کر رہی ہے تو حکومت دفاع بھی کر رہی ہے۔ تو کیا عوام یہ سمجھے کہ ”نامعلوم“ افراد کے ہاتھوں شہر قائد یرغمال ہے۔

نامعلوم افراد نے پہلے شہر کو بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور لسانی فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے اپنا سکہ جمایا ہوا تھا اب شاید یہی نامعلوم افراد سیوریج کی لائنوں میں ریت کی بوریاں ڈالتے ہیں تو کبھی شہر کو سرکاری پانی کی لائنوں سے ایک قطرہ نہیں ملتا لیکن جہاں جہاں واٹر ہائیڈرنیٹ ہیں وہاں گنگا جمنا بہہ رہی ہوتی ہے۔

ایک طرف شہر میں پینے کا پانی نہیں، یہاں تک کہ ایسا بھی ہوا کہ میت کو نہلانے کے لئے بھی پانی نہ ملنے پر اہل کراچی نے احتجاج کیا تھا۔ سوشل میڈیا میں خواتین و مظاہرین کی دہائیاں دل دہلادیتی تھیں۔ سابق میئرز و عوامی نمائندے اپنی پریس کانفرنسوں اور غیر رسمی بیانات میں ان خدشات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں کہ مستقبل میں اگر پانی کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا تو کراچی میں خانہ جنگی ہوسکتی ہیں۔ لوگ پانی کے مسئلے پر خون کی ندیاں بہا سکتے ہیں۔

کہا جاسکتا ہے کہ بارش کا پانی جو اس قدر برسا ہے کہ کراچی کی ضروریات پوری کرسکتا تھا لیکن کراچی میں قبضوں و تجاوزات کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں اس لئے پانی سمندر میں ضائع ہوجاتا ہے۔ حب ڈیم میں پانی بالضرور اتنا آجاتا ہے کہ کراچی کی ایک دو سال کی ضروریات کے لیے کافی ہوتا ہے لیکن کمال کی بات یہی ہے کہ حب ڈیم میں جمع پانی سرکاری لائنوں سے تو کسی آبادی کو ملتا نہیں تو پھر یہ پانی جاتا کہاں ہے۔

بات گھوم پھیر کر وہی آتی ہے۔ جب سب کو معلوم ہے کہ مسئلے کی مرکزی جڑ کیا ہے تو اس کو کاٹتے کیوں نہیں۔ اگر کاٹتے نہیں ہیں تو پھر ذمے دار تو سب یکساں ہوئے۔ پھر جب ذمے داری سب پر یکساں لاگو ہوتی ہے تو یہ سیاسی الزامات کی نورا کشتی کرکے کراچی کے زخموں پر نمک کیوں چھڑک رہے ہو۔ یہ نمک پاشی کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں نہیں ہے۔ اہل کراچی سے پوچھیں تو دل جلوں کی آہ و زاری لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے کشمیریوں کے بنیادی حقوق کو سلب کیا، مسلم نسل کشی اور ہندو پنڈتوں کو بسانے اور مسلم آبادیوں کو اقلیت میں بدلنے کے لئے منظم سازش کے تحت سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ راقم کراچی کو مقبوضہ کشمیر سے ملانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی جیسی نعمت سے سرفراز کیا ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے لیکن کبھی کبھی کراچی، مقبوضہ سا لگتا ہے۔ کراچی کے بلدیاتی اختیارات صوبے نے سلب کررکھے ہیں، بلدیاتی اہم اختیارات اکثریتی حکمراں جماعت نے من پسند تبدیلی کرکے کراچی کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔

میئر کراچی کو اربوں روپے دیے جانے کی بات کرتے کرتے شاید صوبائی حکومت کے ترجمانوں کی زبان تھک گئی ہو لیکن مجال ہے کہ اہل کراچی کو سمجھ میں آتا ہو کہ آخر یہ پیسہ لگتا کہاں ہے؟ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کراچی میں کنٹونمنٹ بورڈز بھی ہیں جو خود مختار ہیں اور اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کرانے کی ذمے دار بھی ہیں اور ا ن علاقوں کے رہائشیوں سے باقاعدہ فیس بھی وصول کرتے ہیں۔ کراچی کے 6 کنٹونمنٹ بورڈزجن میں فیصل کنٹونمنٹ بورڈ، کورنگی کریک کنٹونمنٹ بورڈ، ملیر کنٹونمنٹ بورڈ، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ، کراچی کنٹونمنٹ بورڈ، منوڑہ کنٹونمنٹ بورڈ ضلعی سطح پر منقسم 5 اضلاع، ضلع ملیر، ضلع کورنگی، ضلع شرقی، ضلع جنوبی اور ضلع غربی میں ہیں۔

جبکہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اس کے علاوہ خود مختار ایریا ہے۔ اصل مسئلہ تو اُن آبادیوں کا ہے جو کچی آبادیاں کہلائی جاتی ہیں۔ یہاں بھی اختیارات کو یوسی کونسل اور یوسی کمیٹی کی سطح پر منقسم کیا گیا ہے۔ کونسل کا چیئرمین الگ تو یوسی کمیٹی کا چیئرمین الگ ہے۔ اسی طرح ضلعی سطح پر بھی اختیارات منقسم ہیں۔ کے ایم سی کے پاس واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کبھی ہوتا ہے کبھی نہیں۔ بلدیات کا محکمہ کے ایم سی کے تابع ہے یا کے ایم سی محکمہ بلدیات کے تابع ہے، کچھ معلوم نہیں۔

قانون بنانے والوں نے کیا سوچ کر قانون بنایا ہے یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ پہلے بلدیاتی نظام میں 19 کونسلر اور دو ناظمین ایک حلقے میں تھے۔ اب دو چیئرمین اور 90 کونسلر ہیں۔ لیکن ان کے پاس اختیارات کیا ہیں؟ اتنا بڑا ’ریوڑ‘ کس لئے، یہ سمجھنے سے قاصر ہوں، کہیں چیئرمین لامحدود اختیارات استعمال کرتا نظر آتا ہے تو کہیں وائس چیئرمین حلقے کا کرتا دھرتا بنا پھرتا ہے۔ ترقیاتی کام یا مسائل حل کرانے ہوں تو صوبائی رکن اسمبلی یا قومی اسمبلی یہاں تک کہ سینیٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔

طرفہ تماشا کہ گلی میں کھلے مین ہول کے ڈھکن کے لئے بھی وزرا ء، ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹرز احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ طوطا مینا کی کہانیاں سن سن کر کان پک سے گئے ہیں، اور اتنے پک گئے ہیں کہ بدبو دار رساؤ نے تعفن پھیلا رکھا ہے۔ یقین کیجئے بڑی شرمندگی ہوتی ہے جب کچھ لکھتے وقت مسلم امہ یا عالمی سیاسی یا دفاعی امور کو اپنا موضوع بناتے ہیں کہ فلاں ملک میں ایسا ہوگیا، فلاں ملک کی یہ پالیسی ہے، کسی ملک میں انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزی ہورہی ہے۔

تو اظہاریہ لکھتے وقت سمجھ میں نہیں آتا کہ جہاں جنگ نہیں وہاں یہ حال ہے اگر خدانخواستہ جنگ ہوگئی تو عوام ایٹم بم سے تو نہیں وبائی امراض سے ضرور ختم ہوجائے گی۔ ان لمحات میں اعلیٰ عدالت میں کہے جانے والے ریمارکس دماغ میں گھوم جاتے ہیں کہ ”اخبار تو پکوڑوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔“ جس طرح ہمارے معاشرتی مسائل ہیں وہ کسی بھی جنگ زدہ علاقے سے مختلف نہیں ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گلیوں میں آوارہ کتے، بلی، چوہے دوڑتے ہوئے، اسپتالوں میں سہولتوں کا فقدان، قبرستانوں میں برساتی پانی سے قبروں کا انہدام، کچرے و گندگی کا بحران، بنیادی انسانی ضروریات کی شدید کمی، لاقانونیت سمیت کئی دیرینہ مسائل ہیں۔

تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص کراچی کے اسٹیک ہولڈرز سے اہل کراچی اپیل کرتے ہیں کہ کراچی کی رونقیں بحال کرسکتے ہیں تو کریں ورنہ صاف کہہ دیں، ہم جی تو رہے ہی ہیں، ویسے بھی جی لیں گے۔ سیاسی جماعتوں کی لفظی گولہ باریوں سے کراچی میں نسلی آبادیاں احساس کمتری و بد گمانی کا شکار ہو رہی ہیں جس سے شدید عدم استحکام و معاشرتی بگاڑ پیدا ہونے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).