مسئلہء کشمیر اور اس کا حل


عبدالخالق

\"khaliq\" تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی دونوں کے صنم فانی

کشمیریوں پر ظلم و ستم کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جس انداز سے آج کشمیریوں پر ظلم و بر بریت کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں اس کی مثال تاریخ سے نہیں ملتی۔ ایک طرف تو اس کی ذمہ داری، بی، جے، پی اور اس کے سربراہ نریندر مودی پر ہے جو کہ ایک عالمی دہشتگردی کی لسٹ میں بھی رہ چکا ہے اور اس نے ہندو مسلم فسادات کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کیا۔ حصول اقتدارکے بعد کشمیر میں بھی اس کے کالے کرتوت کھل کر سامنے آگے ہیں۔ دوسری طرف عالمی برادری اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھے ہوئے ہے۔ جو کہ حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی اور سفارتی تعلقات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کی ذمہ دار صرف ن لیگ ہی نہیں ہے بلکہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کا دنیا بھر میں برا امیج دکھائی دے رہا ہے۔ آج تک ہم نے دنیا کا کوئی بھی ایسا ملک نہیں دیکھا جس کے تمام کے تمام لیڈر لالچی، مفاد پرست اور نا اہل ہوں کہ نہ تو وہ کرپشن پر اتحاد و اتفاق کرسکیں، نہ دہشتگردی پر، اور نہ جمہوریت کی درست سمت متعین کرنے میں۔ ان کی نا اہلی کا فائدہ ہمارے دشمن نے خوب اٹھایا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج بھارتی انتہا پسند امن کے سفیر کھلاڑیوں اور دیگر شبعہ جات کے امن پسند اور انسان دوست سوچ رکھنے والے لوگوں کو بھارت چھوڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جن کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔

بی، جے، پی اپنے کانوں کے پردے ہٹا کر یہ سن لے کہ یہ وہی مسلم قوم ہے جس مسلم قوم نے 1857 کی جنگ آزادی میں لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کیئے جس کے نتیجہ میں برطانوی انگریز سامراج اس خطے سے نکلنے پر مجبور ہوا تھا۔

اے احسان فراموش ہندوؤں سن لو کہ یہ علماء حق کا کردار ہی تھا جس کی بناء پر آج یہ خطہ آزادی سے زندگیاں گزار رہا ہے۔ ورنہ متحدہ برصغیر پاک و ہند کا بھی وہی حال ہوتا جو آج فلسطین، شام، و عراق کا اور افغانستان کا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ وہ مسلمان ہی تھے جن کہ بدولت ہمیں انگریز کی دخل اندازی سے آزادی ملی۔ اور جس کہ صلہ تم کشمیر پر ظلم و ستم سے دے رہے ہو۔ آج انڈیا میں جو تاریخی و قومی محلات ہیں یہ بھی مسلمانوں کی قومی خدمت کا نتیجہ ہیں۔ تاج محل اس کی خوبصورت مثال ہے جس میں ہنر مندی کا یہ عالم ہے کہ آج بھی زلزلے اس پر اثر نہیں کرتے۔ اور یہ کل کے اجڈ ہندو آج ہمیں دہشتگردی کا طعنہ دے رہے ہیں۔

ان ہندوستانیوں کو یہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ تم کہتے ہو کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔ یہ لکھنے والا مسلم ہیرو ہی تھا۔ برصغیر پاک و ہند کو آزادی یوں ہی نہیں ملی تھی بلکہ ہزاروں مسلم ہیروز نے ملک بدر اور قیدو بند کی صوبعتیں برداشت کیں اور لاکھوں نے جام شہادت نوش کیا

اور آج وہی انڈیا جس کی آزادی کے لئے مسلمانوں نے بیش بہا قربانیاں دی تھیں وہ احسان فراموش آج مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن کان کھول کر سن لو کہ کل بھی تمہاری آزادی کے لئے کردار ادا کیا تھا اور ہم نے ہی قربانیان دی تھیں اور آج بھی خطے کی بقا و سلامتی ہم سے جڑی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں نہ کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے جس سے دونوں اطراف کے عوام الناس خواہ وہ مسلم ہوں یا ہندو اُن کی فلاح اور بہتری کے لیے اقدامات کئے جائیں۔ آج ہندوستانی عوام کا مسئلہ بھی بھوک اور افلاس کا خاتمہ ہے اور پاکستانی عوام کہ مسئلہ بھی دو وقت کی روٹی کا ہے۔ تو پھر دونوں اطراف کے حکمران اقتدار کی ہوس میں کیوں اندھے ہوئے بیٹھے ہیں۔ کہ یہ کشمیر پر 70 سال سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے ہی عوام الناس کو سبز باغات دکھا رہے ہیں۔

عوام کا مسئلہ تو بھوک و افلاس، عدالتی انصاف اور معاشرتی امن کا ہے۔ تو پھر عالمی سامراج کی خوشنودی کے لئے کیوں کشمیریوں پر ظلم کرتے چلے آرہے ہیں اس کی آڑ میں عالمی سامراج تو اپنے مفادات حاصل کر رہا ہے۔ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ عالمی سامراج کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے اس کشمیر کو اپنے گھر کا مسئلہ سمجھتے ہوئے حل کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں۔ کیوں کہ کشمیر کے مسئلہ کو حل کیے بغیر علاقائی امن کا خواب اور بھوک و افلاس کے جن کو قابو کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اگر دونوں ملک واقعی علاقائی ترقی کے خواہ ہیں تو مسئلہ کشمیر کا حل انسانی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ مسئلہ کشمیر کے حل سے مسلم کشیدگی بھی آہستہ آہستہ ختم ہو کر اپنی موت آپ مر جائے گی۔ علاقائی امن کے خواب کو صرف اس طریقے سے ہی شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ یہ جس طرح دو قومی نظریے سے شروع ہنے والی لڑائی دو ملکوں اور آج یہ دو ایٹمی طاقیں ایک دوسرے کے سامنے آن کھڑی ہیں اس میں انسانیت کی تباہی اور تزلیل کے سوا کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا۔

 اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ جس سے بھارتی انتہا پسندی دنیا کے سامنے آئے گی اور جس سے پاکستانی سفارتی تعلقات مضبوط ہوں گے اور پاکستانی امیج بہتر ہوگا۔ تب ہی انڈیا مجبور ہوگا کہ کشمیر کے حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت کی جائے ورنہ یہ کمزور پاکستان کشمیر کی وکالت سے ناکام ہو کر رہ جائے گا۔ جنگ کی بجائے ٹیبل ٹاک کے لئے دشمن کو مجبور کرنا اور حق بات منوانے کے لئے سفارتی تعلقات کا استعمال ہی وقت کا بنیادی تقاضا ہے۔ اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔ یہ جنگی ساز و سامان تو دشمن پر رعب طاری کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اصل تو انسانی عقل ہے کہ وہ انسانیت کے لئے کس درجے پر کام کر رہی ہے۔ اب یہ پاکستانیوں کی عقل کا امتحان ہے ہم حق بات کس حد تک منوانے میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ اللہ ہمیں عقل و شعور عطا فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments