ناکام لوگوں کی دلچسپ باتیں


کامیاب افراد اور اقوام کی دلچسپ باتیں ایک ایسا موضوع ہے جس پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ دکانوں سے لے کر ٹھیلوں پر کئی ایک کتابیں آپ کو اس موضوع پر مل جائیں گی جن میں دنیا میں ان افراد اور اقوام کی کارگزاریاں درج ہیں جنہوں نے تاریخ انسانی پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اس موضوع پر سنجیدہ کام کے ساتھ ساتھ سطحی نوعیت کا کام بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس میں کامیاب افراد اور اقوام کی زندگیوں کے عروج و زوال اور ان کے شب و روز کا احوال درج ہوتا ہے۔ کامیاب لوگوں اور اقوام کی دلچسپ باتیں اگر آپ کو پڑھنی ہوں تو آپ کسی بک شاپ پر جائیں اور پیسے دے کر کتاب خرید لیں اور اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کر لیں۔

جہاں کامیاب افراد اور اقوام کی روداد اور ان سے جڑے قصے کہانیوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں تو دوسری جانب ناکام افراد اور اقوام کے بارے میں مصنفین تردد ہی نہیں کرتے کہ ان کی دلچسپ باتوں کو بھی احاطہ تحریر میں لائیں۔ اس کے پس پشت شاید یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ کامیاب افراد و اقوام کے پیچھے ہر ایک لپکتا ہے جن میں منصفین بھی ہوتے ہیں۔ اب اپنی پاکستانی قوم کو ہی لے لیں کہ جن کے شب و روز کو کسی نے قلمبند کرنے کی کوشش نہیں کی کہ کیسے کیسے نابغہ روزگار قصے اور دلچسپ باتیں ان سے منسوب ہوں۔ آئیے ہم خود کی ان دلچسپ باتوں پر سے پردہ سرکا دیں۔

اس قوم کا وجود 14 اگست 1947 کے روز ہوا لیکن یہ قوم اس بات کو ماننے کو تیار نہیں۔ اس قوم میں وافر تعداد میں پائے جانے والے صاحبان علم و دانش کے بقول 14اگست 1947کو قوم ظاہری طور پر وجود آئی وگرنہ روحانی طور پر اس کا وجود تو ایک ہزار سال قبل ہی اس سر زمین پر ہو چکا تھا ۔ ان کے بقول روحانی طور پر ایک ہزار سال پہلے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ ان کا اصلی تعلق سر زمین عرب سے ہے۔ اس لیے عربوں کے لیے ان کے تعلق دھڑکتے ہیں اور ان کی عنایات و نوازشات کے لیے ان کی آنکھیں ترستی ہیں۔ اب عربوں نے جب اس قوم کے صف اول کے دشمن نریندر مودی کو اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا تو ان کے سپنوں کا شیش محل کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا ۔ یہ بیچارے پریشان و افسردہ ہو کر اب انہی عربوں کو صلواتیں سنانے پر اتر آئے ہیں جنہوں نے چھ آٹھ ماہ پہلے زرمبادلہ کے نحیف و نزار ذخائر کو چند ارب ڈالر کی طاقت کا انجکشن لگایا تھا۔

ایک اور اہم بات جو اس قوم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے وہ ان کا ہر ایک واقعے کے پیچھے بیرونی سازش تلاش کرنے کا ایک دلچسپ مشغلہ ہے جو کئی عشروں سے بلا تعطل جاری ہے۔ اس نظریے کے مطابق ساری دنیا ہمارے خلاف سازشوں میں پوری شد و مد سے مصروف ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم جیسی قوم کے خلاف کسی بیرونی سازش کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم اپنے خلاف سازش اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے خود ہی کافی ہیں۔

اس قوم سے جڑی ایک اور دلچسپ بات ان کا مذہب سے گہرا لگاؤ ہے تاہم یہ گہرا لگاؤ فقط ظاہری ہے کیونکہ مذہب کی روح سے ان کا واجبی سا تعلق ہے۔ مذہب کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات جو سماجی انصاف، معاشی مساوات، اخوت و بھائی چارے اور حسن سلوک اور اخلاقیات سے تعلق رکھتی ہیں ان کا سایہ بھی اس قوم پر نہیں پڑا۔ کچھ ظواہر کو یہ دین سمجھ بیٹھے اور ان پر زور و شور سے کاربند ہو کر یہ اپنے تئیں خدا کے مقرب بندے بن گئے ہیں۔

اس قوم سے منسوب ایک اور دلچسپ حقیقت ان کی قانون کی عملداری سے پہلو تہی ہے۔ قانون کی عملداری اور اس کی پابندی اس کے نزدیک ایک بے معنی چیز ہے۔ ٹریفک کے سگنل توڑنے سے لے کر آئین توڑنے تک اس قوم کا رویہ ایک سا ہے یعنی مجرمانہ خاموشی۔ دنیا بھر میں قانون کی عملداری اور اس پر پابندی سے معاشروں کی ترقی کا ان پر چنداں اثر نہیں ہوتا اور کمال ڈھٹائی سے ہر روز قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں لیکن اس پر ریاست انگڑائی لیتی ہے اور نہ ہی معاشرہ کوئی رد عمل دیتا ہے۔

ایک اور دلچسپ بات اس قوم کا گندگی اور غلاظت سے شغف ہے۔ ذہنی گندگی سے لے جسمانی اور ماحولیاتی گندگی میں یہ قوم خود کفیل ہے۔ ذہنی گندگی کے مظاہرے جو نجی محفلوں اور اجتماع میں ہوا کرتے تھے اب سوشل میڈیا پر سر عام کیے جا رہے ہیں۔ ہر ایک نوع کا سطحی، گھٹیا اور رکیک ہتھکنڈا سوشل میڈیا پر مخالف رائے کو دبانے کے لیے جائز قرار دیا جا چکا ہے۔ ماحولیاتی گندگی کے نقوش ہر سو کچرے کے ڈھیروں اور تعفن و بدبو سے ظاہر ہیں۔ اگر کسی کو شبہ ہے تو سب سے بڑے شہر کراچی کا چکر لگا لے کہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر پر کیسے زندگی گزاری جاتی ہے۔

پاکستانی قوم کے یہ چند پہلو ہی اس کی ناکامی سے تعلق نہیں رکھتے کیونکہ اس کی فہرست طویل ہے یہ تو دیگ کے چند دانے ہیں جن کا ذکر کر دیا وگرنہ تو ساری دیگ ہی ایسے دانوں سے بھری ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).