خوب استی و ٹکور استی


ہم لوگ اپنے آپ کو جیمز بانڈ کا ابا جی سمجھنے لگ گئے تھے۔ پانچویں چھٹی جماعت سے ہی عمران سیریز اور جاسوسی کہانیاں پڑھنے کا یہ ہی نتیجہ نکلنا تھا۔ دورہ کابل والا چن جو ہم چڑھا بیٹھے تھے۔ اس میں بھی ان عظیم لکھاریوں کا بھی واضح خفیہ ہاتھ تھا۔

کابل سے واپسی پر مجھے مانیٹر بنا دیا گیا۔ یہ اہم عہدہ مجھے ملنا حیرت انگیز تھا۔ ویسے تو ہمارے پرنسپل سر میسی میری شرافت کے بہت قائل تھے۔ لیکن جب ہم فرار ہو کر کابل گئے تو ہمیں ڈھونڈنے کو سر میسی بہت خوار ہوتے رہے ۔ ہم لوگوں کا منصوبہ بے داغ تھا۔ ہمارے ہم جماعت نے سر میسی کی تفتیش و تشدد کے بعد مسکین شکل بنا کر جھوٹ بولا۔ سر میسی اس کی بتائی ہوئی غلط بتی کے پیچھے لگ گئے۔ پھر ہمیں ڈھونڈنے پاڑہ چنار تک جا پہنچے تھے۔

بلاوجہ اس سیاحتی دورے کا انتظام کرنے کی وجہ سے مجھ پر اپنی وٹ نکالا کرتے تھے۔ جب موقع ملتا ڈنڈے کے ساتھ مجھ پر ہاتھ سیدھا کرکے نیٹ پریکٹس فرمایا کرتے تھے۔ سکول چھوڑے پچیس سال ہو گئے ہیں۔ سر میسی آج بھی ملیں تو میرے کابل فرار ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اپنے پاڑہ چنار جانے کا ذکر کرتے ہیں۔ البتہ اب باہر روڈ پر ہاتھ چلا کے مار پیٹ سے گریز کرتے ہیں۔ اب انکی صحت اجازت نہیں دیتی ورنہ نیٹ پریکٹس کی نیت اب بھی مستقل رہتی ہے ان کی ۔ ہم لوگ سٹوڈنٹ ہی اتنے اچھے تھے کہ ان سے بھلائے نہیں بھولتے۔

سر میسی کی ایسی ہی محبت تھی۔ اسی کو دیکھ کر ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ سر ہمارے بارے میں اتنا اچھا سوچ سکتے ہیں ۔ انہوں نے اک دن مجھے کہا کہ تم اب مانیٹری کرو گے۔ آئندہ سے تم سکول کے اندر کاریڈور میں ڈیوٹی دو گے۔ یہ ایک لمبا سا ہال نما راستہ تھا جو لڑکوں اور لڑکیوں کے گراؤنڈ کو الگ کرتا تھا۔

بریک کے ٹائم لڑکیاں سکول کی بیک سائڈ والے گراؤنڈ کو اسی راستے سے جایا کرتیں تھیں۔ جبکہ لڑکے کلاس سے نکل کر یہی روٹ پکڑ کر سر میسی کے آفس کے سامنے والے گراؤنڈ کوجایا کرتے تھے۔ سر میسی کے کمرے کا دروازہ بند رہتھا تھا ۔ ہم سب پر انکی نظر برابر رہتی تھی۔ اس ڈرائیو وے کے اندر ڈیوٹی لگی تو دل بڑا خوش ہوا ۔

مانیٹر کو لڑکیوں کے گراؤنڈ میں جانے کی آزادی تھی ۔ ذمہ داری بس اتنی تھی کہ کسی کلاس میں کوئی نہ رہے سب کو نکال کر گراؤنڈ پارسل کرنا ہوتا تھا۔ لڑکیوں کے گراؤنڈ سے لڑکوں کو نکالنا بھی مانیٹر کا ہی فرض تھا ۔

خوب استی سے تفصیلی تعارف اور ملاقات یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ہوئی۔ پہلے دن جب ڈیوٹی لگی تو سر میسی نےخوب استی کو بلایا جو اک اہم افغان راہنما کی بھتیجی تھی۔ وہ بہت ٹھیک طرح سے پلی ہوئی تھی۔ ہم اسے خوب استی کہا کرتے تھے۔ ایسا کہنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ فارسی نما دری زبان بولتی تھی ۔ اس زبان میں خوب استی کا ذکر کہیں سن کر اس کا یہی نام رکھ لیا تھا۔ وہ دیکھنے میں بھی خوب تھی ۔ کابل سے مہاجر ہو کر آئے ہمارے سکول فیلو بہت تھے۔ انہوں نے اگر بارہ جماعت پاس بھی کر رکھی تھیں تو داخل انہیں ساتویں آٹھویں میں ہی کیا تھا سر میسی نے۔

خوب استی قد کاٹھ سے ہی جان والی دکھتی تھی۔ ویسے تو میرے جتنی ہی لمبی تھی لیکن مجھے اٹھا اٹھا کر پھینک سکتی تھی۔ تب میں بالکل ہی سنگل پسلی ہوتا تھا۔ نہ بھی ہوتا تو بھی وہ اس قابل تھی کہ اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیتی۔

ہم دونوں بریک ہونے پر اپنی چھاپہ مار مہم شروع کرتے ۔ سب لڑکوں اور لڑکیوں کو کلاسوں سے نکال کر گراؤنڈ بھیجتے۔ اس کے بعد کاریڈور کے دونوں دروازے بند کر کے درمیان میں آمنے سامنے بیٹھ جاتے ۔ بیٹھ کر بس اک دوجے کو گھورا کرتے ، گھورتی وہ تھی دیکھتا میں تھا ۔ اس کارروائی کے علاوہ ہم لوگ چپ چاپ بیٹھے رہتے ۔

مانیٹری نما افسری کے کچھ دنی ہی گزرے تھے کہ نیا حکم آ گیا ۔ سر میسی سے چھوٹے بچوں کا بھی لڑکیوں کے گراؤنڈ میں کھیلنا برداشت نہ ہوا۔ انہوں نے آرڈر جاری کیا کہ وہاں اب چھوٹے بچے بھی نہیں کھیلیں گے۔ ہمیں حکم ہوا کہ ہم دونوں لڑکیوں کے گراؤنڈ جا کر وہاں سے بچوں کو نکالا کریں۔ تب پتہ نہ لگا اب سمجھ آتی ہے کہ یہ افغان جنگ کے اثرات تھے۔ ذہنی تبدیلیوں کا آغاز تھا۔ پابندیوں کی شروعات تھیں۔

ہم دونوں کا آپسی گھورنا پروگرام تو جاری رہا۔ اس گھورنے میں سے رفتہ رفتہ وہ غصہ نکل گیا۔ جو وہ دکھایا کرتی تھی ہر وقت ماتھے پر ڈال کر ۔ اک دن اس بھوکی نے مجھ سے میرا ٹوسٹ بھی چھین کر کھا لیا ۔ کچھ دن بعد اس نے اپنا ناشتہ مجھے دیا میرا خیال تھا کہ کھانے کو دیا ہے۔ اس نے شائد سنبھالنے کو دیا تھا۔ بحرحال میں کھا گیا۔ اس نے آ کر خوب سنائیں۔ تھوڑا سا اردو میں ڈانٹ کر کے وہ دری/ فارسی میں اتر گئی ۔

