نینی! یار یہ کیا بات ہوئی؟


جیونیوز میں ہر دوسری شام ایک خاتون میرے پاس آکر پوچھتی تھیں، ”مبشر، میں نے ایک رپورٹ بنائی ہے۔ آپ بلیٹن میں شامل کرلیں گے نا؟ “ میں روکھے لہجے میں کہتا، ”معذرت چاہتا ہوں۔ بلیٹن میں بالکل جگہ نہیں ہے۔ اگلے مہینے کی ستائیس تاریخ کو لگا دوں گا۔ “

وہ روہانسی سی ہوجائیں۔ میرا نام کھینچ کر لیتیں اور کہتیں، ”تب تک تو رپورٹ چلنے کے قابل نہیں رہے گی مبش شی ی ی ی یر۔ “ پھر ہم دونوں ہنس پڑتے۔ وہ جانتی تھیں کہ میں ان کی رپورٹ کو بلیٹن میں شامل کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔

ان کا نام نادیہ فیصل تھا لیکن سب انھیں نینی کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ جیو میں میرے سب سے اچھے دوستوں میں سے ایک تھیں۔ دن کا بڑا حصہ بظاہر گھبرائے ہوئے گزارتیں۔ باقی وقت میں ہنستی مسکراتی رہتیں۔

نینی انٹرٹینمنٹ رپورٹر تھیں۔ جیو میں آنے سے پہلے کسی انٹرٹینمنٹ چینل میں بڑی پوزیشن پر رہ چکی تھیں۔ جیو انگلش جوائن کیا لیکن چینل آن ایئر ہونے سے پہلے بند ہوگیا۔ ان کا جیونیوز تبادلہ کردیا گیا۔ نینی انگریزی بولنے اور انگریزی میں سوچنے والی رپورٹر تھیں لیکن تیزی سے اور اچھی طرح اردو چینل میں ایڈجسٹ ہوگئیں۔

نینی کے وائس اوور کا خاص انداز تھا۔ لمبے لمبے جملے لکھتیں اور سانس توڑے بغیر پڑھتی چلی جاتیں۔ اس ایک سانس میں زیر و بم، اسٹریسز اور پوزز خود بخود آتے جاتے۔ ہمارے پروڈیوسر عارف شاہ اکثر ان کی نقل اتارتے اور ہم سب ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے۔

ہمارا پیارا شہر کراچی کسی سیاسی جماعت کو پیارا نہیں۔ یہاں ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار، ٹریفک جام، کچرے کی خبریں سرخیاں بنتی ہیں۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر بہت کم ایونٹ ہوتے ہیں۔ نینی پھر بھی کچھ نہ کچھ ڈھونڈ ہی لاتی تھیں۔ فلم اور تھیٹر کی خبر نہ ملے تو تصویری نمائش پر رپورٹ بنا لاتی تھیں۔ میں خوش ہوجاتا تھا کہ بری خبروں کے درمیان ایک اچھی ہیڈلائن چلاسکوں گا۔

نینی شوبز کی دنیا کے بیشتر لوگوں کو جانتی تھیں اور سب انھیں جانتے تھے۔ بہت سے اسٹارز سے ان کی دوستیاں تھیں۔ ان کے شوہر بھی شوبز انڈسٹری سے منسلک ہیں اور غالباً نیوپلیکس سینما کی انتظامیہ سے تعلق ہے۔ اس سینماگھر کا افتتاح ہوا تو نینی نے مجھے پیسیفک رم کے چار ٹکٹ لاکر دیے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ برا مت مانیے گا، میں کسی رپورٹر سے، یا کسی اور سے بھی کچھ نہیں لیتا۔ آپ یہ ٹکٹ کسی اور کو دے دیجیے۔ نینی نے کہا کہ یہ ٹکٹ میری اس بہن کے لیے ہیں جو میری برتھ ڈے شیئر کرتی ہے۔ نینی اور میری بیوی کی سالگرہ کی تاریخ ایک ہے۔

کراچی میں جیونیوز اور جنگ کا دفتر ایک عمارت میں ہے۔ جیونیوز پانچویں اور چھٹی منزل پر، جنگ کے دفاتر پہلی منزل پر۔ ایک دن میں وہاں کھڑا راحت اللہ خان سے گفتگو کررہا تھا۔ راحت صاحب دلچسپ آدمی ہیں۔ اکیسویں صدی میں اٹھارہویں صدی کی مخلوق۔ نینی سیڑھیوں سے اتریں تو میں نے انگریزی میں حال چال پوچھا۔ راحت صاحب، جو کچھ دیر پہلے کسی بات پر میرا مذاق اڑارہے تھے، اچانک مرعوب دکھائی دیے۔ کہنے لگے، جیونیوز میں گوریاں بھی کام کرتی ہیں؟ یہ خاتون کس ملک کی ہیں؟ میں نے بتایا کہ جرمن نژاد ہیں اور آسٹریا کی شہری ہیں۔ راحت صاحب نے یقین کرلیا۔ نینی کوریج کرکے واپس آئیں تو میں نے یہ واقعہ سنایا۔ وہ بہت ہنسیں۔

نینی جرنلزم میں آنے سے پہلے برٹش ایئرویز میں کام کرتی تھیں۔ ایئر ہوسٹس تھیں اور دنیا گھومتی پھرتی تھیں۔ انھوں نے اس زمانے کے ایسے مزے مزے کے قصے سنائے کہ مجھے کئی کہانیوں کا مواد مل گیا۔ ایک کہانی یاد آرہی ہے جو میری کتاب شکرپارے میں شامل ہے۔ برطانیہ کے کوئی صاحب فالج کی وجہ سے معذور تھے۔ ان کی بیگم نے انھیں کمائی کا ذریعہ بنالیا۔ انھیں پاکستان لاتیں اور تنہا واپس چلی جاتیں۔ پھر برطانوی سفارت خانے سے درخواست کی جاتی کہ ان کی اہلیہ کی طبیعت خراب ہے۔ انھیں واپس لے جانے کے لیے فلاں شخص کا ویزا لگادیا جائے۔ فلاں شخص بعد میں سلپ ہوجاتا۔ نینی نے بتایا کہ انھوں نے کئی افراد کو اس معذور آدمی کو برطانیہ پہنچاتے دیکھا۔

ایک بار میرے بچوں نے فرمائش کی کہ بلی پالیں۔ ہم نے اس سے پہلے کبھی کوئی جانور نہیں پالا تھا۔ میں نے دفتر میں کسی سے معلوم کیا تو نینی کو خبر ہوگئی۔ وہ مجھے بتانے آئیں کہ کون سی بلی پالنی چاہیے، کہاں سے ملے گی، اس کے کھانے پینے کا خیال کیسے رکھنا ہے، کھاجا کہاں سے ملے گا، بیمار ہوجائے تو علاج کہاں سے کروانا ہوگا۔ نینی نے کئی بلیاں پالی ہوئی تھیں۔ ان سب کے انوکھے نام تھے۔ مجھے ایک بلی کا نام یاد ہے، چائنہ۔ نینی نے کہا، ”مبشر، بلی پالنا اچھا لگتا ہے۔ اس سے محبت ہوجاتی ہے۔ لیکن بلی کی عمر کم ہوتی ہے۔ وہ انسان کے مقابلے میں جلدی بوڑھی ہوجاتی ہے۔ جب اس کا انتقال ہوتا ہے تو دل کٹ جاتا ہے۔ وہ تکلیف برداشت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ “

ہم نے اس کے بعد چار بلیاں پالیں۔ کسی بلی کا انتقال تو نہیں ہوا لیکن امریکا آنے سے پہلے انھیں دوسروں کو دینا پڑا۔ ان کے بچھڑنے سے ایسی اداسی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ بار بار نینی کی بات یاد آئی۔

امریکا آنے کے بعد بھی میں نینی کو فون کرتا رہا۔ کبھی کسی خبر کی تصدیق چاہی۔ کبھی کسی فنکار کا فون نمبر مانگا۔ وہ اسی طرح کھلکھلاتی ہوئی آواز میں بات کرتیں۔ میں پوچھتا، کیسی ہیں آپ؟ وہ جواب دیتیں، بالکل ٹھیک۔ مجھے یقین آجاتا۔

کچھ دیر پہلے فیس بک پر فاطمہ سلیم کی پوسٹ دیکھی کہ نینی کا انتقال ہوگیا ہے۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ کئی دوستوں کو فون کرکے پوچھا۔ سب نے یہی بتایا۔ اب سوچ رہا ہوں کہ نینی سے بات ہوتی رہتی تھی۔ انھوں نے ایک بار بھی نہیں بتایا کہ وہ کینسر کا شکار ہوگئی ہیں اور علاج کروارہی ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی!
نینی! یار یہ کیا بات ہوئی؟

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi