پتا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے


\"shakir-hussain-shakir\"یہ 15 ستمبر 2016ءکی صبح ساڑھے پانچ بجے کی بات ہے، بڑے بھائی مظاہر کا فون آتا ہے، مَیں نیند میں ٹیلیفون کی طرف بڑھتا ہوں پریشانی کے عالم میں ہیلو کرتا ہوں، بھائی مظاہر کہتے ہیں فوراً کارڈیالوجی ہسپتال آ جاؤ، حسین سحر صاحب کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا ہے۔ یہ سنتے ہی میرے منہ سے چیخ نکلتی ہے اور پوچھتا ہوں وہ کیسے؟ بھائی مظاہر کہتے ہیں سوال جواب کا وقت نہیں فوراً ہسپتال آ جاؤ۔ اگلے لمحے مَیں اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ہمراہ ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا۔ میرے گھر اور ہسپتال کا فاصلہ قریباً 8 کلومیٹر ہے۔ یہ فاصلہ طے ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔ پانچ بج کر پینتالیس منٹ پر جب مَیں ہسپتال پہنچا تو دن طلوع ہو رہا تھا۔ مَیں ہسپتال کے برآمدے سے ہوتا ہوا تیزی سے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا تو سامنے بڑے بھائی طاہر حسین اور حسین سحر کے بیٹے شہزاد حسین رو رہے تھے۔ مَیں نے اشاروں سے پوچھا کیا ہوا؟ انہوں نے کوئی جواب دیئے بنا اشارہ کیا مانیٹر کی سکرین کو دیکھ لو۔ کچھ لمحوں کے لیے مَیں نے اس سکرین کو دیکھا تو اس پر دل کی دھڑکن 17 دکھائی دی۔ ای سی جی کی لائنیں سیدھی ہو چکی تھیں۔ ایمرجنسی وارڈ کے اندر صبح کی اذان سنائی دے رہی تھی۔ مَیں روتا ہوا وارڈ سے باہر آیا، میرے شہر میں ”سحر“ ہو رہی تھی لیکن حسین سحر کی زندگی کی ”شام“ ہو چکی تھی۔ مَیں دن کی روشنی میں بہت کچھ دیکھنا چاہتا تھا لیکن میری آنکھوں میں اتنے آنسو تھے کہ مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ حسین سحر نے کہا تھا

میرے لیے تو سانس بھی لینا محال ہے

یہ کون زندگی کی دُعا دے گیا مجھے

مَیں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی\"hussain\"

پتا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے

15 ستمبر کی صبح ہم ایک مرتبہ پھر اُسی منظر کو دیکھ رہے تھے جو ایک سال پہلے انہی کے گھر دیکھا تھا۔ 14 ستمبر 2015ءکو حسین سحر کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو تدفین 15 ستمبر کی دوپہر کو کی گئی۔ ٹھیک ایک سال بعد حسین سحر کا جسدِ خاکی بالکل اسی جگہ پر موجود تھا جہاں پر ایک سال پہلے ان کی اہلیہ کا جسدِ خاکی رکھا تھا۔ ایک سال بعد وہی صحن، وہی بین، وہی دھاڑیں مارتے بچے، وہی پھولوں کی چادر، وہی در و دیوار کچھ بھی تو تبدیل نہ ہوا۔ صرف فرد تبدیل ہوا۔ پہلے حسین سحر کی اہلیہ اور اب حسین سحر خود۔ زندگی کا مشکل ترین لمحہ تھا جب مَیں اُن کے دوستوں سے تعزیت لے رہا تھا۔ مَیں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو گا۔ البتہ یہ ضرور سوچا تھا کہ ان کی اس سال آنے والی سالگرہ کو 10 اکتوبر کی بجائے 2 اکتوبر کو منا لیں گے لیکن سب کچھ ایک ہی ہلے میں موت اُڑا کر لے گئی۔

