جمعیت ، جامعہ پنجاب اور موجودہ صورتِ حال


گزشتہ کئی دنوں سے مختلف تعلیمی اداروں (جن میں جامعہ پنجاب سرِ فہرست ہے ) میں جمعیت کے مثبت اور منفی کردارکے حوالے سے \"ali-raza\"بہت سی تحاریر نظر سے گُزریں۔ ان تحریروں میں زیادہ تر ماضی میں ہونے والے واقعات کو ضبطِ تحریر لایا گیا اور جامعہ پنجاب میں جمعیت کی موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ چونکہ راقم 2011 سے تا حال جامعہ پنجاب میں مقیم ہے لہذا اپنا فرض سمجھتا ہے کہ ہم سب کے مصنفین اور قارئین تک جامعہ پنجاب میں جمعیت کی موجودہ صورت حال کے بارے میں معلومات پہنچائے۔

اسلامی جمعیت طلبہ اس وقت جامعہ پنجاب میں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔پانچ سال پہلے کی اگر بات کی جائے تو اُس وقت چند مخصوص شعبہ جات لاءکالج، ہیلے کالج اورکیمیکل انجینئرنگ میں جمعیت کا طوطی بولتا تھا۔ ان شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ارکانِ جمعیت زیادہ تر ناظمِ علاقہ، ہاسٹل ناظم اور پرائس کنٹرول جیسی ذمہ داریاں نبھاتے تھے۔ لاءکالج میں تو ان کا اس حد تک اثرو رسوخ تھا کہ ہر سیشن میں 15 سے 20 سیٹوں پر داخلے ناظمِ لاءکالج کی مرضی سے ہوا کرتے تھے۔اس کے علاوہ کینٹین،ہاسٹل حتیٰ کہ پلے گراؤنڈز میں بھی جماعتیوں کا غلبہ تھا۔

جمعیت کے ”مجاہدین“ سے پالا پڑنے کے حوالے سے میرے کئی دوست اور سینئرز اپنے ذاتی تجربات بیان کر چکے ہیں ۔ میرے پاس بھی ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے لیکن جو واقعات پہلے سے بیان کیے جا چکے ہیں ان سے مشابہت رکھنے والے واقعات کی بجائے موجودہ صورتِ حال پر روشنی ڈالنا زیادہ مناسب ہے۔

پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کا زوال اس وقت شروع ہوا جب جمعیت کے اپنے ہی ایک سابق ناظم نے ناظم علاقہ اویس عقیل کو مئی 2012 میں پندرہ نمبر کینٹین پر قتل کر دیا۔ راقم اس وقت وہاں موجود تھا جب بے رحم قاتل نے گولیوں کی بوچھاڑ کی۔ عام طلباءکے علاوہ تمام ”مجاہدین“ بھی بے سروسامانی کے عالم میں ادھر اُدھر بھاگ نکلے۔ اویس عقیل جو شاید موقعہ پہ ہی دم توڑ چکے تھے کو سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے طالبعلم کلیم خان (کلیم خان ذاتی طور پر جمعیت کے ناقدین میں سے تھے) نے اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالا۔ آج جمعیت سے محبت کرنے والے لوگ بڑے زور و شور سے ”شہدائے جمعیت“ کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن اویس عقیل کی” شہادت“ کے بارے میں بات کرنے سے کتراتے ہیں جس کی مثال عزیزم ساجد سلطا ن کی تحریر ”پنجاب یونیورسٹی جمعیت۔۔۔جوابِ دعویٰ “سے دی جاسکتی ہے جس میں انہوں نے کئی ”شہدائ“ کے قاتلوں کے بارے میں بڑے طنزیہ انداز سے سوال اٹھا یا لیکن اویس عقیل کے قاتل کے بارے میں سوال کرنے کی جسارت نہ کی۔۔۔کیوں؟

الغرض اویس عقیل کے قتل کے بعد جامعہ پنجاب میں کافی دنگے فساد شروع ہوگئے جن میں ’مجاہدین ‘کی جانب سے اساتذہ کی پٹائی، وی سی ہاؤس کا گھیراؤ اور ہاسٹلز کے باہر فائرنگ قابلِ ذکر ہیں۔ ان تمام سر گرمیوں کو عوامی میڈیا نے کافی کوریج دی جس سے میرے ذاتی خیال کے مطابق جمعیت کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا۔

پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے زوال کی دوسری بڑی وجہ گلگتی،بلوچ اور پختون طلباءکا باہمی اتحاد ہے۔ اس وقت یہ اتحاد بظاہر جمعیت سے زیادہ طاقتور نظر آتا ہے۔کئی دفعہ اس اتحاد اور جمعیت کے درمیان با قاعدہ ”ڈانگوں سوٹوں“ سے لڑائی بھی ہوئی ہے جس میں کئی غیر جانبدار پنجابی و سرائیکی طلباءکی ہمدریاں پختونوں کے ساتھ دیکھنے میں آئیں اور متعدد بار صوبائی عصبیت کا پلڑہ” نظریے “کے مقابلے میں بھاری رہا۔

موجودہ تناظر میں جامعہ پنجاب میں جمعیت کی اہمیت ایک شو پیس سے زیادہ نہیں رہی۔ لاءکالج جو جمعیت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا میں اس وقت مخلوط نظام تعلیم ہے جو پہلے نہیں ہوا کرتا تھا۔ لڑکے لڑکیاں کوریڈور میں اکثر باتیں کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں جو ’مجاہدین‘کی گرفت سے کافی حد تک آزاد ہیں۔ ہاسٹلز میں جمعیت کے غلبہ میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، اب طاقت کے زور پر کوئی بھی جماعتیا غیر قانونی طور پر کسی کمرے پر قابض نہیں ہو سکتا، طلباءسے زبردستی مالی اعانت لینے کا تصور ختم ہو چکا ہے۔غیر قانونی داخلے ،طلباءپر تشدد، زبردستی جمعیت کے پروگرامز میں شرکت اورہاسٹلز میں میوزک پر پابندی جیسے اقدامات متروک ہو چکے ہیں۔اس سے زیادہ کیا آزاد ی ہو سکتی ہے کہ خاکسار اس وقت یہ تحریر پنجاب یونیورسٹی کے ایک ہاسٹل میں بیٹھ کر ہی لکھ رہا ہے۔

آخر میں پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی موجودہ صورتِ حال پر برادرم ماجد نظامی کا یک سطری تبصرہ:

” اب توصرف لاش رہ گئی ہے جس کو دفنانا باقی ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments