ایک فرضی نشست اور مفروضہ مکالمہ


’خوش آمدید! ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے درمیان آج آپ جیسی ہستی اس پینل ڈسکشن میں ہمارے معزز مہمانان اور قارئین کو اپنے فیض سے روشناس کرانے کے لیے موجود ہے۔ قبل اس کے کہ ہم باقاعدہ اپنے مکالمے کا آغاز کریں، میں چاہوں گا کہ قارئین کے سامنے آپ کی ہمہ گیر شخصیت کو مختصراً بیان کروں۔

جناب کا تعلق ایک معروف یونیورسٹی سے ہے جہاں ریسرچ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اس کے علاوہ جناب نے فلسفے اور سیاست کے موضوع پر کچھ کتب بھی تصنیف کی ہیں، جن میں سے ایک کی رونمائی گزشتہ دنوں اس ہی ہال میں ادبی شخصیات کی موجودی میں اس ہی خاکسار نے کی تھی۔ اس کے علاوہ بیوروکریسی میں بھی ایک گزیٹڈ افسر کی حیثیت سے ان کے کردار، ایمان داری اور نرم مزاجی کو سراہا جاتا ہے۔ میں گزارش کروں گا پینل ڈسکشن کا حصہ بننے والے تینوں مہمانان سے کہ وہ جناب کے منفرد خیالات اور اکثر متنازع افکار کے حوالے سے جو بھی سوالات کرنا چاہیں از راہِ کرم ان کا آغاز کرکے باقاعدہ ہماری آج کی محفل اور مکالمے کی ابتدا کریں۔ وہ خیالات و افکار جنھوں نے حال ہی میں دونوں دائیں اور بائیں بازو کے حلقوں میں اپنے نظریات کا کافی دم دار تعارف کروا کے ملکی اور یہاں تک کہ غیر ملکی ادبی، سیاسی و مذہبی حلقوں میں، یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا، ایک کھلبلی سی مچا دی ہے۔

ممبر اول: سر، یہ بات حقیقت ہے کہ آپ جن نظریات کی حمایت یا تجدید کرتے ہیں، علوم کے ان شعبہ جات میں آپ کی کوئی باقاعدہ سند یا تعلیم نہیں ہے، جب کہ تعلیم کے جس شعبے میں آپ نے گریجویشن کی ہے وہ فلسفہ اور انگریزی ادب ہے جس کا تعلق کہیں سے بھی آپ کے مذہبی رجحانات، دعووں اور تنقید سے نہیں جڑتا، جب کہ سیاسی میدان میں بھی آپ مذہبی علما کی دخل اندازی سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کے تاثرات کا بیان کافی مددگار ثابت ہو گا۔

’اگر کسی کی قابلیت کو جانچنے اور ان کے استدلال میں وزن تلاش کرنے کا واحد ذریعہ مخصوص شعبوں میں یونیورسٹی کی ڈگری ہی ہے تو ہاں آپ کا اعتراض کچھ غلط نہیں لیکن اگر ہم پیمانہ دلیل اور برہان (لوجک اینڈ ریزن) کو رکھیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے اور اس سے قطعِ نظر کہ آپ ان کی بات سے اتفاق رکھتے ہیں یا اختلاف، کیا وہ اصلاً عقلی اور منطقی بنیادوں پر سیاق و سباق اور معاملے کے محلِ وقوع کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے تصورات پیش کررہے ہیں یا محض خیالی اور بے بنیاد قیاس آرائیاں یا کم زور یا نامکمل اصرار کررہے ہیں۔

آج کے انفارمیشن کے زمانے میں یہ طے کرنا انتہائی آسان ہے۔ دوسری بات، دوبارہ، یہ کہ اگر معیار یونیورسٹی ہی کی سند ہے تو آپ کے کتنے مذہبی پیشوا جن کی ہر ہر بات لوگوں کے اجتماعی ردِعمل، ایمان اور تحریکوں کا تعین کرتی ہے، ان میں سے کتنے حکومت کے تصدیق شدہ اور زیرِنظام تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں؟ سیاسی و حکومتی معاملات سنجیدہ اور حساس نوعیت کے ہوتے ہیں، اس میں بھی اگر پیشوائی طرز، فرقہ وارانہ منافرت، اور خانقاہی نظام رائج ہوجاتا ہے اگر ریاستی معاملات بھی ربیوں، پادریوں یا ملاؤں کے ہاتھ میں دے دیے جائیں تو۔ ہماری مذہبی و سیاسی تاریخ اس حقیقت سے عبارت ہے۔ گو کہ معاشرے کی اصلاح اور اس کو مجموعی طور پر گمراہی سے بچانے کے لیے مذہب سے اخذ کردہ اصول کا اطلاق ضروری ہے اور اس کی یقین دہانی کے لیے پارلیمان اور آزاد عدلیہ کو بحال کرنا ضروری ہے، مذہبی خبط، انانیت اور اوہام اس میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ’

ممبر دوم: سر ابھی آپ ہی کی بات سے ایک سوال کرنے کی جسارت کروں گا۔ آپ نے اکثر اپنے بیانات میں کہا کہ استدلال کا معیار منطقی اور استنباط اصل و مصدقہ ماخوذ سے ہونا چاہیے جب کہ کسی بھی دلیل کے سیاق و سباق اور محل کو سمجھ کر ہی ان کی موزونیت اور اطلاق کا اعادہ کیا جا سکتا ہے۔ کیا آپ کے نزدیک آپ اپنے آرگیومینٹ/ دلائل رکھتے ہوئے اپنے بتائے ہوئے معیار کا مکمل احاطہ کرتے ہیں ہمیشہ؟ اور یہ کہ کیا آپ مطمئن ہیں کہ آپ کے ہم عصر اور آپ سے قبل علمی شخصیات نے بھی اس ہی معیار کو بخوبی ملحوظِ خاطر رکھا ہوا ہے؟

’جناب میں ایک طالب ِعلم ہوں اور اس سے زیادہ میرا کبھی دعویٰ نہیں رہا البتہ جو اصول و معیار میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیے ہیں وہ میرے مرتب کردہ نہیں بلکہ خود میں ان کی پیروی کرتا ہوں، اسی طرح جس طرح علمی تاریخ کا ہر مستند قاری اوردیانت دار طالب آج تک کرتا آیا ہے۔ یہی وہ اصول ہیں جو اصل کی جعل سے اور دلیل کی موضوع سے تمیز کرتے ہیں۔ میرا دعویٰ یہ نہیں کہ میری تمام آرا اور تمام استدلال اس معیار اور اصول پر بخوبی پورے اترتے ہیں، گرچہ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ تحقیق و مباحثے کے تمام اصول و ضوابط پر احسن طریقے سے سب سے پہلے خود اپنی دلیل کو پرکھوں قبل اس کے کہ عوام و خواص میں اس کی حجت کروں اور اس پر جرح کروں تو جی اصول میں وہی اپناتا ہوں، تمام کا احاطہ کرنے کی ناتواں کوشش کرتا ہوں البتہ اگر کوئی محسن اصلاح یا کسی چوک کی جانب نشان دہی کرے تو اس کو بغیر کسی دفاع یا صفائی کے قبول کرنے کی مشق بھی ساتھ رہتی ہے۔

آپ کی دوسری بات کا جواب، مجھ سے قبل اور میرے ہم عصر کچھ لوگ ہیں جن کی آرا اور جن کے نتیجہ خیز جوابات سے میں خالص علمی اور منطقی بنیادوں پر موافقت رکھتا ہوں اور کچھ سے میں قطعی اختلاف کرتا ہوں البتہ یہ دونوں صورتیں شخصیات اور ذاتی پسند نا پسند سے بالاتر ہوں اور محض علم اور اصلاح کی غرض سے ہوں تب ہی مفید ہیں ورنہ تاریخ گواہ ہے فساد کی بنیاد بنتی ہیں۔ ’

ممبر سوئم: اگر بالخصوص آپ کی مذہبی دلچسپی کے حوالے سے گفتگو کی جائے، تو آپ کے مطابق اس وقت نوجوانوں کو جو مذہبی لٹریچر اور جس طرح ان کی تربیت ہو رہی ہے، کیا وہ قابلِ قبول ہے خود مذہبی معیار سے اور کیا اس سے کسی خیر کی امید ہے یا شر کا اندیشہ ہے؟

’میری ناقص رائے میں اس وقت نوجوانوں کو انتہائی حساس تربیت اور سائکولوجیکل ری ہابلٹیشن کی ضرورت ہے۔ ان کو دہایوں سے جو شر پسندانہ اور متشدد مواد مذہبی تعلیمات کے نام پر سکھایا جارہا ہے وہ نا صرف دنیاوی معاملات میں ان کی پسپائی کا سبب ہے بلکہ خود مذہبی منافرت اور گم راہی کا بھی باعث ہے۔ نوجوانوں کی منطقی صلاحیتوں کو مفلوج کرکے ان کو اس بات پر معاشرتی دباؤ ڈال کر قائل کیا جارہا ہے کہ سوال پوچھنا، دلیل مانگنا، اعتراض کرنا، فلسفہ پڑھنا، تدبر کرنا گم راہی اور بذاتِ خود ارتداد اور بغاوت ہے جب کہ ان پر لازم کیا جارہا ہے کہ وہ مذہب کی نہیں بلکہ مذہبی پیشواؤں کی تقلید اور پیروی کریں اور اس کے علاوہ سب الحاد ہے۔

اس متشدد رویے کی وجہ سے بلاشبہ دلیل پسند اور آزادی پسند لوگ مذاہب سے متنفر ہو کر سچ میں الحاد کی جانب بڑھ رہے اور بڑھ چکے ہیں۔ مجھے کوئی قید محسوس نہیں ہوتی یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کہ یہ دور دورِ الحاد ہے اور اس میں مذہبی انتہا پسندی اور ملحدانہ سوچ کا انتشار اور خلیج صرف بڑھے گی اور فساد ہی کا دور دورہ ہو گا۔ اس میں میری تجویز یا نصیحت یہ ہوگی کہ عقل، استدلال اور اعتدال کا راستہ اپنایا جائے اور ہر قسم کی افراط و تفریط سے بچا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).