سندھ طاس معاہدہ اور ہمارا پانی کا حق


پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی تنازعات سر اٹھاتے ہیں بڑھکیں لگانے والے فوراً کونوں کھدروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ سرحد کے \"roshan\"ایک طرف اگر سوچے سمجھے بغیر جوہری ہتھیار وں کے استعمال سے ایک ارب سے زیادہ آبادی کو تہس نہس کرنے کی باتیں ہوتی ہیں تو دوسری طرف سندھ طاس معاہدے سے دستبراد ہوکر ان دریاﺅں کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے جن کے بہاﺅ پر بیس کروڑ انسانوں کی زندگیوں کا انحصار ہے۔ ہمارا موضوع اس وقت جوہری ہتھیار نہیں بلکہ سندھ طاس معاہدہ ہے۔

پاکستان اور بھارت میں ایٹمی طاقت ہونا ہی مشترک نہیں بلکہ پانی کی قلت کا شکار ہونا بھی ایک یکسانیت ہے۔ ویسے تو پانی کی قلت کی سب سے بڑی وجہ ان دونوں ملکوں کی آبادی میں ہونے والا بے پناہ اضافہ ہے مگر المیہ یہ ہے کہ آبادی میں اضافے کی بنیادی وجہ کو نظر انداز کرکے پانی کی قلت کے مسئلے کو دیگر غیراہم وجوہات کے ساتھ جوڑدیا جاتا ہے۔ ان وجوہات میں سے جس وجہ پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے وہ ان ملکوں کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کے لیے 1960ءمیں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ ہے۔یہ بات شاید بہت سے ہم وطنوں کے لیے حیران کن ہو کہ جس طرح وطن عزیز میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ کے تحت تین مشرقی دریاﺅں ستلج، راوی اور بیاس کے پانی سے دستبردار ہو کر بہت بڑی غلطی کی تھی اسی طرح بھارت میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ مغربی دریاﺅں، سندھ، جہلم اور چناب کے پانی کے استعمال کے حوالے سے سندھ طاس معاہدے میں بھارت کے لیے جو شرائط رکھی گئی ہیں وہ ناقابل جواز ہیں۔ بھارتی حکمرانوں سے زیادہ اس طرح کی باتیں کشمیری سیاستدان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جب بھی مغربی دریاﺅں کے پانیوں کو کشمیری عوام کی بھلائی کے لیے استعمال کرنے بات کرتے ہیں، بھارت اور پاکستان کے درمیان طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ آڑے آ جاتا ہے۔

پاکستان اوربھارت کے درمیان نفرتوں کے بیج بونے والوں نے اپنی فصلوں کو پروان چڑھانے کے لیے اکثر سندھ طاس معاہدے کو کھاد کے طور پر استعمال کیا ہے۔ تین نسلوں کی جوانی دیکھنے والے پاکستان میں ہر عمر کے لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ ہندوستان نے سب سے پہلے تو نوزائیدہ پاکستان کی طرف بھارت سے آنے والی نہروں کا پانی روکا، پھر پاکستان نے جب اس جارحیت پر احتجاج کیا تو بین الاقوامی ملی بھگت سے اسے ایک ایسا معاہدہ منظور کرنے پر مجبور کیا گیاجس سے اسے تین مشرقی دریاﺅں کے پانی سے دستبردار ہونا پڑا۔ پوری دنیا میں معاہدے تنازعے ختم کرنے کی راہ ہموارکرتے ہیں لیکن سندھ طاس ایسا معاہدہ ہے جو آئے روز نئے سے نئے تنازعات کو جنم دینے کا باعث بنتا رہتا ہے۔ اگر کسی نے یہ معلوم کرنا ہو کہ نو آزاد پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور یہ معاہدہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں کیوں ناکام رہا توان عوامل و حقائق سے آگاہ ہونا ضروری ہے جن کی وجہ سے سندھ طاس معاہدہ کرنے کی نوبت آئی۔

برصغیر کی تقسیم کے وقت دریائی پانی کی تقسیم کے لیے کوئی علیحدہ اور خود مختار کمیشن قائم نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ کام ضمنی طور پر سرحدوں کے تعین کے لیے مقرر کردہ باﺅنڈری کمیشن کے سپرد تھا۔ بحیرہ عرب کی طرف بہنے والے پانچ بڑے دریا ستلج، راوی، چناب، جہلم اور سندھ ہندوستان یا اس کے زیر انتظام علاقوں سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے دریائے ستلج اور راوی سے نکلنے والی نہروں کا پانی ان علاقوں کی زرعی زمینوں کو سیراب کرتا تھا جو بعد میں پاکستانی پنجاب کا حصہ بنے۔ تقسیم ہند کے تقریباً 6 ماہ بعد دونوں ملکوں نے ان نہروں کے پانی کے بہاﺅ پر 30 دسمبر 1947 ءکو ” سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ “ کے نام سے معاہدہ کیا ۔ اس معاہدے کے ختم ہونے سے پہلے نہ تو کوئی نیا معاہدہ کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی اور نہ ہی زور دیا گیاجس کے بعد بھارت کی مرکزی حکومت نے نہیں بلکہ کے مشرقی پنجاب کی حکومت نے پاکستان کی طرف آنے والی نہروں کا پانی بند کر دیا۔ واضح رہے کہ اس واقعہ سے پہلے 21 اکتوبر 1947 ءکو بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کی پہلی جنگ شروع ہوچکی تھی ۔ نہروں کا پانی بند کرنے کے بھارتی پنجاب حکومت کے اقدام کو بعد میں ہندوستانی حکمرانوں نے اپنے حق میں آلہ کے طور پر استعمال کرنے کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جو اب تک جاری ہے۔ نہروں کے پانی کی بندش بعد ازاں دریاﺅں کے پانی کی تقسیم کے ایک ایسے معاہدے پر منتج ہوئی جسے ناصرف پاکستان اور بھارت بلکہ کشمیر میں بھی ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے۔

سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان دو بڑی جنگوں کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر کئی چھوٹی بڑی جھڑپیں اور جنگیں ہو چکی ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے درمیان کبھی یہ بات سامنے نہیں آئی تھی کہ بھارت نے مغربی دریاﺅں کے پانی کے پاکستان کی طرف بہاﺅ میں کوئی رکاوٹ ڈالی ہو یا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو۔جب سے سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں اس وقت سے پاکستان میں یہ کہا جاتا رہا کہ ہندوستان نے ہمیں غیر منصفانہ طور پر تین مشرقی دریاﺅں کے پانی سے محروم کر دیا لیکن 1980ء کی دہائی تک ایسی آوازیں بلند نہیں ہوئی تھیں کہ بھارت ان مغربی دریاﺅں کے پانیوں پر بھی نظریں جمائے بیٹھا ہے جن کے 97 فیصد پانی سے وہ پاکستان کے حق میں دستبرداری کا معاہدہ کر چکا ہے۔ واضح رہے کہ 1980ءکی دہائی کے بعد بھارت نے پاکستان پر دراندازوں کو کشمیر میں داخل کرانے کا الزام عاید کرنا شروع کیا ۔ اس کے بعد سے پاکستا ن کے عمومی مفادات کو بھارت سے جو خطرات لاحق ہیں ان میں سے ایک خطرہ مغربی دریاﺅں کے اس پانی کے بہاﺅ کو بھی ہے جسےبین الاقوامی طورپر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا ۔

پاکستان میں سندھ طاس معاہدے کو خوش دلی سے قبول نہیں کیا گیا ۔ اس معاہدے پر دستخط ہونے کے وقت سے اس کے متعلق پیدا ہونے والا احساس اب بھی یہاں موجود ہے ۔ مگر موجودہ دور میں بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ سندھ طاس معاہدہ درست تھا یا غلط بلکہ یہ ہے کہ اس معاہدے میں پاکستان کے لیے دریائی پانی کا جو حصہ طے کیا گیا تھا کیا وہ ابھی تک محفوظ ہے؟ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کشمیر کے سیاسی مسئلہ کو غیر ریاستی عسکری عناصر کے ذریعے حل کرنے کی جو کوششیں کی جاتی رہیں ان کی وجہ سے پاکستان کے لیے پانی کے تسلیم شدہ حق کو کئی قسم کے خطرات کی زد میں تصور کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے خطرات کا اسقاط اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ نہیں بلکہ امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو۔ اس طرح کی فضا قائم ہونے کے بعد ہی سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان کے لیے پانی کا طے شدہ حق محفوظ رہ سکے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments