تصورِ پاکستان کا نت نیا بیانیہ


\"fateh\"(خلیفہ عبدالحکیم یادگاری خطبہ)

آج سے ایک سو سال پیشتر حیدر آباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوئی تو علامہ اقبال نے اپنی بجائے خلیفہ عبدالحکیم کو شعبہءفلسفہ کا صدر بنانے کی تجویز پیش کرتے وقت لکھا تھا کہ :”خلیفہ عبدالحکیم بھی اقبال ہی ہیں-(1) “ خلیفہ عبدالحکیم سے اقبال کی یہ توقعات بیش از بیش پوری ہوئیں- انھوں نے نئے حالات میں فکرِ اقبال کی تشریح و توضیح کا فریضہ جس شان کے ساتھ ادا کیا اورہماری قومی زندگی کو درپیش مشکلات سے پنجہ آزمائی میں فکرِ اقبال ہی کے تسلسل میں جس جراتِ فکر و اظہار کا ثبوت دیا وہ بے مثال ہے- اقبال کے مرشدِ روشن ضمیر مولانا رومی کے فکری اور روحانی کمالات پر اُن کی نصف درجن تصنیفات اقبال اور رومی سے اُن کی گہری محبت کا بیّن ثبوت ہیں- اُن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان The Metaphysics of Rumi صرف مولانا رومی ہی نہیں ، مسلمانوں کے فلسفہءتصوف پر اپنی نوعیت کی واحد تصنیف ہے- غالب اور اقبال کی شاعری کی تحسین اُن کی تخلیقی تنقید کا ایک جداگانہ رنگ ہے لیکن مجھے آج ، اس نشست میں ، سیاسی نظریہ و عمل کی دُنیا میں اُن کی یادگار خدمات کی جانب اشارہ کرنا ہے۔

قیامِ پاکستان سے لے کر پاکستان کے پہلے وزیراعظم ، لیاقت علی خان کی شہادت تک تصورِ پاکستان کا بیانیہ بانیانِ پاکستان کے تصورات اور \"liaqatتحریکِ پاکستان کے خواب و خیال ہی کا جیتا جاگتا عکس تھا- پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خاں نے اپنے دورہءامریکہ (2مئی سے31مئی 50ء تک) کے دوران اِس حقیقت کو بہ اعادہ و تکرار بیان کرنا ضروری سمجھا تھا کہ دنیا اِس وقت دو کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے، سرمایہ پرست کیمپ اور اشتراکی کیمپ، پاکستان اِن دو میں سے کسی ایک بھی کیمپ کا مقلّد نہیں ہے۔پاکستان ایک تیسرے راستے پر گامزن ہے اور یہ اسلامی سوشلزم کی راہ ہے۔ چنانچہ دورہءامریکہ کے دوران متعدد نشستوں میں اُن سے اسلامی سوشلزم کے مطلب و معانی کی وضاحت بھی طلب کی گئی ہے اور یوں اُن کی مختلف تقریروں اور بیانات میں اِس موضوع پر اُن کے خیالات کی تکرار بھی دَر آئی ہے۔ (2)یہ وہ زمانہ ہے جب خلیفہ عبدالحکیم لاہور میں ادارہءثقافتِ اسلامیہ قائم کر کے سرمایہ پرست دُنیا اور اشتراکیت پسند دنیااور ہر دو دنیاﺅں کے مشرقی مقلّدین کو اس باب میں تعبیر و تفہیم کی روشنی بخشنے میں ہمہ تن محو تھے۔اُن کی انگریزی تصنیف بعنوان Islam & Communism اُسی سال شائع ہوئی جس سال کرائے کے ایک قاتل کی گولی نے لیاقت علی خان کو قوم سے چھین لیا تھا- پوری کتاب تو ایک طرف اگر اِس کتاب کے صرف دو باب Islamic Socialism اور Islamic Democracy پڑھ لیے جائیں تو اسلام کا مطلب بھی سمجھ میں آ جاتا ہے اور پاکستان کا مطلب بھی- ہمارا حکمران طبقہ آج تک اِن کتابوں سے استفادہ نہیں کر سکا- اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے ساتھ ہی تصورِ پاکستان کا بیانیہ بدل کر رکھ دیا گیا تھا-

ادھر پاکستان سرمایہ داری اور اشتراکیت کے مابین جاری سرد جنگ میں سرمایہ پرست دنیا کا Camp Follower بنا اور ادھر عوامی جمہوریت کی مذمت اور”مہربان آمریت “کی حمد و ثنا شروع ہو گئی- امریکی سی آئی اے کے کارندوں نے کاروبارِ حکومت سنبھالا – برطانوی ہند کی تربیت یافتہ افسر شاہی مسندِ اقتدار پر یوں متمکن ہوئی کہ اونٹوں تک کے گلے میں\"Allama-Iqbal\" Thank you America کی تختیاں لٹکا دی گئیں، قومی آزادی افسانہ و افسوں بن کر رہ گئی اورنوبت یہاں آ پہنچی کہ ایوب کابینہ کے سب سے کم عمروزیر ، ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب The Myth of Independence کی پہلی سطر میں ہی اِس حقیقت کا اعتراف کر لیا کہ جب وہ ایوب کابینہ میں شامل ہوئے تو اُنھیں پتہ چلا کہ پاکستان میں چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں بھی امریکی صوابدید شامل ہوتی تھی- یوں جب ہماری آزادی ہی معدوم ہو کر رہ گئی تھی تب تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال کیسے نہ دھندلاتے؟ہماری تاریخ کی المناک ترین حقیقت یہ ہے کہ سرد جنگ کے دوران روسی اشتراکیت کے خلاف امریکہ کی جنگ کوپاکستان اور اسلام کی بقا کی جنگ ثابت کرنے کی خاطر علمائے کرام کی خدمات سے بھی استفادہ کیا گیا-

یہ ایک مانی جانی ہوئی صداقت ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا- اِس سے بھی بڑی صداقت یہ ہے کہ اسلام کے نام پر قیامِ پاکستان کی سرتوڑ مخالفت کی گئی تھی-جس زمانے میں پاکستان کا تصور پیش کیا گیا اور پھر یہ تصورِ پاکستان تحریکِ پاکستان بن کر مقبولِ خاص و عام ہوا اُس زمانے میںہمارے مختلف دینی مسالک کے زعماءنے اِس قومی ، اسلامی تحریک پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی- چندمذہبی مسالک اور مدارس کی جانب سے قیامِ پاکستان کی یہ مخالفت دینِ اسلام کی فرقہ وارانہ تفہیم و تعبیر کا شاخسانہ ہے-

مصورِ پاکستان اور مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال اسلام کی اُس حقیقی روح کو شہنشاہیت کی گرفت سے نجات دلا کر روحِ عصر سے ہم آہنگ کرنے کی خاطر مسلمان اکثریت کا ایک خطہءخاک حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلام کی اس حقیقی روح کو زندگی کے مختلف شعبوں میں سرگرمِ کار کر کے ایک سچا اسلامی معاشرہ وجود میں لایا جا سکے- اُن کے پیشِ نظر طلوعِ اسلام کا وہ اوّلیں دور تھا جب اسلامی معاشرے پر نہ شہنشاہیت مسلط ہوئی تھی اور نہ ہی اِس شہنشاہیت کی دستگیر مُلّائیت سامنے آئی تھی- یہی وجہ ہے کہ جب دارالعلوم دیوبند سے تحریکِ \"khalifa\"پاکستان کی مخالفت اور آل انڈیا کانگرس کے سیاسی مسلک کی حمایت میں مولانا حسین احمد مدنی سرگرمِ عمل ہو گئے تو اقبال نے اُنہیں راہِ راست پر لانے کی خاطر کہا تھا کہ : ’بمصطفیٰ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست/ اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبیست‘ – بانیانِ پاکستان حریّت ومساوات اور احترامِ آدمیت کا ایک سچا اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے تمنائی تھے- جب مسلمان تو موجود تھے مگر اِن میں شیعہ سُنّی کے سے فرقے ابھی وجود میں نہیں آئے تھے- یہ حقیقت تحریکِ پاکستان کے دوران ہندی مسلمانوں کے مختلف اور باہم متصادم فرقہ پرستوں کی فہم و فراست سے بالاتر ثابت ہوئی- اِدھروہ چھوٹی بڑی علمی موشگافیوں میں کھوئے رہے اور اُدھر عامة المسلمین نے اپنی اجتماعی رائے سے پاکستان قائم کر دکھایا-

