دریچے: سفر سے جڑے سفر


خانیوال سے حویلیاں، شاہ مقصود انٹر چینج تک تقریباً چھ سو کلومیٹر، آدھا گھنٹہ بھیرہ رکنے کے باوجود، چھ گھنٹے میں طے کر لیا۔ شاہ مقصود انٹر چینج سے جیسے ہی باہر نکلے، دوطرفہ ٹریفک اور ٹوٹی سڑک نے ہماری سپیڈ کو بریک لگادیے۔ اس دن غیر معمولی طور ٹریفک زیادہ تھی یا وہ روز مرّہ کا معمول ہی تھا۔ حویلیاں سے مانسہرہ، چالیس کلو میٹر تقریباً ڈھائی گھنٹے میں طے ہوا۔ ایبٹ آباد سے نکلتے ہوئے ”میاں جی ریسٹورنٹ“ پر رکے، لنچ کیا، ظہر کی نماذ ادا کی اور آگے چل پڑے۔ میاں جی دیسی کھانوں کا اچھا اور سستا ہوٹل ہے۔ کھانا اور مکس چائے مل جاتی ہے۔

اس بار خلاف معمول ہم نے ناران جاتے ہوئے ایبٹ آباد قیام نہیں کیا۔ قبل ازیں ایبٹ آباد کا قیام لازم تھا۔ نہ جانے کیوں یہاں سے گزرتے ہوئے بھی زبیر صاحب مرحوم یاد آتے۔ دو برس قبل ایبٹ آباد، نتھیا گلی کی سیاحت میں وہ ہمارے ساتھ تھے۔ وہ سفر فورٹ ہوٹل خانیوال سے شروع ہوا تھا۔ سہ روز تفریحی دورہ تھا۔ ہم آٹھ لوگ شریک سفر تھے، جن میں باو، زبیر نمایاں تھے۔ باؤ زبیر خانیوال کے مشہور تاجر تھے۔ وہ سٹیزن فورم کے سرگرم رکن اور وائس پریزیڈنٹ تھے۔

تمام عمر شہر کی سماجی ادبی اور تفریحی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ اس گروپ کا بھی حصہ تھے جو گزشتہ بیس سال سے ہفتہ وار اکٹھے ڈنر کیا کرتا ہے۔ ڈنر کے بعد تاش کی بازی لگتی۔ سیاست پر زور و شور سے بحث ہوتی اور بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوتی۔ سیاسی بحث کا اختتام باؤ زبیر کے اس فقرے سے ہوتا ”چھوڑو یار سیاست کو، کرکٹ کی بات کرو“۔ کرکٹ باؤ جی کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ کالج کے زمانے میں خوب کرکٹ کھیلی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب شہر میں سارے گراونڈ آباد ہوا کرتے تھے اور شام کو کوئی گراونڈ حاصل کرنا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔

تمام کرکٹر اور کرکٹ لورز باؤ جی کے پسندیدہ تھے۔ وہ ہر میچ کو اتنی خوبصورتی سے تنقید کا نشانہ بناتے کہ ان سے اختلاف کرنا ناممکن ہو جاتا۔ 2002 کے الیکشن میں خانیوال کی صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو جو تین ووٹ ملے تھے ان میں امیدوار اور اس کی بیوی کے علاوہ تیسرا ووٹ باؤ زبیر نے ڈالا تھا۔

باؤ جی شاید پہلی اور آخری بار ہمارے ساتھ گلیات کے سفر کو نکلے تھے۔ ہمارا پہلا پڑاؤ ایبٹ آباد کی پہاڑی چوٹی ٹھنڈیانی تھا۔ آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ٹھنڈیانی کا راستہ لش گرین جنگل سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہماری وین جو آٹھ افراد کا وزن اٹھا ئے بلند چوٹی کی طرف گامزن تھی، کئی بار تھکاوٹ کا شکار ہوئی۔ باؤ نسیم کی رائے تھی وزن زیادہ ہے۔ وزن کے اعتبار سے ریاض پٹواری ہم میں سینیر تھا۔ اسے وین سے اتارنے کی باتیں ہوتی رہیں، مگر وین رکی نہیں، اور سفر چوٹی کے قریب جا کر تمام ہوا۔

آگے وین جا نہیں سکتی تھی اس لئے اپنا اپنا سامان اٹھا کر چوٹی کی طرف چلنا شروع کیا۔ شام کا وقت تھا اور موسم ابر آلود۔ ٹھنڈی ہوا کے باوجود چڑھائی نے پسینے سے شرابور کر دیا۔ ہمارا میز بان بھی اپنی خیبر سوزوکی میں سوار پہنچ چکا تھا۔ ہمارے لئے عین چوٹی کے اوپر ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس ریزرو تھا۔ ریسٹ ہاؤس کا راستہ تقریباًساٹھ ستر سیڑھیوں پر مشتمل ہے، جن کے اطراف میں گھنا جنگل واقع ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت راستہ ہے۔

سیڑھیوں کے اختتام پر لش گرین گراونڈ ہے، ڈھلوان سطح پر سبز گھاس اس چوٹی کو مزید خوبصورت بنا رہی تھی۔ سب کے سانس پھولے ہوئے اور ماتھے پر پسینے کے قطرے، جو بہ بہ کر چہرے اور گردن کو گیلا کر رہے تھے۔ ریاض پٹواری اپنے سامان کے ساتھ ہی کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ اس کو دیکھنے نیچے جانے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ تھوڑی دیر میں ریاض عقبی راستے سے گھوڑے پر سامان لدوائے اوپر آتا نظر آیا۔ گھوڑے نے بھی شاید پہلی بار اتنا وزن اٹھایا تھا۔ جیسے ہی ریاض گھوڑے سے اترا، گھوڑا شکر ادا کرتے ہوئے ہنہنایا۔

ریسٹ ہاؤس بہت خوبصورت تھا مگر سرکاری۔ میں نے آج تک کوئی سرکاری عمارت ایسی نہیں دیکھی، جو پوری طرح مین ٹین رکھی گئی ہو۔ اس ریسٹ ہاؤس کا بھی یہی حال تھا۔ کیر ٹیکر اچھا آدمی تھا۔ جیسے تیسے اس نے بستر پورے کر دیے۔ پانی کی دو بالٹیاں بھر کر لادیں۔ صبح ناشتے کا یقین دلایا، مگر صرف ایک واش روم، جس کا کموڈ خراب تھا، اور فلش ٹینکی چلتی ہی نہ تھی، آٹھ انسانوں بشمول ایک پٹواری، کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھا۔ عشا ہو چکی تھی، واپسی مشکل لگ رہی تھی، مگر اس کے سوا چارہ بھی نہ تھا۔ نیچے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر ہوٹل تھے لیکن میز بان کی تجویز پر جس نے فون کرکے ایبٹ آباد میں ہمارے لئے ہوٹل بک کروا دیا تھا، ہم ایبٹ آباد آگئے۔

نتھیاگلی روڈ پر واقع اس ہوٹل میں ہم ایک بار پہلے بھی شب بسری کر چکے تھے۔ ایبٹآباد کی مشہور تفریح گاہ، ہرنو آبشار کے دامن میں یہ ایک صاف ستھرا ہوٹل ہے۔ عملہ تمیز دار اور میزبان ہے۔ پہلی بار ہم فیملی کے ساتھ یہاں ٹھہرے تھے۔ یہ ہوٹل ہرنو آبشار کی قربت کی وجہ سے چھوٹو کو بہت پسند آیا تھا۔ وہ صبح سویرے آبشار میں نہانے چلی گئیی تھی اور خوب نہائی تھی۔ ہم ناشتے کی میز پر بیٹھے چھوٹو کا انتظار کر رہے تھے۔ ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ چھوٹو کمرے میں بھی نہیں تھی۔ عاشی نے شاید اسے بیک یارڈ جاتے دیکھ لیا تھا۔ وہ آبشار کنارے کرائے کی بڑی چھتری تلے، صبح صبح پاپ کارن کھانے میں مشغول تھی۔

وہ ستاروں بھری رات بہت خوبصورت تھی۔ پہاڑوں کے بیچ آبشار کنارے، ہم باربی کیو کر رہے تھے۔ اس کا انتظام ہمارے میزبان نے کیا تھا۔ ہوٹل کے بیک یارڈ میں کھلے لان میں الاؤ روشن کیا گیا تھا۔ میزبان دراصل ہمارے گروپ میں شامل اسد بھائی کا دوست تھا۔ بنیادی طور پر وہ ٹور آپریٹر تھا۔ اسد بھائی ایک پیسٹیسائیڈ فرم کے منیجر ہیں اور کمپنی کے ٹورز اپریٹ کرتے رہتے ہیں۔ سارا بزنس اسی میزبان کو ملتا ہے۔ آج اسے اسد بھائی کی ذاتی خدمت کا موقع مل گیا تھا، لیکن اسے علم نہیں تھا کہ اسد بھائی کے ساتھ شیخ صاحب اور ریاض پٹواری جیسے خوش خوراک لوگ بھی موجود ہیں، بہر حال اس کے جذبہ خدمت میں کمی نہیں آئی۔ پہلے تو میزبان خود تکّے کباب بنا کر دیتا رہا، پھر شیخ صاحب کی بیتابی دیکھ کر دعوت اوپن کردی۔ سب نے اپنی مرضی اور ٹیسٹ کے مطابق اپنے اپنے کباب بنائے۔ رات دیر تک یہ شغل چلتا رہا۔ شمالی علاقوں کے بارے میزبان نے ہمیں بہت سی مفید معلومات دی تھیں۔

نتھیا گلی میں ہم نے مشکپوری کا ٹریک کیا تھا۔ باوجی سب سے آگے تھے۔ ہم تو درمیان میں ایک جگہ سستانے بیٹھ گئے تھے مگر باؤ جی نہیں رکے۔ کون کہ سکتا تھا، باؤ جی کا دل کمزور ہے۔ کیا دل کی بیماری میں مبتلا کوئی شخص اتنا لمبا پہاڑی ٹریک بغیر سانس پھولے کر سکتا ہے۔ ٹور سے واپسی کے کچھ ہی دنوں بعد ایک دن ان کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ اور دو گھنٹے کی جان لیوا کشمکش کے بعد وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).