وہ تو مری کلاس میں نہیں تھی جونئیر کلاس میں تھی۔ اسکے تین عدد کزن میری کلاس میں تھے۔ جو نہا دھو کر خوب استی کے فل ٹائم پیچھے پڑے ہوئے تھے ۔ ویسے تو ان تینوں معززین کو کہیں ایم اے کی کلاس میں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ہمارے ساتھ ہی ہاف ایم اے یعنی آٹھویں کر رہے تھے۔ جب کابل سے یہ تینوں آئے تو کالج میں پڑھتے تھے۔ سر میسی نے انہیں بھی ہمارے ساتھ ڈال دیا ۔ اپنی اردو سیدھی کرنے کے لئے انہوں نے مجھے اپنا بیسٹ فرینڈ بنا لیا تھا۔

مجھ کو اکثر اپنے ساتھ گھر لے جاتے۔ وہاں چار بندوں کا کھانا کھلاتے۔ زبردستی تو چھوڑیں تشدد پر آمادہ رہتے کہ یہ کھانا اب کھاؤ گے۔ اب میری مانیٹری بھی ان کے دل پر جا کے لگی تھی۔ تینوں ہی شیر خوب استی کے امیدوار تھے۔ اک دن انہی کے گھر میں نے اسی حسینہ یعنی خوب استی کو دیکھا۔

سر میسی نے کتنی نیکی کر رکھی ہے میرے ساتھ ۔ یہ خوب استی کو بغیر سکول یونیفارم کے دیکھ کر پتہ لگا ۔ لیکن تب تک ہم تھے ہی نیک ۔ اپنے ہم جماعت تینوں کزنوں سے میں نے چند جملے دری کے سیکھ لئے۔ وہ خوب استی کو سناتا رہتا ۔وہ بس گھور کر رہ جاتی جب میں اسے کہتا خوب استی۔ کبھی کہتا تو خوب استی کمال موٹی استی ۔ اک بار تو مجھے پھینٹنے کو اٹھی لیکن سر میسی کو آتے دیکھ کر بیٹھ گئی ۔

اک دن چھوٹی کلاس کے بچوں پر کوئی بھوت آیا ۔ وہ سارے کڑیوں کے گراؤنڈ میں جا گھسے۔ مجھے حسینہ خوب استی نے بتایا اور کہا جلدی آؤ۔ ان کو نکالیں۔ میں وہاں بچوں کو نکالنے گیا خوب استی ساتھ تھی ۔ بچوں کی بھاری تعداد تو ہم دونوں کو دیکھ کر ہی بھاگ گئی ۔ باقی بچوں نے ہماری دوڑ لگوانی شروع کر دی۔ میری مدد کرنے کے بہانے خوب استی کو دیکھنے افغانی ہم جماعت بھی آ گیا لڑکیوں کے گراؤنڈ میں ۔

بچے بھاگ گئے ۔ ایک فتح مند سالار کی طرح میں نے اپنے افغان ہم جماعت کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ باقی رہ گئے دس گیارہ بچوں کو بھاگنے کے لئے اشارے کرنے شروع کیے۔ ہر گز اندازہ نہیں ہوا کہ سر میسی لڑکیوں کے گراؤنڈ پہنچ چکے ہیں۔ ان کو دیکھ کر افغانی ہم جماعت کب کا فرار ہو چکا ہے۔ میں جو محبت بھرا ہاتھ کسی کے کندھے پر رکھ کر کھڑا ہوں وہ کوئی اور نہیں خوب استی ہے۔

مجھے نہ افغان دوسکے جانے کا کوئی اندازہ ہوا ۔ نہ یہ احساس ہوا کہ خوب استی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر موج میں کھڑا ہوں۔ اپن مست کھڑا تھا۔ سارا گراؤنڈ بت بنا بھائی کو دیکھ رہا تھا۔ سر میسی یہ مست نظارہ دیکھ کر تلوار یعنی ڈنڈا لہراتے ہماری طرف بھاگے آ رہے ہیں۔ میں اپنی دنیا میں مست کچھ سمجھے بغیر انہیں آتا دیکھ رہا ہوں ۔ ہوش تب آیا جب خوب استی نے نعرہ لگایا کہ بھاگو۔

اس نعرے سے آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ خوب استی کو جکڑے کھڑا تھا۔ بس پھر بھاگا لیکن کدھر اور کتنا بھاگنا تھا۔ اک مسکین کی دوڑ آخر کتنی ہوتی ہے سر میسی نے خوب پھڑکایا ۔ لیکن میں کیونکہ بھاگ رہا تھا اس لئے چالیس فیصد ہی کٹ پڑی ساٹھ فیصد بچ ہی گیا۔ سارا گراؤنڈ الگ ہنستا رہا۔ جو دو چار پر رہتے تھے وہ مزید لگ گئے شہرت بدنامی کے تاج میں ۔

سر میسی پوری طرح مطمئین نہ ہو سکے تھے میری لتریشن سے تو بریک کے بعد دوبارہ مجھے طلب کیا ۔ بلا رہے ہیں کا پیغام خوب استی لائی ۔ سر نے دیوار کی طرف منہ کروا کر ہینڈزاپ کرائے۔ میری تشریف کے دو تین سوٹیاں مار کر ہی پرخچے اڑا دئے ۔ فارغ ہو کر بے آبرو سا جا رہا تھا۔ راستے میں خوب استی ملی اور بولی کہ آج تو خوب ٹکور استی ۔

سڑ ہی گیا تھا یہ سن کر اس کے حسن پر بھی فل لعنت بھیجی۔ لیکن ایسے کیسے۔ وہ ظالم اب روزانہ کی بنیاد پر مجھے ٹکور یاد کرا کرا کے چھیڑا کرے ۔ میں نے اس کو گھور کر بھی دیکھا۔ کوئی فائدہ نہ ہوا تو سر جھکا کر بیٹھنا شروع کر دیا۔ اس ظالم کو جب موقعہ ملتا وہ میرا منہ اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر پوچھنا شروع ہو جاتی۔ کیا پوچھنا تھا یہی پوچھا کرتی کہ درد اب تک ہوتا ہے کیا ۔ میں کوشش تو کرتا اسے تنگ کرنے کی لیکن اسی کا پلا بھاری رہتا ۔

کچھ عرصہ بعد اسے ہمارے سکول سے اٹھا لیا گیا۔ افغان دوستوں کے گھر جاتا تو کبھی کبھار وہ بھی دکھائی دے جاتی۔ اپنی کمر پر ہاتھ لگا کر دور سے ہی اشاروں میں پوچھتی کہ آرام آیا ہے ؟ آنکھوں کے اشارے سے حال بھی پوچھتی مجھے یہی لگتا کہ ٹکور کا ہی پوچھ رہی ۔

وقت بدل گیا ہم لوگ کالجوں میں چلے گئے ،دوست بدل گئے اور پرانے دوستوں سے ملنا کم ہو گیا۔ کئی سال بعد اک دن انہی دوستوں کے گھر جانا پڑا اک تقریب میں تو اس نے کہا کہ تمھاری مانیٹر ساتھی بھی آئی ہوئی ہے۔ اس کی شادی ہو چکی تھی ۔ وہ ہم سے کافی دور پھر رہی تھی۔ اب وہ ایک باوقار خاتون میں ڈھل چکی تھی۔

جب میں دوستوں کی امی کے پاس گیا تو خوب استی دور بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھا تو وہیں کھڑی ہوگئ۔ سر ہلا کر سلام کیا اب مجھے دیکھ رہی تھی ۔ میں نے کمر پر ہاتھ رکھ کر بتایا کہ آرام نہیں آیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ پھر آنکھ دبا کر اشارہ کیا کہ آ ہی جائے گا۔

جب میں واپسی کے لئے نکل رہا تھا تو اسے پھر دیکھا۔ وہ اپنا کاکا کھینچتے ہوئے میری طرف بھاگی آ رہی تھی ۔ میں اس کی طرف چل پڑا قریب پہنچا تو اس نے ہاتھ ملایا۔ کہنے لگی تم ہمیشہ خوش رہو میں نے کہا تم بھی ۔ یہ آخری ملاقات تھی۔

Sep 26, 2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments