گھنے پیڑ، ہیر کی لے اور وارث شاہ


پنجاب کی سانجھ اس کے پانچ دریا اور چھ بابے ہیں۔ بابا فرید‘ شاہ حسین‘ بلھے شاہ‘ سلطان باہو ‘ میاں محمد بخش اور وارث شاہ۔ وارث شاہ نے اپنی زندگی میں قصہ ہیر رانجھا کے علاوہ کچھ اور لکھا ہے تو میرے علم میں نہیں۔ انہوں نے ہیر لکھ کر پنجاب کی زبان ‘ اقدار اور ثقافت کے کئی ابدی رخ اجاگر کر دیے۔ یہ قصہ سیدھا چلنے والے اور سکھ کے ساتھ زندگی گزارنے کی آرزو کرنے والوں کے لئے نہیں۔ ہیر سیدھا سادہ کردار ہے نہ رانجھا۔ وارث شاہ نے ایسے دو کردار تخلیق کئے جو سماج کو یرغمال بنانے والی قوتوں سے مرعوب نہیں ہوتے۔

یہ کردار پنجاب کے سماج میں فکری اور سماجی پسماندگی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہیر شخصی آزادی کی علامت ہے۔ ہر انسان شخصی آزادی کی تعریف اور اس کی حدود کا تعین اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا ہیر کے کردار کے بارے میں الگ الگ خیالات رکھتی ہے۔ شخصی آزادی اگر کسی لادین یا وحشی معاشرے میں زیر بحث آئے تو عورتیں مرد لباس اتارنے کی ضد کرتے ہیں۔ وہ لباس کو غلامی کی یادگار سمجھتے ہیں۔ اسی لئے مغربی معاشروں میں حجاب کو مسلمانوں کے نقطہ نظر سے سمجھنے کی بجائے وہ لوگ اسے بھی جبر اور غلامی کی یادگار سمجھ کر رد کرتے ہیں۔

یہ معاشرے سمجھتے ہیں کہ انسان فطری طور پر جیسا پیدا ہوا‘ اسے اسی طرح رہنا چاہیے۔ آج بھی ڈنمارک اور ناروے جیسے ملکوں میں لوگ ننگے ہو کے پریڈ کرتے ہیں۔ ہیر کسی لادین اور وحشی معاشرے کا کردار نہیں‘ نہ ہی وہ دینی اصول توڑنے کی حامی ہے۔ اس نے تو مذہب اور سماج کو اصل اصولوں کی طرف موڑنے کی جدوجہد کی ہے‘ یاد کرایا کہ بیٹیوں کا نکاح کرنے سے پہلے ان کی مرضی کو اہمیت دیا کرو۔ ہیر نے بتایا کہ ہم جب دینی اور سماجی شعور سے محروم ہو جاتے ہیں تو پھر معاشرے میں قاضی جیسے کردار پیدا ہوتے ہیں جو اپنی طمع اور لالچ کی دکان چلانے کے لئے مذہب اور سماج کے اصولوں میں من چاہی ترمیم کرتے ہیں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر کیدو بغض اور نفرت کی روش ترک کر دیتا۔ دو پیار کرنے والوں کے چھپ چھپ کر ملنے کی نوبت نہ آتی۔ وہ ان کی مدد کر سکتا تھا۔ ان کی شادی کروا کر انہیں ایک ساتھ رہنے کا موقع دے سکتا تھا۔ ایسا ہوتا تو قصہ ہیر رانجھا کی شکل کیا ہوتی۔ وارث شاہ اگر کوئی فلم نگار ہوتے تو شاید کیدو کا کردار اپنی ضد چھوڑ دیتا۔ وارث شاہ ہیپی اینڈ تک پہنچنے کے لئے کچھ کردار مار ڈالتے اور جھگڑے ختم کر دیتے مگر وہ جانتے تھے کہ روح کی تعلیم ہمیشہ ٹریجڈی کرتی ہے۔ ہم ساری زندگی جانے کتنی کامیابیاں سمیٹتے ہیں۔ ان کامیابیوں کے پیچھے ہمارے دکھ اور محرومیاں کھڑی ہوتی ہیں۔

بندہ خوشیوں کی ہزار باتیں بھول جاتا ہے مگر زندگی میں اگر کسی ایک پل میں دکھ کا کانٹا چبھا ہو تو اس کی تکلیف یاد رہتی ہے۔ کیدو اگر سمجھدار چچا ہوتا تو بھائی اور بھاوج کو سمجھاتا۔ ہیر رانجھے کا نکاح ہو جاتا مگر اس نے بتایا کہ رب نے شیطان کو کیوں پیدا کیا۔ شیطان ہماری زندگی میں ناامیدی لا کر جھگڑے پیدا کرتا ہے۔ ہمارا ہمدرد بن کے زندگی تباہ کرتا ہے۔ ہم اگر مقصد اور مقصود کے ساتھ جڑے ہوں تو یہ شیطانی فساد ہماری روحانی طاقت کو چیلنج کرتا ہے۔ روح کی یہ خاصیت ہے کہ وہ چیلنج کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ روحانیت کی زندگی گزارنے والے نفس کے مجاہدے میں اسی طرح کے چیلنج قبول کرتے ہیں۔

ہیر رانجھے کا مقصد ایک ہونا تھا۔ کیدو انہیں الگ الگ رکھنا چاہتا تھا۔ روح کو چیلنج ملا تو وہ اپنی طاقت کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ وارث شاہ نے ہیر رانجھے کے قصے میں مختلف ابواب میں مختلف چیزوں کا ذکر کیا۔ حسن کسے کہتے ہیں‘ ناز و ادا کیا ہے۔ پنجاب کی سماجی اونچ نیچ اور شکل‘ لوگوں کی خوبیاں اور اپنی لسانی قادرالکلامی کا انہوں نے خوب مظاہرہ کیا۔ قصے میں جہاں دکھ کا بیان آتا ہے وہاں وارث شاہ کا رنگ روحانیت میں گھل جاتا ہے۔ جانے ہماری کتنی نسلیں بی اے میں مسٹر چپس پڑھ گئیں۔ معلوم نہیں چو سر سے لے کر ولیم ورڈز ورتھ اور جان کیٹس جیسے کتنے انگریزی شاعر ہمیں سماجی اور معاشی افتخار کے لئے پڑھنے پڑے۔

ہمیں سعدی اور رومی کی حکایات اور فارسی جملے نقل کرنے والوں نے اپنے مصنوعی علمی بوجھ سے دبائے رکھا۔ کچے پکے‘ غیر تربیت یافتہ لوگوں کو فارسی صوفیاء کا کلام اپنی کمزوریاں چھپانے کے لئے موثر ہتھیار کے طور پر ملا۔ بلاشبہ وارث شاہ بھی اس رجحان سے متاثر ہوئے اور قصے کے ابواب کا عنوان فارسی میں لکھا۔ آج کے دور میں ایک ہزار میں سے ایک آدمی فارسی اشعار کا مطلب جانتا ہے۔ باقی اسے سنے اور پڑھے بغیر داد دیتے ہیں۔ معاشرے کو یرغمال بنانے والی کم علم اور غیر تربیت یافتہ طاقتوں نے پنجاب کے لوگوں کو بتایا کہ پنجابی زبان بھانڈ‘ اجڈ اور غیر مہذب لوگوں کی زبان ہے۔ پنجابی کو گالیوں کی زبان کہا گیا۔

یہ سب ان لوگوں کا پروپیگنڈہ ہے جو پنجاب کی علمی تاریخ اور زبان کی ادبی طاقت سے واقف نہیں۔مغل کہنے کو مسلمان تھے مگر تھے تو حملہ آور جنہوں نے پنجابی کو اپنا حریف سمجھ لیا‘ شاہ حسین کو اکبر نے قید کر کے یہی پیغام دیا تھا۔ وارث شاہ کسی مدرسے کے مہتمم‘ کسی حکمران اور کسی امیر کے محتاج نہیں‘ وہ پنجاب کے لوگوں کے دل میں بستے ہیں۔ ہیر کا قصہ برگد‘ پیپل اور نیم کی ٹھنڈی چھائوں تلے اونچی آواز اور دلکش لے میں پڑھنے والوں نے وارث شاہ کو یاد رکھا۔

وارث شاہ کو ان سب لوگوں نے یاد رکھا جو کیدو اورقاضیوں سے ناخوش ہیں۔ وارث شاہ کو ان جوانوں نے یاد رکھا جو پنجاب اور پنجابی ہونے پر مان کرتے ہیں۔ (گجرات میں استاد امام دین ادبی سوسائٹی کے زیر اہتمام سیمینار میں پڑھا گیا۔ سابق وزیر تعلیم پنجاب میاں عمران مسعود،ڈی جی پلاک ڈاکٹر صغرا صدف‘ ممتاز دانشورہارون عدیم‘ سوسائٹی کے صدر احسان چھینہ‘ افضل گوندل اور علی ابرار جوڑا کے خیالات سے حاضرین نے خوب استفادہ کیا)

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).