ماما عبداللہ جان جمالدینی۔۔۔ روشنی ، اے روشنی


\"mama-jamal-wahid\"ماما عبداللہ جان جمالدینی چلے گئے، اپنے پیچھے ان گنت یادیں اور ان یادوں کی خوشبوئیں فضاؤں میں بکھیر کر……نصف صدی سے زائد عرصے تک وہ ادب اور سیاست کو ایک درست سمت دینے میں جتے رہے….نہ تھکے، نہ رکے اور نہ ہی جھکے……

2004  کی خنک صبح جب میں کراچی سے کوئٹہ پہنچا تو ذہن پر صرف صبا دشتیاری کا مسکراتا چہرہ تھا…..کراچی کی گرم اور نم ہوا کے مقابلے میں کوئٹہ کسی جنت سے کم منظر پیش نہیں کررہا تھا گوکہ ہواؤں میں کشیدگی تھی مگر ابھی آباد کار بلوچ معاشرے کا ہی حصہ تھے…..

صبا دشتیاری نے والہانہ استقبال کے بعد اپنے \”استاد\” سے ملوانے کا مژدہ سنایا……استاد کا استاد کون ہوسکتا ہے؟، یہی سوچ سوچ کر سبز چاہے پیتا رہا…….

بدھا جیسی خاموشی، روشن آنکھیں، نحیف بدن؛ \”یہ ہیں میرے رھبر، میرے استاد ماما جمالدینی\”……صبا ایسے بچھے جا رہے تھے جیسے افلاطون ارسطو سے مل رہے ہوں……

\”مستیں توار\” کے خالق اور سرداروں کو للکارنے والے آزات جمالدینی سے تو میں واقف تھا مگر \”ماما\”؟……

کوئٹہ سے کراچی کچھ نہ لایا، بس بدھا جیسی شخصیت کی یادیں اور حصولِ نروان کی داستان، بلوچستان نامہ، ایک کتاب، بنامِ \”لٹ خانہ\”…..

پڑھتا رہا، پڑھتا رہا، سوچتا رہا؛ یہ نظریات، تفکرات، یہ راستے، منزلوں کی جستجو آسمان سے نہیں اترے، ہم تک تو بزرگوں نے کڑی دھوپ میں جل جل کر پہنچائے ہیں…..اک آزات جمال دینی تھے جنہوں نے جدوجہد کی راہیں متعین کرنے کے لئے خود کو فنا کر دیا اور ایک عبداللہ جان جمال دینی ہیں جنہوں نے چلنے، گر کر سنبھلنے، سنبھل سنبھل کر چلنے کا گُر سکھایا گو کہ سکھاتے سکھاتے پیر چھلنی ہوئے، شجر سایہ دار بننے کی جستجو میں خود جھلستے رہے…….

اب کے سردیوں میں جب صبا دشتیاری کراچی پہنچے تو میں مجسمِ سوال تھا…..ماما کو جاننا اور سمجھنا ہی مقصد تھا…… لینن اور بلوچ سرداروں کے حوالے سے ان کی کتابیں ملیں، پڑھتا گیا، پیاس نہ بجھی…..پھر استاد کے پاس پہنچا، مزید؟……باتیں، یادداشتیں، خیالات، صبا سناتے رہے، ہم سنتے رہے…….

نوشکی، لیاری کو راستہ دکھا رہا تھا…..

2008 کو نوشکی جانے کا اتفاق ہوا، نوشکی میں اتر کر رحیم بخش آزاد کو یاد کرتا رہا \”شدید علالت کی حالت میں بھی آزات جمالدینی مجھ سے ماہنامہ بلوچی کے متعلق دریافت کرتے رہے\”…..

یہ کیسے بھائی ہیں؟ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ بس سر جھکائے بانٹتے جارہے ہیں…..شہید حاجی رزاق بھی ساتھ تھے، انہوں نے کہا \”یہی بدلتے ہیں قوموں کی تقدیریں\”……

کوئٹہ بارہا جانا ہوا لیکن اب فضائیں انقلابی، دیواریں خوف زدہ اور معاشرہ نسل پرست بن چکا تھا……آزادانہ گھومنا، استادوں کے پیر چھونا قصہ پارینہ بن چکا…..

\”ڈاکٹر شاہ محمد مری بانو روڈ پر ملیں گے\”….برسوں سے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد نے میرے سوال پر کہا…..سوچا ڈاکٹر کے ساتھ بدھا سے ملنے جائیں گے۔۔۔ وائے قسمت، ڈاکٹر نہ ملے، سو ماما بھی نہ ملے…..

وہ سرکار اور سردار دونوں سے لڑتے رہے….. انہیں انسان سے پیار تھا۔ تاہم انسان کی تعریف ان کے ہاں مختلف تھی، انسان وہ ہے جو پرولتاریہ ہے، جو بھوکا ہے، جسے دانستہ زبان، نسل اور مذہب کے نام پر لڑایا جا رہا ہے…..

وہ سر تا پا بلوچ تھے، بلوچی زبان کے وفادار عاشق، غالباً اسی لیے انہیں ہر زبان سے محبت تھی، وہ براہوی زبان کے لئے بھی اتنے ہی بے چین رہتے تھے جتنا پشتو پر جان چھڑکتے تھے، پنجابی ان کے نزدیک شیرین زبان تھی تو سندھی دلنشین تھی… بنا تعصب کوئی کیسے رہ سکتا ہے؟ اوائل میں سمجھ نہ سکا لیکن جب سمجھا تو شاید دیر ہوچکی تھی….

بتایا جارہا ہے کہ ماما جمال دینی وہ 94 سال جیے، واقعی؟ عہد ساز انسان کو وقت کی قید میں رکھنا ممکن ہے؟ کیا وہ مر بھی سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں……

انہوں نے جو راستہ بنایا، وہ راہ نہ صرف آج بلکہ صدیوں تک مسافروں کی رہگزر رہے گی……آج پورا بلوچستان لٹ خانہ بن چکا ہے گوکہ نسل پرستی بڑھ چکی ہے لیکن \”لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے\”……لٹ خانہ، برقرار ہے، جدوجہد جاری ہے، آخری فتح \”ماما\” کی ہی ہوگی……


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments