مزار بابا بلھے شاہ


سید محمد عبداللہ المعروف بابا بلھے شاہ کا مزار قصور میں واقع ہے۔

بابا بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کے متلعق کچھ خاص معلومات دستیاب نہیں۔ آپ کی جائے پیدائش کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ مولا بخش کشتہ، ڈاکٹر لاجونتی، ڈاکٹر فقیر محمد، مفتی غلام سرور، جے آر پوری، ٹی آر شنگاری، ڈاکٹر انیس ناگی و زیادہ تر سوانح نگاروں کے مطابق آپ کا تعلق اُچ گیلانیاں (اُچ شریف) سے ہے۔ آپ کا شجرہ نسب شیخ عبدالقادر جیلانی سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد سید سخی شاہ گیلانی امام مسجد تھے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کا خاندان مختلف وجوہات کی بنا پر ملک وال اور پانڈو منتقل ہوا۔ بابا بلھے شاہ کے بچپن کا بیشتر حصہ پانڈو میں گزرا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ نے ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کے لیے قصور چلے گے اور قصور میں آپ کو حضرت غُُلام مرتضیٰ و مولانا محی الدین صاحب جیسے قابل استاد ملے *۔

پروفیسر ضیاء محمد ضیاء لکھتے ہیں ”یہ بڑی مشہور روایت ہے کہ بلھے شاہ اور وارث شاہ دونوں ہم جماعت تھے۔ وارث کے بعض سوانح نگاروں نے بھی اس روایت کو درج کیا ہے۔ وارث، بلھے شاہ کا ہم جماعت یا ہم مکتب معاصر (ہو) تو اس میں کوئی امر بعید از قیاس نہیں۔ اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم دونوں بزرگ استاد بھائی تو ضرور ہیں۔ “

اور معروف ہے کہ آپ کے استاد آپ دونوں کے بارے میں کہا کرتے تھے ”مجھے دو شاگرد عجیب ملے ہیں، ان میں ایک بلھے شاہ ہے جس نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی ہاتھ میں پکڑ لی، دوسرا وارث شاہ ہے جو عالم بن کے ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا“۔

آپ کی زندگی میں بڑی تبدیلی تب آئی جب آپ کی ملاقات شاہ عنایت قادری سے ہوئی۔ ”باغ اولیاء ہند“ کے مطابق آپ کی شاہ عنایت سے ملاقات ایک آموں کے باغ میں ہوئی اور شاہ عنایت سے ہونے والے پہلے مکالمے میں ہی آپ ان سے بے انتہا متاثر ہوئے۔ حتیٰ کہ پیروں میں گِر کر درخواست کی کہ وہ آپ کو اپنا شاگرد بنا لیں۔ بابا بلھے شاہ نے اپنے کلام میں شاہ عنایت کا کافی ذکر کیا ہے۔ شاہ عنایت سے منسوب ایک کتاب ”نافع السالکین“ میں بھی بلھے شاہ کا تفصیلی تذکرہ ہے۔

میرے دُکھ دی سُنے حکایت

آ عنائیت کرے ہدایت

بابا بلھے شاہ خود سیّد زادے تھے لیکن انہوں نے بیعت شاہ عنایت کے ہاتھ پر کی جو ذات کے آرائیں تھے۔ اس وجہ سے اہل علاقہ آپ کو طعنے دینے لگے مگر بابا بلّھے شاہ ذات پات، اُونچ نیچ کے سب بندھن توڑ کر کہتے ہیں :

بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں

من لے بُلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلہ رائیاں

آل نبی اولاد علی دی، توں کیوں لیکاں لائیاں

جیہڑا سانوں سیّد آ کھے، دوزخ ملن سزائیاں

جیہڑا سانوں رائیں آ کھے، بہشتی پینگاں پائیاں

رائیں سائیں سبھنی تھائیں رَب دیاں بے پروائیاں

سوہنیاں پرے ہٹائیاں نیں تے، کوجھیاں لے گل لائیاں

جے توں لوڑیں باغ بہاراں، طالب ہوجا رائیاں

بلھے شوہ دی ذات کیہ پچھنایں، شاکر ہو رضائیاں

اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ اب بھی ہم لوگ ذات پات کے چکروں سے باہر نہیں نکلے۔ ہم اس کو اہمیت ہی نہیں دیتے کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے۔ بھگت کبیر صاحب فرماتے ہیں :

جات نہ پُوچھو سادھ کی، پُوچھ لیو تم گیان

مول کرو تلوار کا پڑا رہنے دو میان

بابا بلھے شاہ اپنے عہد کے باغی تھے۔ مگر وہ باغی تھے غلط نظریات سے، فضول رسوم و رواج سے اور علم کے جھوٹے دعویداروں سے۔ بابا بلھے شاہ نے اپنی شاعری میں کی جانے والی سخت تنقید کے باعث اپنے مرشد شاہ عنایت کو بھی ناراض کرلیا۔ کچھ لوگ شاہ عنایت کے خفا ہونے کی وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ آپ نے ایک موقع پر شاہ عنایت کے ایک مرید کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا تھا۔ اس وجہ سے شاہ عنایت آپ سے کافی عرصہ ناراض رہے۔

بابا بلھے شاہ کی آج کل جو داستان حیات پیش کی جاتی ہے اس میں عقیدت کی چاشنی خاصی گاڑھی ہے اور کرامات کی بھی بھرمار ہے۔ مگر آپ کی شاعری کا مطالعہ کیا جاے تو آپ کا خاکہ یکسر مختلف بنتا ہے۔ ڈاکٹر انیس ناگی کے درج ذیل اقتباس سے آپ کی زندگی کی کچھ ترجمانی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں ”حضرت بلھے شاہ ایک حد تک erratic (غیر مستقل) بھی تھے وہ اپنے عہد کی زندگی سے منحرف تھے۔ وہ اپنے عہدے کے مولویوں، پارساؤں اور مفتیوں کا تمسخر اڑاتے تھے کہ انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا، یوں لگتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ اپنے گاؤں یا شہر کے لوگوں کے تعصب، مذہبی رجعت پسندی اور منافقت سے کافی بیزار تھے۔

بلھے شاہ کا قصور کی ایک طوائف سے رقص سیکھنا پھر گوالیار کی ایک طوائف سے رقص کی تربیت حاصل کرنا، قصور کی ایک متمول بیوہ کا بلھے شاہ پر فریفتہ ہوتا، پھر ہیجڑوں کے ساتھ رقص کرنا، ۔ شاہ عنایت کے انتظار میں عورتوں کے کپڑے پہن کر عالم سکر میں رقص کرنا، گدھے خرید کر ان پر سوار ہوکر گاؤں میں پھرنے کا مقصد لوگوں کو زچ کرنا تھا۔ وہ امام مسجد کے بیٹے تھے اور ان سے بہتر رویے کی توقع کی جاتی تھی۔ حضرت بلھے شاہ اپنے گاؤں کے لوگوں کے لئے odd man out ( نرالا شخص) تھے۔ حضرت بلھے شاہ ایک امام مسجد کی واحد نرینہ اولاد تھے۔ اس لئے اپنے باپ کی گدی سنبھالنی کوئی مشکل نہیں تھی لیکن وہ کسی اور راہ کے مسافر تھے۔ “

بابا بلھے شاہ کے مطابق ہم لوگ بناوٹی ہیں، ملمع ساز ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ جب تک دل صاف نہیں ہوتا، تب تک ہمارے دکھاوے کی مذہبی زندگی کا کیا فائدہ؟

عمر گوائی وچ مسیتی

اندر بھریا نال پلیتی

اسی طرح ہم نے ایک دوسرے کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک دوسرے کو مختلف خانوں میں بانٹ رکھا ہے، فرقہ پرستی ہو یا ذاتیں یہ سب کچھ ہمیں ایک دوسرے سے جُدا کر رہی ہیں بابا جی فرماتے ہیں :

ہندو نہ نہیں مسلمان

بہیئے ترنجن، تج ابھمان

سنی نہ، نہیں ہم شیعہ

صلح کلّ کا مارگ لیا

بھکھے نہ، نہیں ہم رجے

ننگے نہ، نہیں ہم کجے

روندے نہ، نہیں ہم ہسدے

اجڑے نہ، نہیں ہم وسدے

پاپی نہ سدھرمی ناں

پاپ پنّ کی راہ نہ جاں

بلھا شاہ! جو ہرِ چت لاگے

تُرک اور ہندو دُوجن تیاگے

بلھے شاہ کا کلام آج بھی ذوق شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ مزار پر بھی ہمیشہ رَش ہوتا ہے۔ مگر کلام کو سمجھنے کی کوشش شاید کم ہی کی جاتی ہے۔ آپ نے سی حرفیاں، دوہڑے، اٹھوارے اور باراں ماہ لکھے ہیں۔ حضرت انور رہتکی آپ کے کلام کے متعلق کہتے ہیں ”آپ کے کلام میں بجلی جیسی تاثیر ہے جس کو سن کر لوگوں پر وجد کا عالم طاری ہوجاتا ہے اور ان کے اندر اللہ تعالٰی کی یاد تازہ ہو اٹھتی ہے۔ “ ڈاکٹر نذیر احمد کے مطابق ”سائیں بلھے شاہ اپنی بات کو پیچیدہ بنا کر نہیں کہتے۔ جذبات کی شدت اور نظر کی گہرائی اُن کے کلام میں وہ اثر پیدا کرتی ہے کہ فن منہ تاکتا رہ جاتا ہے۔ یہ سادگی کسی مشق کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ وہ بنیادی سادگی ہے جو کھردری بھی ہے اور زور آور بھی۔ “ پروفیسر جنک راج پوری کہتے ہیں ”آپ کے کلام کی ایک بڑی خُوبی طنز یا چوٹ ہے جو کہیں سوئی کی ہلکی چُھبن کی طرح ہے اور کہیں ہتھوڑے کی کراری چوٹ بن جاتی ہے۔ بلھے شاہ کے سارے کلام میں جذبات کی پرزور روانی ہے۔ یہ کلام خود جھرنے کی مانند از خود دل کی گہرائیوں سے نکلتا معلوم پڑتا ہے۔ اس کلام میں بے خودی اور بے پروائی ہے، مستی اور خمار ہے۔ رمزیہ نزاکت اور لطیف شوخی ہے۔ اس کلام میں جہاں خوشگوار گیتوں کی بہار ہے، وہاں ہجر کے دلسوز جذبات کی فراوانی بھی ہے۔ یہ کلام کہیں موسیقی کی میٹھی دھن بن جاتا ہے تو کہیں ناچ کی رقت آمیز دھمک۔ یہ پہیلیاں بھی بجھاتا ہے اور رمزیں بھی کھولتا ہے۔ یہ کلام جس قدر عام فہم اور دلکش ہے، اتنا ہی سنجیدہ اور پرمعنی بھی ہے، اور خود بخُود دل کی گہرائیوں میں اُترتا چلا جاتا ہے۔ جو بھی ایک بار اس کو پڑھ لیتا ہے، بار بار اسے پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ “

بابا بلھے شاہ کے سن وفات کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ بعض سوانح نگار آپ کا سن وفات 1171ھ بتاتے ہیں مگر ڈاکٹر فقیر محمد فقیر صاحب نے مولوی محمد شفیع کے اورینٹل کالج میگزین مئی 1939ء کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے بابا بلھے شاہ کی اجازت والا ایک پرانا مسودہ دیکھا تھا جس پر مہر کے ساتھ سن 1181ھ درج ہے۔ اگر یہ مہر واقعی بابا بلھے شاہ کی ہے تو زیادہ تر سوانح نگاروں کا بتایا گیا سن 1171ھ غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلھے شاہ کو شہر کے سرکردہ لوگوں نے شہر میں تدفین کی اجازت نہ دی اور انہیں پرانے شہر سے دور دفن کیا گیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کافی روز تک آپ کا جنازہ بھی نہیں پڑھایا گیا پھر شہر سے باہر گئے ہوئے ایک مرید نے قصور واپسی پر آپ کا جنازہ پڑھایا اور تدفین کی۔

بابا بلھے شاہ کو سرحد کے دونوں جانب رہنے والے پنجابی، عظیم شاعر و دانشور مانتے ہیں۔ تقسیم ہند نے پنجاب کی دھرتی کو تو تقسیم کردیا گیا مگر آج بھی دونوں جانب رہنے والے جُڑے ہوئے ہیں۔ بُلھے کے چاہنے والوں نے ہندوستان میں بھی بابا بلھے شاہ کے دو مزار بنا رکھے ہیں۔ ایک مزار مسوری میں ہے جہاں کئی برس سے بُلھے شاہ کا میلہ منعقد ہوتا ہے۔ دوسرا مزار گاؤں کند والا حاضر خان میں ہے۔ اس مزار کے منتظمین کے مطابق40 سال قبل یہاں کے کچھ لوگ قصور دربار سے ایک اینٹ لے آئے اور یہاں بابا جی کا علامتی دربار بنایا گیا۔ تب سے یہاں ہر سال میلہ لگتا ہے۔

قصور میں آپ کا مزار کچھ عرصہ قبل ہی دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مزار کا ڈیزائن ڈاکٹر غافر شہزاد صاحب نے تیار کیا ہے۔ وہ مزار کے ڈیزائن کے متعلق کہتے ہیں ”میری خوش قسمتی کہ میں نے بابا بلھے شاہ کے مزار کا ڈیزائن آرکیٹیکٹ کی حیثیت سے تیار کیا اور اپنی نگرانی میں اس کی تعمیر مکمل کروائی۔ مزار کا درمیانی گنبد قدرے ارفع ہے جو بابا بلھے شاہ کا علامتی عمارتی اظہار ہے جب کہ چاروں کونوں پر چار چھوٹے گنبد اس کے مقلدین اور مریدین کو ظاہر کرتے ہیں۔ گنبد پر کلس نہیں ہے اور ڈیزائن بھی بابا بلھے شاہ کی شاعری کی طرح الگ اور منفرد مگر جدید عہد کا مظہر ہے، گول قوسیں بابا بلھے شاہ کی شاعری میں استعمال ہونے والے چرخہ کی علامت ہیں جب کہ چاروں جانب بڑی قوسیں زائرین کو خوش آمدید کہتی ہیں، مزار کا غیر روایتی ڈیزائن بلھے شاہ کی شاعری کی طرح اپنے عہد میں جدیدیت کی علامت ہے۔ “

مزار کے ساتھ ایک خوبصورت جامع مسجد بھی ہے۔ بابا بلھے شاہ کے مزار پر ہمیشہ رونق ہوتی ہے۔ ہم بھی جب گئے تو بڑی تعداد میں زائرین موجود تھے۔ مگر انتظامات میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ مزار پر ایک جانب ایک قوال صاحب کلام پڑھ رہے تھے۔ کلام تو خوبصورت تھا مگر آواز شاید کلام کے شایان شان نہیں تھی۔ پاس ہی ایک محترمہ ظاہر کر رہی تھیں کہ وہ وجد کی کیفیت میں ہیں اور دھمال نما کوئی چیز پیش کررہی تھیں۔ اور حیرت ہوئی کہ خواتین آ کر ان محترمہ کے ہاتھ چُوم رہی ہیں اور نوٹ بھی نچھاور کیے جارہے ہیں۔ مزار میں معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ محکمہ اوقاف کا احاطہ مزار میں دفتر بھی ہے۔ مگر وہ مزار میں ہونے والی عجیب و غریب حرکات سے ناجانے کیوں انجان بنے بیٹھے ہیں۔

بابا بلھے شاہ کی قبر کے پاس دیگر کئی لوگوں کی قبور بھی ہیں۔ جب جاکر نام پڑھے تو کوئی قبر کسی ایم پی اے کی تھی تو کوئی ایم این اے اور کوئی قبر کسی سیٹھ کی۔ تو سوچنے کی بات ہے کہ جس بلھے شاہ کو شہر کے سرکردہ لوگوں نے تدفین کی اجازت نہ دی تھی آج اس کے مزار میں سرکردہ لوگ دفن ہونے کی خواہش کرتے ہیں۔ لیکن شاید یہ بھی بلھے شاہ کی جیت نہیں۔ بلھے شاہ کی جیت تو اُس دن ہو گی جب اس کے مزار پر قوالی و دیے جلانے کی بجائے لوگ اس کے کلام کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ جب لوگ بُلھے کا صلح کُل کا رستہ اپنائیں گئے۔

لگ آکھے جاگ کھاں سویا، جان بُجھ کے دُکھ کیوں پاوناں ایں

ذرا آپ نہ ہَٹیں بُرائیاں توں، کڈھ مسئلے لوک سناوناں ایں

طلحہ شفیق

*ڈاکٹر فقیر محمد فقیر صاحب نے ذکر کیا ہے کہ مولانا محی الدین صاحب اور بابا جی کے زمانے میں بہت فرق ہے اس لیے بابا جی کا ان سے تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں نیز مولا بخش کشتہ کے بقول غلام محی الدین و غلام قصوری ایک ہی شحصیت ہیں، لیکن سائیں شہباز رحمن وارثی صاحب کے مطابق ”حافظ غلام مرتضی مخدوم قصور مولوی غلام محی الدین قصوری کے دادا جان ہیں۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).