حسین سحر 74 سال کی عمر میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ گزرے ہوئے 74 سال انہوں نے ضائع نہیں کیے۔ ایک ایک لمحے کو انہوں نے کتاب، قلم اور پڑھنے کے علاوہ اپنے اہلِ خانہ سے محبت کرنے میں محفوظ کیا۔ میرے ان سے کئی رشتے تھے جن کو گِنوانے بیٹھوں تو یوں لگے گا جیسے مَیں اُن کا نہیں اپنا مرثیہ لکھ رہا ہوں۔ مجھے یاد ہے 1981ءمیں گورنمنٹ سول لائنز کالج میں جب بین الکلیاتی مقابلوں میں نظم کا پہلا انعام مجھے ملا تو ہال میں سے لڑکوں نے آواز لگائی ”اپنے چچا سے لکھوائی“۔ رضی کو غزل کے مقابلوں میں پہلا انعام ملا تو اس کے بارے میں بھی اسی قسم کی باتیں کی گئیں۔ جس پر رضی نے مجھ سے کہا کہ جب گھر میں کوئی بڑا لکھنے والا موجود ہو تو پھر نئے آنے والے کے لیے راستہ بنانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ تم ایسا کرو شاعری بھی کرو لیکن نثر کی طرف زیادہ توجہ دو تاکہ تم پر جو لکھوانے \"hs1\"کا الزام ہے وہ نہ آئے۔ دوسری طرف ان کا بھتیجا ہونے کے ناتے ملتان کے ادبی منظر نامے میں مجھے متعارف ہوتے دیر نہ لگی کیونکہ حسین سحر میرا ایک ایسا حوالہ تھا کہ جس پر ہر لکھنے والا مجھے ان کے بھتیجے کی حیثیت سے جاننے لگا۔ وقت گزرتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے چیزیں تبدیل ہوتی گئیں۔ مَیں عملی زندگی میں جب آنے لگا تو سب سے پہلے حسین سحر سے مشورہ کیا تو انہوں نے مجھے کتابوں کے کاروبار کی طرف آنے کا کہا۔ ادارے کا نام رکھنے کا مرحلہ آیا تو انہوں نے ڈاکٹر عاصی کرنالی سے کہا کہ شاکر کے لیے کتابوں کی دکان کا نام سوچیں۔ انہوں نے فوراً ”کتاب نگر“ تجویز کیا۔ ہم دونوں کو یہ نام پسند آیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر سعودی عرب اپنے بیٹوں کے پاس چلے گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے اپنی زندگی کا معرکتہ الآراءکام ”فرقانِ عظیم“ کیا۔ قرآن پاک کا یہ منظوم ترجمہ انہوں نے 2006ءمیں مکمل کیا۔ جس پر ان کو بڑا فخر تھا۔ حسین سحر کی تخلیقی زندگی کا آغاز 1960ءسے پہلے ہوا۔ انہوں نے بچوں کی کہانیاں اور نظمیں لکھ کر اس سفر کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی کتاب اشتیاق اظہر کے فن اور شخصیت پر مضامین پر مشتمل تھی جو 1974ءمیں شائع ہوئی جبکہ آخری کتاب ان کی وفات سے ایک ہفتہ پہلے شائع ہوئی ”جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا“ کے نام سے یہ کتاب انہوں نے اپنی اہلیہ کی یاد میں لکھی۔ 176 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ لگتا ہے کہ وہ اب جینا نہیں چاہتے تھے۔ اس کتاب میں سے ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:

سحر مجھ کو اب اپنے آپ کی بھی نہیں پرواہ

کہ اپنی ذات کا خود آپ دشمن ہو گیا ہوں مَیں

انہوں نے اپنی زندگی کو بھرپور انداز سے گزارا۔ ملتان کے ادبی منظر نامے میں اتنا ورسٹائل لکھنے والا شاید ہی اب آئے۔ بچوں کے لیے ان کی کتابوں کی تعداد 15 سے زیادہ ہے۔ بیشمار کتابوں کو قومی اعزازات سے نوازا گیا۔ انہوں نے اُردو، پنجابی، سرائیکی اور انگریزی میں ادب تخلیق کیا۔ پنجابی میں ان کی چھ کتابیں منظرِ عام پر آئیں \"hs2\"جس میں تین شاعری جبکہ باقی کتابیں نثر پر مشتمل تھیں۔ حمد، نعت، سلام، غزل، ملی شاعری پر ان کی الگ الگ کتابیں شائع ہوئیں۔ غزلوں کا پہلا مجموعہ ”تخاطب“ 1990ءمیں شائع ہوا۔ جبکہ ان کے نعتیہ شعری مجموعے ”تقدیس“ کو 1989ءاور ”پیارے رسول“ (بچوں کے لیے سیرت نبوی) کو 1988ءمیں صدارتی سیرت ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اُردو شاعری کے علاوہ انہوں نے ملتان میں بچوں کے ادب پر سب سے زیادہ کام کیا۔ اور یہ اعزاز بھی انہی کے پاس ہے کہ ملتان کے ادیبوں شاعروں کے لیے پہلا پبلشنگ ہاؤس ”مکتبہ اہلِ قلم“ کے نام سے بنایا۔ جہاں سے اس خطے کے کئی ادیبوں شاعروں کی کتابوں کو انہوں نے شائع کیا۔ مجلس اہلِ قلم کے زیرِ اہتمام انہوں نے بیشمار خوبصورت تقاریب کا انعقاد کیا۔ وہ رائٹرز گلڈ ملتان کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اس کے علاوہ ملتان کے علمی، ادبی اور ثقافتی حلقوں میں بھرپور انداز میں آخر دم تک حصہ لیتے رہے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں ہے۔ جو آج دنیا کے ہر کونے میں بیٹھے اُن کو یاد کر رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان ملتان کے آغاز کے ساتھ ہی وہ اس سے منسلک ہوئے اور آخر دم تک ریڈیو کے لیے ڈرامے، فیچر، تقاریر، نظمیں اور غزلیں تحریر کرتے رہے۔ ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ سراپا ملتانی تھے۔

ملتان کے لوگوں اور ملتان کی مٹی کے ساتھ ان کی محبت غیر مشروط تھی۔ ملتان کی تاریخ کے وہ حافظ تھے۔ کسی بھی دور یا کسی بھی شخصیت کے بارے میں وہ بڑی آسانی سے معلومات دے دیتے۔ انہوں نے اپنی زندگی کی آخری تقریب (جو پنجابی اکیڈمی کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی) میں تقریباً پون گھنٹہ پنجابی اور سرائیکی زبان کی تاریخ پر خوبصورت انداز میں گفتگو کی اور بتایا کہ ملتانی زبان کو سرائیکی زبان کب کہا گیا۔ وہ ملتان کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ شفقت ان کی شخصیت کا خاصہ اور پیار ان کی عادت۔ اقبال ارشد کے ساتھ ان کی دوستی مثالی رہی۔ کبھی یہ دونوں چلڈرن اکیڈمی کے ذریعے تقریبات کرتے تو کبھی چناب اکیڈمی کے پلیٹ فارم پر لوگوں کو متعارف کرواتے۔ بقول اقبال ارشد ”سحر رنگوں اور خوشبوؤں کا شاعر ہے، طمانیت اور سکون کا نغمہ گر ہے۔ اس کی شاعری میں خلوص آمیز حدت ہے، مہذب نوجوان کی نرم نرم اور سہمی سہمی محبت ہے۔ یہ سٹیج پر آ کر شعر پڑھتا ہے صداکاری نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ ملتان کے مکین اور سنجیدہ سامعین اسے پسند کرتے ہیں۔“

دبستانِ ملتان کو حقیقی معنوں میں دبستان بنانے والے حسین سحر ہی ہیں جنہوں نے اپنی ساٹھ سالہ تخلیقی زندگی کو ادب کے لیے وقف کیے رکھا۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں\"hs3\" نے 14 ستمبر 2016ءکو بھی کچھ نہ کچھ ضرور لکھا ہو گا۔ ابھی تو ہم سب ان کی موت کے صدمے میں ہیں۔ ان کی چیزیں دیکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے۔ 23 ستمبر 2015ءکو ایکسپریس کے انہی صفحات پر ان کی اہلیہ پر کالم ’میرا پچپن چلا گیا‘ شائع ہوا تو انہوں نے میرے اس کالم کی تعریف کی بلکہ کہا کاش تمہیں یہ کالم نہ لکھنا پڑتا۔ آج مَیںٹھیک ایک سال بعد ان پر کالم لکھ رہا ہوں۔ مَیں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ مَیں تو ہمیشہ ان کو تقریبات میں آخر میں بلحاظ عہدہ بلایا کرتا تھا لیکن وہ اپنے شہر کے سینکڑوں دوستوں کو چھوڑ کر راہِ عدم کے مسافر ہو گئے۔ ملتان کے GPO گراؤنڈ میں عیدالاضحی کے تیسرے دن ہزاروں لوگ ان کا آخری دیدار کرنے جمع تھے۔ شہر کے لوگ اپنے نامور قلمکار، ماہرِ تعلیم اور ہر اعتبار سے بھرپور شخصیت کو خداحافظ کہنے کے لیے آئے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ GPO گراؤنڈ کے ہر کونے سے کس کس کے رونے کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ پھر کسی نے مجھے سب سے اگلی لائن میں کھڑا کیا، مولوی صاحب نے نمازِ جنازہ کی نیت بتائی اور پھر یہ سب کچھ لمحوں میں طے ہو تا گیا۔ آخری دیدار ہوا، لینے دینے کا اعلان ہوا، سوئم کی اطلاع کی گئی۔ تدفین اور فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے۔ یہ سب کچھ دن کی روشنی میں مکمل ہو گیا۔ حسین سحر کی زندگی کی شام دن میں ہی ہو گئی۔ سارا دن اس کوشش میں لگا رہا کسی طریقے سے اپنے فون پر آئے ہوئے وہ تمام میسجز پڑھ لوں جو پورے پاکستان سے ان کے دوست مجھے کر رہے تھے۔ مَیں وہ میسجز کس طرح پڑھ سکتا تھا کہ میری آنکھوں میں سحر کے وقت سے جو شام ہوئی تھی وہ اب اندھیرے میں تبدیل ہو رہی تھی۔ قبرستان سے رخصت ہوتے ہوئے جب آخری مرتبہ فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے تو دور کہیں سے ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ اس جھونکے کے ساتھ کسی درخت سے اترا ہوا پیلا پتا اڑ کر سرخ گلابوں کی اس چادر پر آ کر ٹھہر گیا جو ہم نے ان کی قبر پر ڈالی تھی۔ مَیں نے اس پتے کو دیکھا اور کہا:

مَیں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی

پتا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments