”بوٹا مسیح“ سے جان چھڑانے پر پی ٹی آئی حکومت کا شکریہ


میں کام کاج کے بعد شام کے وقت جب گھر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ میری بیوی برہنہ حالت میں ”بوٹا مسیح“ کے ساتھ لیٹی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بوٹا مسیح بھاگ کھڑا ہو ا۔ میں نے اس کا پیچھا کیا تو وہ گلی میں سے بھاگتا ہوا مین روڈ کی طرف چلا گیا اور غائب ہوگیا۔ جب بوٹا مسیح بھاگ رہا تھا تو میرے کچھ رشتہ داروں نے بھی اسے دیکھا ضرورت پڑنے پر وہ اس کی گواہی دے سکتے ہیں۔ یہ وہ تحریر ہے جو مسیحی افراد کی طرف سے طلاق کے لئے دائر دعوی کی بنیاد ہوتی ہے۔

لوئر کورٹس میں مسیحوں کے طلاق کے حوالے سے دائر کیسز کو اٹھا کر دیکھ لیں ہر تیسرے کیس میں یہی تحریر پڑھنے کو ملے گی۔ اس کی وجہ وہ کالا قانون ( شق ) ہے جسے مذہبی اقلیتوں کے دشمن جنرل ضیاء الحق نے کرسچین ڈائیورس ایکٹ کا حصہ بنا دیا تھا۔ بادی النظر میں ضیا ء الحق نے جو شق کرسچین ڈائیورس ایکٹ میں شامل کی تھی اس کا مقصد مسیحی جوڑوں میں طلا ق کی شرح کو کم کرنا اور مسیحی گھروں کو ٹوٹنے سے بچانا تھا مگر حقیقت میں اس کے پس پردہ محرکات مسیحی جوڑوں کو بدکردار ثابت کرنا اور تبدیلی مذہب پر مجبور کرنا تھا۔

بدکرداری ثابت نہ ہونے کی صورت میں مسیحی جوڑوں کے پاس ایک ہی رستہ تھا کہ دونوں میں سے کوئی ایک مذہب تبدیل کرلے۔ کیونکہ ریاستی قانون کے مطابق کسی ایک کے مذہب تبدیلی کی صورت میں نکاح ختم اور طلاق موثر ہو جاتی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں نے اس حوالے سے جو اعداد و شمار جمع کیے ہیں ان کے مطابق مسیحی کمیونٹی کے جن افراد نے مذہب تبدیل کیا ہے ان میں زیادہ تعداد ایسی افراد کی ہے جن کا مقصد طلاق کا حصول یا دوسری شادی تھا۔

اس سے پہلے کہ یہ بتایا جائے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے بوٹا مسیح سے جان کیسے چھڑائی ہے یہ جانا ضروری ہے کہ یہ بوٹا مسیح آیا کہاں سے تھا۔ اس کے لئے ہمیں مسیحوں کی شادیوں اور طلاق کے حوالے سے رائج قوانیں کا سرسری جائزہ لینا ہوگا۔ یہ امر حیرت سے خالی نہیں ہوگا کہ پاکستانی مسیحوں کے لئے شادی کا قانون بعد میں جبکہ طلاق کا قانون پہلے بن گیا تھا۔ انگریز بہادر نے مسیحوں کے لئے ڈائیورس ایکٹ 1869 ء میں متعارف کروا دیا تھا۔

جبکہ میرح ایکٹ 1872 ء متعارف کرایا گیا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ انگریز کے چلے جانے کے بعد ہی مسیحوں کی شادیوں اور طلاق کے حوالے سے یہی قوانین نافذ العمل رہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے برسر اقتدار آتے ہی اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے جہاں کئی آمرانہ قوانین تخلیق کیے وہیں پر کرسچین ڈائیورس ایکٹ میں بھی ترمیم کرکے اسے مسیحی خواتین کے لئے عذاب بنا دیا۔ جنرل ضیاء نے کرسچین ڈائیورس ایکٹ کی شق سات کو ختم کر کے طلاق ایکٹ کی شق دس کو طلاق کے لئے لازم قرار دیا جس کی وجہ سے مسیحوں کے پاس طلاق کے حصول کے لئے بدکرداری کے الزام کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہ رہا۔

کیونکہ شق دس کے مطابق بدکرداری کے جرم کے سوا کسی اور وجہ سے طلاق ہو ہی نہیں سکتی۔ جبکہ شق سات جسے کے جنرل ضیاء الحق کے حکم سے حذف کردیا گیا تھا اس کے مطابق بدکرداری کے علاوہ دیگر وجوہات کی بنا پر بھی طلاق کے لئے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ طلاق ایک نا پسندیدہ فعل ہے مگر جب صورتحال ناگزیر ہوجائے تو بنیادی حقوق کے تحت مذہبی احکامات کے تابع اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

سال 2016 ء میں امین مسیح نامی ایک شخص نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس میں اس نے موقف اختیار کیا کہ اس کی بیوی ایک باکردار عورت ہے ان کا نباہ نہیں ہورہا۔ وہ اکٹھے نہیں رہنا چاہتے مگر وہ اپنی بیوی پر بدکرداری کا الزام نہیں لگانا چاہتا اس پر اس وقت کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے بڑے چرچز اور مسیحی رہنماؤں کو نوٹسز جاری کر دیے۔ دوران بحث مسیحوں کے مذہبی رہنماؤں عدالت عالیہ کو بتایا کہ جنرل ضیا نے ڈائیورس ایکٹ کی شق سات کو ختم کرنے اور شق دس کو لازم قرار دینے کے حوالے سے ان سے مشاورت نہیں کی تھی جس پر عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے شق سات کو بحال کردیا اور حکم دیا کہ مسیحی مذہبی رہنماؤں کے مشاورت سے کرسچین میرج ایکٹ اور ڈائیورس ایکٹ میں بہتری لائی جائے۔

مگر اس وقت کی حکومت کو ایسا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی جس کی وجہ مسیحیوں کے کچھ سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کا پریشر تھا یہ وہ لوگ تھے جو سمجھتے ہیں کہ کرسچین ڈائیورس ایکٹ میں رد و بدل مذہبی احکامات کی خلاف ورزی ہوگا ( حالانکہ ایسا نہیں ہے ) پی ٹی آئی کی حکومت نے اس حوالے سے جرات دکھاتے ہوئے اس کالے قانو ن میں تبدیلی کی طرف پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے کرسچین میرج اینڈ ڈائیورس ایکٹ 2019 کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے امید ہے اب مسیحی خواتین بد چلنی اور بدکاری کے الزام سے بچ جائیں گی۔ اس دلیرانہ اقدام اور بوٹا مسیح سے جان چھڑوانے پر پی ٹی آئی کی حکومت مبارکباد کی مستحق ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).