سفارت کاری، سیکیورٹی اور پاکستان ڈاکٹرائن


آج کل پاکستان کے طول وعرض میں صرف تین الفاظ کی گردش جاری ہے۔ سفارت کاری سیکیورٹی اور توسیع۔ بہت سوچا ان تینوں دریاؤں کو ایک ہی کوزے میں کیسے بند کیا جائے۔ اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ تینوں ہی موضوع اتنے خشک ہیں کہ ہم یہی سوچ کہ گھبرا جاتے ہیں کہ اللّہ جانے اپنے تئیں کوئی قلمی جہاد کر بھی لیں۔ تو اس تحریر کے ہم اکیلے قاری نہ ہوں۔

لیکن بھلا ہو ہمارے قلمی مجاہدوں اور ماہرانہ تجزیہ نگاروں کا۔ جس دن سے مودی سرکار نے آرٹیکل کا شوشہ چھوڑا۔ قلمی مجاہدین غزوہ ہند سے لے کر سفارت کاری، خارجہ پالیسی، جغرافیائی حدود ہر موضوع پر اپنی اپنی ماہرانہ رائے سے اربابِ اختیار سے لے کر عام مخلوق خدا کو اپنی ماہرانہ رائے اور مشورے دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے۔

اچھی بات ہے آخر خود کو زندہ قوم ثابت کرنے کے ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں۔ جو قوموں پر آتے ہیں۔ عقل، شعور، دانش، فہم وفراست، فکروعمل اور قومی یکجہتی، ملی حمیت کو جانچنے کے جو پیمانے بنی نوع انسان نے تشکیل دیے ہیں۔ وہ ایسے ہی مواقعوں پر سامنے آتے ہیں۔ جب ہمیں دنیا پر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم کتنے یکجا ہیں اور کتنے وفادار ہیں اپنی سر زمین کے ساتھ۔ لیکن ان سب معاملات کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی ترجیحات طے کرتے ہوئے زمینی حقائق، خارجی و داخلی معاملات، ملکی معیشت، سیاسی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیز تشکیل دی جائیں۔

کشمیر کے مسئلے کو چھیڑ کر بھارت نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی چلائی ہے۔ اس کا ادراک تو اب ان کو خود بھی ہو گیا ہے۔ ایک بہت پرانی کہاوت ہے اور زبان زد عام بھی ہے۔ کہ سیانا کوا اپنے پنجوں سے ہی پھنستا ہے۔

کشمیر کے معاملے میں بھی بھارت سرکار سے یہی چوک ہو گئی۔ کوا پنجے پھنسا بیٹھا ہے۔ تین ہفتے گزر گئے۔ وادی میں کرفیو ویسے ہی نافذ ہیں ہر دروازے پر فوج لگا دی ہے۔ کاروبار زندگی مفلوج ہے۔ میڈیا کی رسائی ناممکن ہے۔ اور ساری دنیا میں ڈھنڈورا بھی پٹ گیا۔ اپنی تعداد اور فوجی وسائل کے باوجود بھارت کرفیو نہیں ہٹا رہا۔ صرف عام کشمیری عوام کے ری ایکشن کے خوف سے اتنا لرزہ طاری ہے۔ توکرفیو ختم کرنے کی صورت میں کشمیر میں احتجاج کی صورت میں پاکستان کی فوج اپنے کشمیری مسلمانوں کو ہر گز تنہا نہیں چھوڑے گی۔ اس کا واضح اعلان کیا جا چکا ہے کہ آخری گولی اور آخری سپاہی تک جنگ جاری رہے گی۔

لیکن یہ ساری باتیں مشروط ہیں بھارت کے اگلے قدم سے۔ جو پہلے مقام پر ہی رکی ہوئی ہے ہنوز دلی دور است۔ لیکن ہماری کچھ قلمی، کچھ منہ زبانی، کچھ کرپشن والی سیاست کے یتیم، اور زیادہ تر پاکستان سے باہر رہنے والے دہری شہریت والے سر سے پاؤں تک حب الوطنی میں کے جذبے سے سر شار خود ساختہ دانشوروں نے تو اودھم ہی جوت رکھا ہے۔

کوئی فوج کو چوڑیاں دکھا رہا ہے۔ کوئی مصر ہے کہ کشمیر کا سودا کر دیا۔ کوئی سفارت کاری ناکام ہونے کا بھونپو بجائے جا رہا ہے۔

