ہٹلر سے مودی تک: سب مایا ہے


Keshav Baliram Hedgewar

انیس سو پچیس میں ناگپور کے ڈاکٹر کیشو بالی رام ہیگواڑ نے راشٹریہ سیوامک سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد ہندوستان کو خالص آریائی ہندو راشٹر بنانا تھا۔ ہٹلر کی طرح آر ایس ایس نے بھی اپنی خالص آریائی شناخت ابھارنے کے لیے سواستیکا کا نشان اپنایا۔ آر ایس ایس کی بنیادی قیادت جو مہا دیو سداشیوگول والکر، ونائک دمودر ساورکر اور ہیگواڑ پر مشتمل تھی اسے ہندو راشٹر کی منزل مسولینی کی فاشسٹ اور ہٹلر کی نازی آئیڈیا لوجی میں صاف نظر آرہی تھی۔ گولوالکر نے اپنے ایک مضمون میں ہٹلر کی یہود دشمن پالیسی کو سراہتے ہوئے مسلمانوں کا ذکر کیے بغیر لکھا۔ ”غیر ملکی عناصر کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو اکثریتی گروہ میں ضم ہو کر اس کا کلچر اپنا لیں یا پھر دھرتی چھوڑ دیں۔ یہی اقلیتی مسئلے کا درست اور منطقی حل ہے“۔

اکتیس جنوری انیس سو اڑتالیس کو جب آر ایس ایس کے ایک سابق رکن ناتھورام گوڈسے نے گاندھی جی کو قتل کردیا تو آر ایس ایس پر پابندی لگا دی گئی۔ انیس سو اکیاون میں آر ایس ایس نے ڈاکٹر شیاما پرشاد مکھر جی کی قیادت میں بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے اپنی ذیلی سیاسی شاخ تشکیل دی۔ جن سنگھ نے انیس سو باون میں ملک کے پہلے عام انتخابات میں لوک سبھا کی صرف تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ انیس سو ستاون کے انتخابات میں اسے چار، باسٹھ میں چوہتر، سڑسٹھ میں پینتیس اور اکہتر کے الیکشن میں بائیس نشستیں ملیں۔ انیس سو ستتر کا الیکشن آر ایس ایس نے اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے خلاف بننے والے اتحاد جنتا پارٹی کے بینر تلے لڑا لیکن جب انیس سو اسی کے انتخابات میں جنتا پارٹی کو شکست ہوگئی اور اتحاد بکھر گیا تو بھارتیہ جن سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے جنم لیا۔

نئی پارٹی نے انیس سو چوراسی کے انتخابات میں دو سیٹیں حاصل کیں لیکن اس کے فوراً بعد ایودھیا میں رام مندر بناؤ تحریک کے نتیجے میں اسے انیس سو نواسی میں پچاسی نشستیں، اکیانوے میں ایک سو بیس اور چھیانوے میں ایک سو چھیاسٹھ نشستیں ملیں۔ بی جے پی نے سادہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود حکومت بنانے کی کوشش کی مگر سولہ دن بعد یہ حکومت مستعفی ہوگئی لیکن جب انیس سو اٹھانوے میں ایک سو بیاسی سیٹیں ملیں تو پہلی مرتبہ آر ایس ایس کو بی جے پی کی شکل میں واجپائی کی قیادت میں حکومت بنانے کا موقع ملا لیکن دو ہزار چار کے انتخابات میں بی جے پی گجرات میں قتلِ عام سے پیدا ہونے والی بے یقینی اور اقتصادی ترقی کے ثمر میں عام آدمی کو شریک نہ کرنے کے سبب انڈیا شائننگ کا نعرہ لگانے کے باوجود کانگریس کے ہاتھوں شکست کھا گئی اور دو ہزار نو میں بھی اسے اندرونی انتشار کے سبب صرف ایک سو سولہ نشستیں ملیں جو پچھلے الیکشن کے مقابلے میں اکیس کم تھیں۔ تو پھر ایسا کیا معجزہ ہوا کہ بی جے پی کے سیاسی اتحاد نے دو ہزار چودہ کے الیکشن میں اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور بھارت کو تیس سال بعد ایسی حکومت مل گئی جو اپنی معیاد مکمل کرنے کے لیے سیاسی اتحادیوں کے رحم و کرم پر نہیں۔ کیا یہ گجرات ماڈل کی کامیابی ہے یا سن تیس کے جرمن کارپوریٹ ماڈل کی چمتکاری ہے۔

انیس سو تیس، بتیس اور تنیتیس کے پارلیمانی انتخابات میں جرمن کارپوریٹ سیکٹر نے شاید یہی سوچ کر انتخابی ریس میں ہٹلر نامی گھوڑے پر شرط لگائی تھی۔ کیونکہ جرمن کیمونسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹس پر تو شرط نہیں بدی جاسکتی تھی۔ چنانچہ منطقی انتخاب مضبوط اور فیصلہ کن شخصیت کا مالک ہٹلر ہی تھا جو جمہوریت اور کثیر جماعتی نظام کی افادیت پر یقین رکھے نہ رکھے مگر ایک مستحکم معیشت کے ستون بننے والوں کے لیے راستہ صاف کرسکے۔