قیامِ پاکستان کے بعد وہ قیادت ہم سے بہت جلد چِھن گئی جس نے تحریکِ پاکستان کو قیامِ پاکستان کی منزل پر لا پہنچایا تھا- اُس کے بعد ہم پر برطانوی تربیت یافتہ سرکاری افسران کی حکومت مسلط کر دی گئی- سردجنگ کے زمانے میں امریکہ کا ساتھ نبھانے کی خاطر اسلام کی بجائے مُلّائیت کی سرپرستی کی- سرد جنگ میںشمولیت کا جواز مہیا کرنے کی خاطر ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا گیاجس کی رُو سے پاکستان ، خدانخواستہ ، اشتراکیت کا خاتمہ کر کے دُنیا میں سرمایہ پرستی کا بول بالا کرنے کی خاطر قائم کیا گیاتھا- اِس نئے استدلال نے خود مختار پاکستان کی آزاد خارجی اور داخلی حکمتِ عملی کو خیرباد کہہ کر امریکی تابعداری کے جواز مہیا کیے- ہر چند فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مذہبی جماعتوں کی سیاسی سرپرستی سے گریزاں رہے تاہم اشتراکیت کے غلبے سے خائف اندرونی اور بیرونی قوّتیں اِن مذہبی سیاستدانوں کی خدمات سے بیش از بیش فیضیاب ہوئیں-علامہ اقبال نے انتہائی کرب و اضطراب میں یہ سوال اُٹھایا تھا کہ:

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

دُنیا ہے تیری منتظر ، اے روزِ مکافات!

مگر اِس نئے سیاسی بیانیہ کی رُو سے اس طرح کا سوال اُٹھانا سرے سے ممکن ہی نہ رہا- اِس کے برعکس دُنیا میں سرمایہ پرستی کے \"029882\"سفینے کی حفاظت ہماری منزلِ مقصود قرار پائی- ایوانِ اقتدار کے اندر اور باہر بیٹھے ہوئے سرمایہ پرستوں نے اِس نئی آئیڈیالوجی کو اِس ذوق و شوق کے ساتھ اپنایا کہ منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر محبوب الحق کو یہ صدائے احتجاج بلند کرنا پڑی کہ پاکستان کی دولت فقط چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئی ہے- چنانچہ ایوب خان نے تیسرے پنج سالہ منصوبے کے دیباچہ میں یہ عہد کیا کہ وہ پاکستان کے اقتصادی نظام کو اسلامی سوشلزم کے اصولوں کے مطابق تشکیل دیں گے-اس پر ایوب حکومت کے کارپردازان میں سے چند سرمایہ پرست اشتعال میں آگئے -پاکستان کے 33 امیر ترین خاندانوں میں سے ایک خادنان کے چشم و چراغ ور نیشنل پریس کلب کے چیئرمین اے کے سومار نے اس اسلامی سوشلزم کے تصور کو فراڈ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے بیشتر اخبارات میں اس کی مذمت میں مضامین شائع کیے-حنیف رامے ، پروفیسر محمد عثمان ، صفدر میراور غلام احمد پرویز سمیت بہت سے دانشوروں نے اسلامی سوشلزم کے تصور کے اثبات میں مقالات لکھے- محمد حنیف رامے کے دو ماہی علمی جریدے ”نصرت“کا ایک ضخیم اسلامی سوشلزم نمبر شائع کیا-اِس کے جواب میںجماعتِ اسلامی کے جریدے چراغِ راہ نے اسلامی سوشلزم کے تصور کی تردیدمیں ”نصرت“ سے دُگنی ضخامت کا اسلامی سوشلزم نمبر شائع کیا-یوں دیکھتے ہی دیکھتے اِس بحث کا بازار گرم ہو گیا- پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بھی اس بحث میں شریک ہو گئے- 29جنوری 1969ء کو لاہورمیں پارٹی کے کارکنان سے خطاب کے دوران اُنھوں نے دعوی کیا کہ ”پہلے پہل سوشلزم کے بیج اسلام کے فیضان سے ہی پھوٹے تھے- سوشلزم کے تصورات اسلام ہی کی دین ہے-یہ آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین کا اسلام ہے جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے- “(3)اپنی الیکشن مہم کے دوران ، اُنھوں نے ، جنوری 1970ءمیں سامعین کو یقین دلایا تھاکہ” اسلامی سوشلزم کے باب میں اُن کا تصور قائداعظم اور لیاقت علی خان کی تعلیمات سے ماخوذ ہے- “(4)اسلامی سوشلزم کے تصور کی روز افزوں مقبولیت سے ہمارے رجعت پرست مذہبی حلقوں کی بوکھلاہٹ کا اندازہ ایک سو تیرہ113) علماءکے اس فتویٰ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اسلامی سوشلزم کے تصور کو اپنانے والے مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا تھا۔ یہ دیکھ کر آدمی حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ اس فتویٰ پر مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا مفتی محمد شفیع اور مولانا احتشام الحق تھانوی کے دستخط بھی ثبت ہیں۔ یہ جان کر حیرت و استعجاب کی کوئی حد نہیں رہتی کہ جنرل یحییٰ خان کی وزارتِ اطلاعات کی جانب سے اس فتویٰ کی زبردست تشہیر کے باوجود پاکستان کے غریب عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا سچا قائد تسلیم کر لیا اور یوں وہ الیکشن جیت کر ایوانِ اقتدارپر قابض ہو گئے۔بعد ازاں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی تو اسلامی سوشلزم کی بنیاد پر پاکستان کی معیشت کی نئی تشکیل کا عزم باندھا- ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنا کام وہیںسے شروع کیا جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہیدِ ملت لیاقت علی خان چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے تھے- یہ شہیدِ ملت ہی تھے جنہوں نے اگست 1949ءمیں لاہور کے جلسہءعام سے خطاب کرتے ہوئے بڑی قطعیت کے ساتھ فرمایا تھاکہ:

\"iqbal-aur-mullah\"”ہمارے لئے فقط ایک ”اِزم“ ہے اور وہ ہے اسلامی سوشلزم جس کا لُبِّ لباب یہ ہے کہ ہر شخص کو اس ملک میں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور طبی سہولتوں کے حصول کا مساوی حق ہے- وہ ملک جو اپنے باشندوں کو یہ چیزیں فراہم نہیں کرتے، کبھی ترقی نہیں کر سکتے-وہ اقتصادی پروگرام جو اب سے1300 برس پہلے (عہدِ نبویﷺمیں) مرتب ہوا تھا ہمارے لیے آج بھی سب سے اعلی ہے-“(5)

بھٹو شہید نے آزاد معیشت کے ساتھ ساتھ آزاد خارجہ پالیسی کی بازیافت کی خاطر مغربی دُنیا کے ساتھ دفاعی معاہدوں سے بھی پاکستان کو نجات دلا دی- شہیدِ ملت کی راہ اپنانے کا انجام بھی شہید ملت کا سا ہوا- قاتل کی گولی کی بجائے پھانسی کا پھندہ ذوالفقار علی بھٹو کا مقدر ٹھہرا- جنرل ضیاءالحق نے، اپنی ہوسِ اقتدار کی تسکین کے لیے پاکستان کے نظریاتی وجود کو ایک نام نہاد شرعی نظام کے نفاذ سے دُھندلا نے کے جُرم کا ارتکاب کیا تھا۔وہ شریعت کے نام پہ پاکستان کو ایک جدید اسلامی جمہوری ریاست کی بجائے ایک فرسُودہ اور ازکار رفتہ آمریت کی شکل دینا چاہتا تھا۔اپنے اِس مقصد کے حصول کی خاطر اُس نے شریعت کا نام لے لے کرمُلّائیت کی سرپرستی کی۔ جب 1978ء میں افغانستان میں سوشلسٹ حکومت قائم ہوئی اور امریکہ نے اِس روس نواز حکومت کو ختم کرنے کی خاطر مُلّائیت کی سرپرستی کی حکمتِ عملی اپنائی تو ضیاءالحق نے طالبان کے تصورِ شریعت کو اپنے اور امریکہ کے مفیدِ مطلب پایا۔ چنانچہ پاکستان میں بھی ایک ایسی نئی شریعت کے نفاذ کی لَے چھیڑدی گئی جس کے خدوخال فیض احمد فیض کی نظم ”تین آوازیں“ کے ایک کردار ”ظالم“ میں منعکس ہیں:

جشن ہے ماتمِ اُمید کا آﺅ لوگو

مرگِ انبوہ کا تہوار مناﺅ لوگو

ساری آنکھوں کو تہِ تیغ کیا ہے میں نے

سارے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا ہے میں نے

اب نہ لہکے گی کسی شاخ پہ پھولوں کی حِنا

فصلِ گُل آئے گی نمرود کے انگار لیے

میرا مسلک بھی نیا، راہِ طریقت بھی نئی

میرے قانوں بھی نئے، میری شریعت بھی نئی

اب فقیہانِ حرم دستِ صنم چومیں گے

سرو قد، مٹّی کے بونوں کے قدم چومیں گے

فرش پر آج درِ صدق و صفا بند ہُوا

عرش پر آج ہر اک باب دُعا بند ہُوا

ستم بالائے ستم یہ کہ پندرہ بیس برس کے اندر اندر فیض کے ”فصلِ گُل آئے گی نمرود کے انگار لیے“ کے سے اندیشہ ہائے دُورودراز

\"000072\"

بھیانک حقائق کا روپ دھار گئے ۔صدر ضیاءالحق نے اپنے غاصبانہ اقتدار کو طُول دینے کی خاطر نام نہاد اسلامائزیشن کا ایک نیا بیانیہ تراشاجو تصورِ پاکستان کے حقیقی بیانیہ کی مکمل نفی سے عبارت تھا- فیلڈ مارشل ایوب خاں نے عوامی جمہوریت کو بنیادی جمہوریت کی شکل دینے کی کوشش کی تھی – جنرل ضیاءالحق نے جمہوریت کی مکمل نفی کی خاطر اسلام کے مقدس نام کو بے دریغ استعمال کیا- وہ خود امیر المومنین بن بیٹھے اور اپنے چند فرماں بردار افراد کی مجلسِ شوری نامزد کر کے آمریت کا بول بالا کرنے میں مصروف ہو گئے- مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال نے یہ خواب دیکھا تھا کہ پاکستان میں اسلام پر سے عرب ملوکیت کی چھاپ کو اُتار کر اسلام کی حقیقی روح کی بازیافت اور پھر اِس روح کو روحِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے گا- ضیاءالحق کی اسلامائزیشن پاکستان کے اِس حقیقی تصور کی مکمل نفی ہے- صدر ضیاءالحق اِس تصور کے برعکس اسلام پر عرب ملوکیت کی چھاپ کو اور گہرا اور مزید نمایاں کرنے کا اہتمام کرنے میں منہمک ہو گئے تھے-

جب میں بانیانِ پاکستان کے تصورِ پاکستان کی مکمل تردید کا یہ نیا بیانیہ پڑھتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ مظہر علی خان نے اپنے ہفت روزہ View Point کے ایک اداریہ میں ضیاءالحق کی اسلامائزیشن کو سعودی آئزیشن آف اسلام قرار دیا تھا- ڈاکٹر جاوید اقبال نے اسلام کے موضوع پر سعودی عرب میں منعقدہ بین الاقوامی اسلامی کانفرنس سے متعلق اپنی یادوں کو تازہ کرتے وقت لکھا ہے کہ اِس کانفرنس میں ایک ایسی قرارداد بھی منظور کی گئی تھی جس میں علامہ اقبال کے خطبات کو کفریات قرار دیا جا چکا ہے- (6)خاندانی بادشاہت اور اُس کی دست و بازو مُلّائیت کی نگاہ میں اقبال کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ اُس کی نظر میں جمہوریت اسلام کا سیاسی آئیڈیل ہے تو مساوات اسلام کا معاشرتی آئیڈیل- اقبال کے اِن ہی انقلابی اسلامی تصورات سے پاکستان کا نظریاتی وجود برآمد ہوا تھااور انہی تصورات کی سربلندی کی خاطر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں برصغیر کے مسلمان عوام نے پاکستان کا جغرافیائی وجود تخلیق کیا تھا-