حکمت ودانش کا ایک دریا ہے جس میں سب غوطہ زن ہیں۔ خواہ تیراکی آتی ہو یا نہیں۔ اور روز ایک نیا گوہر آبدار قوم کے سامنے پیش نظر کرتاہے۔ سفارت کاری کی روز ایک نئی تعریف سامنے آ تی ہے۔

پاکستان کشمیر کے معاملے پر جو سفارت کاری کر رہا ہے۔ اس سے بہتر سفارت کاری کیا ہو سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر شخص خود کو امور خارجہ کا ماہر ثابت کرنے پرکمر بستہ ہے۔ سارے مجاہد بین الاقوامی تعلقات کے ازخود سند یافتہ ہو گئے ہیں۔ سفارت کاری کے بارے میں ہمارا ناقص علم بس یہ کہتا ہے۔

سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے جذبات نہیں ہوتے۔ اس کے سینے میں دل بھی نہیں ہوتا۔ اور یہ ہر طرح کے احساسات سے عاری ہوتی ہے۔ سفارت کاری کے صرف مفادات ہوتے ہیں۔ ملک کی سیکیورٹی سے وابستہ مفادات، ملک کی معیشت سے وابستہ مفادات، ملک کے اندرونی استحکام سے وابستہ مفادات۔

سفارت کاری کا بام عروج بھی یہی مفادات ہوتے ہیں۔ اور زوال کا باعث بھی یہی مفادات بنتے ہیں۔ کیونکہ سفارت کاری حکمرانوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ ریاستوں کے درمیان ہوتی ہے۔ اچھی اور کامیاب ڈپلومیسی بے رحم ہوتی ہے۔ جس کی حکمت عملی جتنی زیادہ موثر، جاندار اور دانش پر مبنی ہو گی اتنی ہی کامیابی حاصل ہوگی۔ کشمیر کے مسئلے میں پاکستان کو جنگ میں پہل کرنے کا مشورہ دینے والے، جہاد کے نعرے لگانے والوں کے جذبات کی قدر کی جا سکتی ہے۔

مگر معذرت کے ساتھ جو لوگ اس سلسلے میں فوج کو کمزوری کے طعنے دے دے کر تھک نہیں رہے۔ اور آ گے بڑھ کر حملہ کرو، مار دو، مر جاؤ کے نعرہ ہائے مستانہ بلند کر رہے ہیں ان کے لیے عرض کہ یہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کا معاملہ ہے۔ وہ دور نہیں جب میمنہ اور میسرہ، پیدل اور سوار والی جنگ ہوتی تھی۔ اب جنگ پیلٹ گن سے شروع تو ہو جائے گی۔ لیکن خاتمہ کس ہتھیار پر ہو گا۔

سوچیں اسی لیے بھارت کرفیو لگا کر معاملات کو مقبوضہ وادی کے اندر ہی رکھنا چاہتا ہے۔ یہ لائن آ ف کنٹرول کی چھیڑ چھاڑ تو عوام کی توجہ ہٹانے اور پاکستانی فوج کو انگیج رکھنے کا بہانہ ہے۔ اصل کہانی وادی کے اندر ہی طے ہوگی۔ اور اسے کشمیری حریت پسند خود طے کریں گے۔ اور پاکستان مکمل طور پر ان کی پشت پر ہوگا۔ اس وقت جو خارجہ محاذ پر۔ کامیاب سفارت کاری یہی ہے کہ پوری دنیا میں بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا جائے۔ اس میں اس وقت جس ٹیم ورک کی ضرورت ہے۔ وہ پاکستان میں موجود ہے۔ سول ملٹری ادارے ایک پیج پرہیں۔ اور بہترین ٹیم تشکیل پا چکی ہے۔

اور ان تمام حالات میں سب سے اہم کردار جنرل باجوہ صاحب کا ہے۔ وزیراعظم کا ان کو ایکسٹینشن دینے کا فیصلہ پاکستان کی سیکیورٹی اور داخلی اور خارجی محاذ پر جاری معاملات کو سنبھالنے میں بہترین فیصلہ ثابت ہوگا۔ اور اس کے ثمرات پاکستان کی معیشت میں نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں سے ابہام ختم ہو رہے ہیں۔ ملک بتدریج استحکام کی جانب گامزن ہے۔

سفارت کاری کے محاذ پر بھارت کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ انشا اللہ کشمیر کی جنگ ڈپلومیسی اور ہائبرڈ وار سے ہی جیتی جائے گی۔ اسی لیے پاکستان ڈاکٹرائن کو سمجھنے کی کوشش کریں اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ اسی میں ملک کی بہتری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).