چکو ہے میرے پاس


کون کہتا ہے پی ٹی آئی کی حکومت نے پہلے سال میں کچھ نہیں کیا۔ جناب یہ پڑھا لکھا نیا پاکستان ہے، یہاں پٹواریوں اور جیالوں کی آنکھوں پر میاں نواز شریف اور بھٹو شہید کی محبت کی پٹی نہیں بندھی ہوئی۔ اگر اپوزیشن کوعمران خان کے نئے پاکستان کی کامیابیاں اور کامرانیاں نظر نہیں آتیں تو وزارت اطلاعات و نشریات کا 84 صفحات پر مشتمل دستاویزی ثبوت پڑھ لیں۔ جس میں حکومت کی طرف سے ایک ہزار سے زائد حکومتی کامیابیاں اور فتوحات قلمبند کر رکھے ہیں۔ ارے ذرا رکئے! اس میں وزیر خزانہ کی کامیابیوں کا الگ کتابچہ آپ کے ہاتھ میں تھمایا جائے گاجس میں خارجہ پالیسی کی کامرانیاں بھی شامل کر لیں تو یہ تقریبا ساڑھے بارہ سو قومی پیمانے کی کامیابیاں بنتی ہیں۔

اپوزیشن کی ”متحدہ ریسرچ“ سے حاصل ہونے والی چند حکومتی ناکامیوں کو عوام کے ذہنوں میں ڈال کر عمران احمد خان نیازی کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے میڈیا پر وہی پرانی ٹیپ چلا دی جاتی ہے کہ پاکستان میں مہنگائی چھے سال بعد ڈبل فگرتک پہنچ چکی ہے۔ حج مہنگا ہو گیا، تعلیم مہنگی ہو گئی، آٹا، دالیں، گھی، چاول، چینی، سبزیاں مہنگی ہو گئیں، گیس، بجلی پانی مہنگا ہوگیا۔ خان صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کشکول توڑ دیں گے، آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بجائے خود کشی کرلوں گا۔

لیکن گزشتہ ایک برس میں ریکارڈ 13.6 ارب ڈالر کے قرضے دیکھ کر لگتا ہے وزیر اعظم نے کشکول توڑ کر قرضے کے لئے بوری پکڑ لی ہے۔ ڈالر کی قیمت 161 روپے تک پہنچی۔ اپوزیشن غربت کا کارڈ کھیلتے ہوئے کہتی ہے کہ غریبوں کو 50 لاکھ گھر نہ دو، 1 کروڑ نوکریاں نہ دومگر خدارا سرکاری ہسپتالوں میں مفت ملنے والی طبی سہولتیں تو ان سے نہ چھینو۔ غریب ایک وقت کی روٹی کے لئے پیسے کمائے یا ای سی جی اور الٹرا ساؤنڈ کے لئے 100، 150 روپے جمع کرے۔ ایک غریب پاکستانی کو کیا پتا کہ شرح نمو اور جی ڈی پی کس چڑیا کا نام ہے۔ سونا 89 ہزار روپے فی تولہ ہوجائے اس سے غریب کا کیا لینا دینا۔

الیکشن سے پہلے اور گورنمنٹ ملنے کے ایک سال تک حکومتی نمائندے غریب پاکستانی کو تسلسل سے بتاتے رہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں فرد واحد نواز شریف کو 102 قیمتی گاڑیوں، آٹھ بھینسوں اور 135 ایکڑ پر پھیلے وزیر اعظم ہاؤس کی کیا ضرورت تھی۔ عوام کو یہ بتایا گیا کہ نوازشریف تو مغل بادشاہ کی طرح وزیر اعظم ہاؤس میں رہ رہے تھے۔ سعودی عرب اور یو اے ای کے معزز مہمان جب پاکستان آئے تو حکومت کو پتا چلا کہ اتنا بڑا شاندار وزیر اعظم ہاؤس صرف نواز شریف کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کی شان بڑھانے کے لئے دوست ممالک سے آنے والوں کی مہمان نوازی کے لئے ہے۔

یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم سادگی اختیار کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس سے ملحقہ رہائش گاہ میں صرف دو ملازمین کے ساتھ رہ رہے ہیں مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ بنی گالا میں 300 کنال پر محیط رہائش گاہ میں 200 سیکورٹی اہلکاروں کی نگرانی میں رہ رہے ہیں۔ اب اپوزیشن کو ان کی ذاتی اور تحفے میں ملنے والی رہائش گاہ میں رہنے پر بھی اعتراض ہے۔

ٹھنڈی اپوزیشن اور کنٹرولڈ مجبور میڈیا غریب پاکستانی کونہ بتا سکے کہ کشمیر ایشو کے نام پر لندن جانے والے وزراء کیا گل کھلا رہے ہیں، مگر یہ ضرور بتا یا گیا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی جگہ یونیورسٹی بنے گی۔ جس کے افتتاح پر صرف تین کروڑ روپے ہی خرچ ہوئے تھے۔ لیکن نئے مالی سال میں اس پراجیکٹ کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا۔ ہو سکتا ہے، جس کامیابی کے ساتھ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے حکومت کا ایک پیسہ لگائے بغیر دنیا سے چندہ اکٹھا کر کے ڈیم بنایا ہے انہی شرائط پر انہیں مذکورہ یونیورسٹی بنانے کا ٹھیکہ بھی مل سکتا ہے۔

وزیر اعظم ہاؤس پھر بھی یونیورسٹی نہ بن سکا تو کیا ہوا، شادی ہال کا کام تو پہلے سے ہی لیا جا رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وزراء کی فوج میں سے کوئی اپنی حکومتی کامیابیاں گناتے ہوئے یہ ”سچ“ بھی بول دے کہ حکومت کے پہلے سال میں پاکستانی عوام اور پاکستانی پاسپورٹ کی بیرون دنیا میں کتنی عزت بڑھ چکی ہے۔ وزراء کے بیرون ملک دوروں پر امیگریشن کا عملہ ان کو دیکھتے ہی تعظیم میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے، پہلے پاسپورٹ کو چوم کر آنکھوں سے لگاتا ہے اور محبت بھری مسکراہٹ سے انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں نہایت عزت کے ساتھ پاسپورٹ واپس کرتا ہے۔ سیانے لوگوں نے عمران خان کا دورہ امریکا پر اور شاہ محمود قریشی کا اسی طرح کا شاہانہ استقبال چین میں ہوتا دیکھا ہے، یہ الگ بات ہے امریکا میں عمران خان کو یہ عزت شاہ محمود قریشی نے اور چین میں شاہ محمود قریشی کو اسی طرح کی عزت شاہی خاندان کے اعلی منصب پر فائز باورچیوں نے دی۔

اُمیدیں تب رنگ لاتی ہیں، جب کوئی ایک کرن پھوٹتی نظر آ رہی ہو۔ لیکن یہاں تو سیدھا سیدھا کہا جا رہا ہے گھبرانا نہیں، یہ بھی نہیں پتاکہ کب تک نہیں گھبرانا۔ گھبرانے یا نہ گھبرانے کا کیا پیمانہ ہے۔ جہاں امیدوں کے چراغ جلنے سے پہلے ہی بجھ جائیں وہاں سورج کی روشنی بھی ڈراؤنے اندھیرے پھیلاتی ہے۔ مانا کہ پہلے سال میں نااہلیت زوروں پر ہے مگر اس نا اہلی کے باوجود کس کمال سے حکومت نے ساری اپوزیشن کونیب کے بنائے ہوئے کرپشن کے جال میں پھنسایا ہوا ہے۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، کس نے کتنی کرپشن کی، کس پر کون سا مقدمہ چلنے والا ہے، کب گرفتاری ہو گی، جو مقدمہ چلنا ہے اس کا کیا فیصلہ آنے والا ہے اور کب آنے والا ہے۔ کس کو کتنی سزا ہو گی، اگلی باری کس کی ہے۔ غرض حکومت کے پہلے سال میں عمران خان اوروزراء نے اپوزیشن کے جن جن رہنماؤں کے بارے میں جو پیش گوئی کی وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ اداروں کی خود مختاری کی مثال اس سے بہتر نہیں دی جا سکتی۔

حکومت کے پہلے سال آپ نااہلی چھپانے کے لئے سیاسی مخالفین کو تو دیوار کے ساتھ لگا سکتے ہیں مگر بیرونی دشمن تو نااہلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہی کچھ کرے گا جو بھارت آج کل کر رہا ہے۔ ہمارا دشمن بھارت ہم پر ایٹم بم گرانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ حکمران طبقہ مودی جیسے شاطر اور ظالم کو چھوڑ کر اپوزیشن کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ دونوں ممالک ایٹمی قوت رکھتے ہیں اور ایسی حساس صورتحال میں سنجیدگی سے حکومت کو اے پی سی بلا کر تمام سیاسی قیادت سے مل بیٹھ کر مدبرانہ فیصلے کرنے چاہیے تاکہ ساری دنیا سمیت بھارت کو پاکستان کی سیاسی استحکام کا پیغام جائے۔ اگر آپ اپنے دشمن کو ایٹم بم کی دھمکی بھی نہیں دے سکتے تو خدارا جمشید انصاری کا مشہور زمانہ ڈائیلاگ ”چکو ہے میرے پاس“ بول کر ساری دنیا میں پاکستان کا مذاق نہ بناؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).