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں اسلام کی بجائے ملائیت کی حکمرانی کے امکانات کو ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے پیش از وقت ہی محسوس کر لیا تھا- چنانچہ وہ ہمارے نظریاتی اُفق کوتابناک بنانے کا کارنامہ سرانجام دینے میں جس انہماک اورجس تسلسل کے ساتھ کوشاں رہے اُس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی-اُن کی کتاب The Ideology of Islam اُن اسلام پسندوں کی سرمایہ پرست اسلامیت کا انتہائی موثر جواب ہے جو سردجنگ میں امریکہ نواز اسلام ایجاد کرنے میں مصروف تھے- اسی طرح اُن کی کتاب ”فکرِ اقبال“ فلسفہ و شعر میں اقبال کے اُن افکار کومنکشف کرتی ہے جنھیں سرد جنگ کے دوران فراموش کرنے کا اہتمام سکہءرائج الوقت تھا-اسلامی سوشلزم کا تصور اقبال کے اِن انقلابی تصورات میں سے ایک ہے-اُن کی عہد آفریں کتابیں تو رہیں ایک طرف اگر آج ہم اُن کے فقط دو مضامین بعنوان: ”مُلّائیت “اور ”اقبال اور مُلّا“ ہی سے تخلیقی انداز میں استفادہ کر لیں تو مجھے یقین ہے کہ ہم پرملائیت اور اُس کی زائیدہ تشدد پرستی اور دہشت گردی سے نجات کی راہیںروشن سے روشن تر ہوتی چلی جائیں گی!

حواشی

(1) ممتاز اختر مرزا نے اپنی کتاب بعنوان ”ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم : سوانح اور علمی و ادبی خدمات“ مطبوعہ ادارہءثقافتِ اسلامیہ ، لاہور(1971ئ) میں لکھا ہے –

کہ:جب عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوئی تو علامہ اقبال کو فلسفے کی پروفیسری کی پیش کش کی گئی- علامہ اقبال نے خلیفہ عبدالحکیم سے فرمایا کہ ”چیف منسٹر سر اکبر حیدری کا خط آیا ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کھلی ہے اور اُنھیں فلسفے کے لیے پروفیسر کی ضرورت ہے- اِس کا جواب میں نے سر اکبر حیدری کو لکھ دیا کہ میں ایسا آدمی بھیجنا چاہتا ہوں جس کی بابت آپ محسوس کریںگے کہ وہ بھی اقبال ہے-“( صفحہ 51)

(2) تفصیلات کے لیے دیکھیے :لیاقت علی خان، Pakistan: The Heart of Asia، کولمبیا یونیورسٹی پریس، 1951ئ

            محمد رضا کاظمی، Liaquat Ali Khan-His life and work ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2003ئ

(۳) ذوالفقار علی بھٹو Awakening the People: Statements, Articles, Speeches,، 1966-1969ئ، (راولپنڈی: پاکستان پبلیکیشنز، سن ندارد)صفحہ 45

(۴)        بھٹو، Marching Towards Democracy: Statements, Articles, Speeches، 1970-1971، (راولپنڈی: پاکستان پبلیکیشنز، سن ندارد) صفحات، 12، 30،175

(۵) تفصیلات کے لیے دیکھیے : سید سبطِ حسن، نویدِ فکر، کراچی، 1982ئ، صفحہ 57

(6) مضمون بعنوان ”مسلم ثقافت کا روشن چہرہ“ ، مطبوعہ معاصر، لاہور، دسمبر2013ئ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments