ڈاکٹروں کا علم بغاوت اور عجلت


گلگت بلتستان کے نوجوان ڈاکٹروں پر مشتمل ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے 5 ستمبر سے گلگت بلتستان میں مکمل ہڑتال کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کا مطالبہ ہے کہ انہیں مستقل کیا جائے، جس کے لئے گلگت بلتستان کی مقامی اسمبلی نے ایکٹ منظور کیا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کا نمائندہ وفد اس بات سے بھی نالاں ہے کہ انہیں سیکریٹری ہیلتھ ظفر وقار تاج نے ”میں تو اپنے بچوں کا علاج آغا خان ہیلتھ میں کراؤں گا“ کہا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز اس بات سے بھی خوش نہیں ہے کہ ان کی مستقلی کی فائل سیکریٹری قانون کو کیوں بھیجی گئی ہے۔ گلگت بلتستان کے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے اپنے ان مطالبات پر گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کی جس کی رپورٹ اخبارات میں چھپی ہوئی ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ گلگت بلتستان گزشتہ ایک بڑے عرصے سے ڈاکٹروں کی کمی کا شکار ہوکررہ گیا ہے۔ سالانہ یہاں پر آسامیاں مشتہر نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کی قلت کو پورا کرنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ صحت کے عالمی ادارے WHO کے مطابق ایک ڈاکٹر روزانہ زیادہ سے زیادہ 20 مریضوں کو چیک کرسکتا ہے جبکہ گلگت بلتستان میں ڈاکٹرز اس ہندسے کو روزانہ عبور کرتے ہیں اور سو تک مریضوں کا چیک اپ معمول بنا ہوا ہے۔

گلگت بلتستان میں ڈاکٹروں کی قلت کو پورا کرنے کے لئے صوبائی حکومت نے جی بی اسمبلی سے ایک ایکٹ بھی پاس کررکھا ہے جس کے تحت 2 سال تک کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کو مستقل کیا جائے گا۔ اس ایکٹ پر جلد سے جلد عملدرآمد کرانا نوجوان ڈاکٹرز کی خواہش ہے۔ وزیراعلیٰ نے محکمہ صحت کو اپنے پاس رکھا ہوا ہے، اور ایک دلچسپ بات جو سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اس ایکٹ کی منظوری کے لئے تمام محکمہ جات بشمول محکمہ صحت کے تاثرات اور کمنٹس کو نظر انداز کرکے وزیرقانون نے اس ایکٹ کو خود چل کر منظور کرایا ہے۔

محکمہ صحت، محکمہ قانون، محکمہ مالیات سمیت دیگر نے اس ایکٹ پر خدشات کا اظہار کیا تھا کہ جوطریقہ کار وفاقی حکومت نے قانون کے ذریعے متعین کردئے ہیں ان میں مقامی اسمبلی کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی ہے۔ لیکن شاید ڈاکٹروں کی کمی کا معاملہ ان تاثرات سے زیادہ تھا جس کی وجہ سے ان تاثرات کو نظر انداز کرکے اسمبلی سے ایکٹ منظور کرایا گیا۔

چند روز قبل میرا ایک عزیز سٹی ہسپتال گلگت میں علاج کرانے کے لئے گیا۔ جہاں پر ڈاکٹروں کی جانب سے ہتک آمیزرویہ کی شکایت لے کر میرے پاس آگیا۔ اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہے کہ ڈاکٹروں کا رویہ مریضوں کے ساتھ کم و بیش ہمیشہ ہتک آمیز رہا ہے۔ مریضوں کو گڑگڑاتا چھوڑ کر اپنی مرضی کا کام کرنا بڑی حد تک معمول بن گیا ہے۔ میں اس جانب جانا نہیں چاہتا ہوں جہاں پر اپنی مرضی کے ادویات اور اپنی مرضی کے کلینک میں چیک اپ کی تجاویز دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر کے رویہ پر میں نے ڈائریکٹر صحت گلگت ڈاکٹر سید اسرار حسین سے رابطہ کیا کیونکہ بعض چیزیں خبر کے لئے نہیں ہوتی ہیں۔ ڈائریکٹر صحت گلگت ڈاکٹر اسرار حسین کا جواب بہت ہی خوبصورت تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”وزیراعلیٰ بھی کشروٹ کے ہیں، ہسپتال بھی کشروٹ کا ہے اور آپ خود بھی کشروٹ کے لہٰذا آپ یہ مسئلہ وزیراعلیٰ کے ذریعے حل کرائیں کیونکہ سٹی ہسپتال گلگت میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے علاوہ سارے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہیں اور سٹی ہسپتال کشروٹ کے حوالے سے میں کچھ بھی نہیں کرسکتاہوں۔“

چند روز قبل انڈیا کے ایک نیوز چینل میں بھی گلگت بلتستان میں صحت کی سہولیات اور طریقہ کار پر ایک ڈاکومنٹری چلائی گئی جو کہ یوٹیوب پر دستیاب ہے۔ اتفاق سے وہاں پر بھی زیادہ ترفوٹیجز سٹی ہسپتال کشروٹ کے ہی ہیں۔ جہاں پر گندگی کے ڈھیر کے لئے ہسپتال ایمبولنس کا استعمال، ڈاکٹر کی کرسی کے آگے جہاں مریضوں کو بٹھایا جاتا ہے ایک بلی کا بسیرا، خواتین کے لئے جگہ نہ ہونا سمیت متعدد مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔

گلگت بلتستان کے نوجوان ڈاکٹروں کے مطالبات بے شک مکمل جینوئن ہیں۔ لیکن اسی دورانیے میں ڈاکٹروں کا رویہ ایک بہت بڑا المیہ اور سوال بنا ہوا ہے۔ ایف پی ایس سی کے آسامیوں پر بغیر ایف پی ایس سی کے تقرری کے خواہشمند ڈاکٹرز سے چند روز کا صبر نہ ہونا انتہائی حیران کن ہے۔ جس مجلس میں سیکریٹری صحت سے منسوب الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اسی مجلس میں یہ بات بھی کی گئی ہے کہ سیکریٹری قانون سے کمنٹس کے بعد چیف سیکریٹری نے اس کی منظوری دینی ہے جس پر زیادہ سے زیادہ دس دن لگیں گے البتہ اس کا خود فالواپ کیا جائے تو 6 یا 7 دنوں میں بھی ہوسکتا ہے۔

اس مجلس میں موجود انتظامی افسران اس بات کی تصدیق کریں گے۔ جن دس دنوں کی مہلت مانگی گئی اس پر احتجاج کرنے والوں نے دس دنوں کی مہلت دے کر پریس کانفرنس کی۔ اسی اثناء میں سکردو میں دو روز تک ڈاکٹروں نے احتجاج کیا ہے۔ ضلع دیامر میں چار مہینوں سے ڈاکٹروں کا مکمل احتجاج ہے جنہیں ہر قسم کا آپشن دیے جانے کے باوجود بھی اپنا احتجاج ختم کرنے سے گریزاں ہیں۔ گلگت بلتستان کے کوٹے پر ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹرز کو کم از کم اس حساس موقع پر اس بات کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے کہ ایک طرف ڈاکٹرز کی کمی درپیش ہے تو دوسری طرف مسلسل احتجاج کیا جائے۔

جو لب و لہجہ پریس کانفرنس میں استعمال کیا گیا ہے وہ کسی سیاسی جماعت کا ضرور ہوسکتا ہے لیکن سب سے پڑھی لکھی تنظیم کے دعویداروں کا نہیں ہوسکتا ہے۔ چند سال قبل تک کبھی بھی ڈاکٹروں کے رویے کی شکایت نہیں ہوتی تھی اب اچانک مسلسل ڈاکٹروں کے رویے کی شکایات کا انبار لگنا اپنی جگہ پر ایک سوال ہے جس پر سوچنے کی ذمہ داروں پی ایم اے جیسی تنظیموں کی ہے جو کہ سردست غفلت کی نیند میں پڑی ہے۔

گلگت بلتستان میں ڈاکٹروں کی کمی کے مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف یہی مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ جس کوٹے پر علم حاصل کیا ہے اس کوٹے کا خیال ضرور رکھیں۔ اس سے قبل بھی آغا خان ہیلتھ کراچی کی سروے کا حوالہ دیا گیا تھا جس میں ڈاکٹروں کے رویے پر متعدد سوالا ت اٹھائے تھے۔ یہاں اس با ت کا ذکر بھی انتہائی ضروری ہے کہ ڈاکٹروں میں ایسے قابل فخر اور اپنے شعبے سے مخلص حضرات بھی ہیں جو ڈاکٹروں کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی سالوں سے شہر سے باہر غیر ضروری نکلے بھی نہیں ہیں، دیگر بھی متعدد ڈاکٹرز اپنے پیشے سے انصاف کررہے ہیں جس میں سب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کو انتظامی عہدوں پر ڈاکٹرز کی تقرری کو بند کرکے متعلقہ افسر ان کو لگانے کی روش کو بحال کرنا ہوگا ورنہ ڈاکٹر سیداسرار حسین جیسے لاچار اور اختیارات سے لاعلم حضرات انتظامیہ پر قابض ہوں گے۔ شنید ہے کہ ان کی سبکدوشی کو مدنظر رکھتے ہوئے فوراً ایک اور اہم آسامی بھی خالی کی گئی ہے تاکہ وہ وہاں پر کھپ سکیں۔ وزیراعلیٰ اصلاحات کا راگ الاپنے سے قبل اب ان حالات کو ضرور دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).