دہشت گردی کی اقسام


حقیقت یہ ہے کہ جو قومیں طاقتور ہیں وہ جو چاہیں انسانیت کہ ساتھ کریں، ملکوں پر بلا جواز حملے کریں، شہروں پر بمباری کریں، لوگوں کو گرفتار کرکے مقدمہ چلائیں، جیلوں میں بند رکھیں۔ انہیں یہ آزادی اس لیے ہے کہ طاقت ان کے پاس ہے، جو لوگ یا قومیں کمزور ہیں، انہیں نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا بھی حق نہیں ہے۔

دہشتگردی کی تاریخ میں کوئی ایک قسم نہیں رہی ہے بلکہ یہ وقت، ضرورت اور حالات کے تحت بدلتی رہی ہے۔

1۔ مثلا ایک مرحلہ میں دہشتگردی کا استعمال حرف افراد کے خلاف ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب بادشاہ یا حکمران مطلق العنان ہوتے تھے۔ اس لیے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اگر انہیں راستہ سے ہٹا دیا جائے تو اس صورت میں ان سے نجات مل سکتی ہے۔ لہذا اس صورت میں دہشتگردی ایک ظالمانہ اور مطلق العنان حکومت اور نظام کو ختم کرتی ہے مثلا جرمنی میں ہٹلر کے پر بھی کئی قاتلانہ حملے ہوئے کیونکہ اس کو اقتدار سے ہٹا کر نمائندہ حکومت قائم کی جائے، یہ دہشتگردی کو ایک جواز فراہم کرتی ہے۔

2۔ دہشت گردی کی دوسری شکل میں وہ مذہبی اور سماجی تنظیمیں ملوث ہوتی ہیں جو ریاستی اور حکومتی دہشتگردی کا شکار ہوتی ہیں۔ لہذا اپنے خلاف ہونے والی نا انصافیوں کے ردعمل میں یہ ان افراد کے خلاف دہشتگردی کے اقدامات کرتی تھیں جو ان کے مصیبتوں کے ذمہ دار ہوتے تھے۔

اسلامی تاریخ میں ہم اس کی مثال ملک الجبال حسن بن صباح کے ہاں دیکھتے ہیں۔ حسن نے فدائن کی ایک جماعت کو منظم کیا تھا۔ لہذا جب ان کی جماعت کے خلاف ریاست، حکومت، حکمران اور علماء نے اقدامات کیے اور پروپیگینڈا کیا تو انہوں نے چن چن کر ایسے افراد کو نشانہ بنایا۔

3۔ دہشتگردی کی تیسری قسم کولونیل ازم اور اس کے مسلط کے خلاف ابھری۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کولونیل طاقتوں نے اپنے دور حکومت میں نہ صرف اپنے مخالفوں اور مخالف تحریکوں کو سختی سے کچلا، بلکہ ایسی پالیسیوں پر بھی عمل کیا جو عوام کے مفادات کے خلاف تھیں۔ مثلا ہندوستان میں برطانوی حکومت کی طرف سے محدود جمہوری اختیارات کے خلاف تقسیم بنگال 1905، جس میں خفیہ جماعتوں اور ان کے کارکنوں نے برطانوی عہدیداروں کو قتل کیا اسی طرح یہ تحریک پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔

4۔ دہشت گردی کی سب سے ظالمانہ شکل ریاستی دہشت گردی ہوتی ہے کیونکہ جب ریاست اپنے مفادات ک تحفظ میں اپنے مخالفوں کو قتل کرے، ایذائیں دے، جیلوں میں بند کرے اور اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بنائے تو اس کے خلاف کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ اس کی مثال امریکہ کی سی آئی اے، اسرائیل کی موساد جیسی خفیہ ایجینسیز ہیں جن کا کام اپنے سیاسی حریفوں کا دوسرے ملکوں میں قتل کرنا ہے۔

اسکی دوسری مثال پاکستان کے بعض جہادی گروپس ہیں جو کشمیر میں جا کر وہاں کے سیاسی صورتحال پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان اپنے ملکوں میں دہشت گردی کے واقعات کو اور ایک دوسرے کی ایجینسیوں کو ملزم ٹھراتے ہیں۔

5۔ دہشتگردی کی ایک وہ شکل ہے جس میں فرقہ وارانہ اور سیاسی جماعتیں ملوث ہوتی ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ تشدد کے واقعات کے ذریعے حکومت کو کمزور کر سکیں۔ تاکہ عوام میں یہ تاثر ہو کہ حکومت ان کے تحفظ میں ناکام ہو گئی ہے۔

انکا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ یہ دہشتگردی کے اقدامات عوامی جگھوں پر کرتے ہیں مثلا بسوں یا مارکیٹ میں بموں کے دھماکے کرنا، ریلوے پٹڑیوں کو اکھاڑنا وغیرہ ہیں جن میں مرنے والے غریب ہوتے ہیں۔ اس لیے اس سے خوف و دہشت تو پیدا ہوتی ہے مگرشور نہیں برپا ہوتا، دیکھا جائے تو اس سے حکومت کے اعتماد میں بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔

اس مرحلہ پر یہ سوال ہے کہ کیا دہشت گردی مسائل کا حل ہے؟

تاریخ سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ مزاحمتی تحریکیں جنہوں نے مسلسل جدوجہد کے ساتھ ساتھ خود کو اخلاقی اور ذہنی طور پر بھی مضبوط کیا وہی کامیاب رہتی ہیں

اسکی ایک مثال جنوبی افریقہ کی افریقی نیشنل کانگریس ہے جس نے مسلسل جدوجہد کے پہلو بہ پہلو ذہنی جنگ لڑی، جس نے اسے نسلی امتیاز کے خلاف بین الاقوامی ہمدردی دی۔ فلسطین، چیچنیا اور عراق کے عوام اپنی آزادی کی جنگ انہی بنیادوں پر لڑ کر جیت سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).