ہٹلر کے مددگار سرمایہ کاروں کو اس کا صلہ جنگی معیشت کو تیزی سے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے اسٹیل سازی، اسلحہ سازی، کیمیکل سازی کے ٹھیکوں کی شکل میں ملا۔ بھاگتے یہودیوں کا کاروبار اونے پونے داموں ہاتھ آگیا اور چند برس بعد روس سے فرانس تک کا مقبوضہ علاقہ، کاروبار اور بینک، مشرقی یورپ کے کنسنٹریشن کیمپوں کے قیدی بشمول لاکھوں غلام مزدوروں سستی یا مفت افرادی قوت کی صورت میں دستیاب ہو گئے۔ اور ان سب سے حاصل ہونے والا منافع غیرجانبدار سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کرایا جانے لگا۔

سن چوراسی میں جب آر ایس ایس کے سیاسی بازو بھارتیہ جن سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے روپ میں پہلا الیکشن لڑا تو اس کے ہاتھ لوک سبھا کی صرف دو سیٹیں آئیں۔ چنانچہ بی جے پی نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے رام مندر کی تعمیر کا ایشو اٹھایا اور اگلے پانچ قومی انتخابات میں اس کا ووٹ بینک ساڑھے تین فیصد سے اٹھ کر بیس فیصد کے اوسط پر آگیا۔ لیکن دو ہزار نو کے الیکشن میں بی جے پی کا ووٹ بینک کم ہو کر تقریباً انیس فیصد پر پہنچ گیا۔ اور پھر دو ہزار چودہ کے انتخابات میں اسی بی جے پی نے اکتیس فیصد ووٹروں کا اعتماد حاصل کرلیا۔ یعنی دیگر پارٹیوں کے تقریباً بارہ فیصد ووٹروں نے اپنا وزن بی جے پی کے پلڑے میں ڈال دیا۔ مگر کیوں؟

انیس سو اکیانوے میں جب بھارت کی بند سوشلسٹ معیشت کو آزاد روی کے راستے پر ڈالا گیا تو لائسنس جاری کرنے والے بابو کا زوال شروع ہوا اور مقامی کارپوریٹ سیکٹر نے پھلنا پھولنا شروع کیا۔ ٹاٹا اور برلا آزادی سے پہلے سے بھی کانگریس کی مالی معاونت میں پیش پیش تھے اور آزادی کے بعد بھی۔ سن اسی کے عشرے میں لائسنس راج کی سرپرستی میں دھیرو بھائی امبانی کا ریلائنس گروپ ابھرنا شروع ہوا۔

مگر راجیو گاندھی کے قتل کے بعد سے جب بھارت میں یک جماعتی کے بجائے لگاتار مخلوط مرکزی حکومتوں کا چلن شروع ہوا تو ریلائنس گروپ نے ایک ہی ٹوکری میں انڈے رکھنے کے بجائے انھیں کئی چھوٹی بڑی ٹوکریوں میں پھیلا دیا تاکہ جو بھی اقتدار میں آئے اس سے گروپ کی گروتھ میں فرق نہ پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت ریلائنس اثاثوں کے اعتبار سے بھارت کا سب سے طاقتور صنعتی گروپ ہے۔ ظاہر ہے باقی کارپوریٹ سیکٹر نے بھی کارپوریٹ لیڈر کی تقلید میں یہی روش اختیار کی تاکہ فائدہ ہو نہ ہو مگر منافع میں خسارہ نہ ہو۔

بی جے پی کو چندہ دینے والا سب سے بڑا روایتی گروہ وہ مڈل کلاس تاجر طبقہ تھا جسے دین و دنیا کی یکساں فکر رہتی ہے۔ جب انیس سو اٹھانوے میں اٹل بہاری واجپائی نے مخلوط حکومت بنائی تو بیس سے زائد اتحادی جماعتوں کو ساتھ لینے کی مشکل میں ان کے ہاتھ بندھے رہے اور بی جے پی کی جو بھی اقتصادی فلاسفی تھی اس پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کرپائی۔ لہذا واجپائی جی کو من موہن سنگھ اقتصادی ماڈل پر ہی تکیہ کرنا پڑا۔ چنانچہ ترقی کی شرح ضرور چار سے سات فیصد تک رہی لیکن اس کا شہری مڈل کلاس کو فائدہ پہنچا اور دیہی ہندوستان میں رہنے والی ساٹھ فیصد آبادی کی روزمرہ زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ لہٰذا دو ہزار چار کے انتخابات میں چند بڑے شہروں میں انفراسٹرکچر کی ترقی تو انڈیا شائننگ کے الیکشن نعرے میں دکھائی دے رہی تھی مگریہ نعرہ مزدور اور کسان کے پلے نہیں پڑ رہا تھا۔ نتیجہ بی جے پی اتحاد کی شکست اور کانگریس کی فتح کی صورت میں نکلا۔

مگر بھارت کے ایک کونے میں سن دو ہزار میں ایک ایسی تبدیلی آئی جس کا اس وقت کسی نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ مغربی بھارت کی ریاست گجرات میں نریندر مودی بی جے پی کے وزیرِ اعلیٰ بن گئے۔ اور انھوں نے گجرات کی سوشیو پولٹیکل لیبارٹری میں اقتصادی لبرلائزیشن اور اندرونی فاشزم کی ایک موثر کاک ٹیل تیار کی جس کے نتیجے میں ایک جانب تو بڑے سرمائے کو ریاست میں راغب کرنے کے لیے زمین کے حصول، قرضوں کی دستیابی اور ماحولیاتی قوانین کو لچکدار اور سہل بنایا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3