ہٹلر سے مودی تک: سب مایا ہے


دوسری جانب ووٹ بینک کو بڑھانے اور پکا کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کا سستا ٹکاؤ پائیدار راستہ اختیار کیا گیا جس کا نتیجہ فروری مارچ دو ہزار دو کے عظیم گودھرا بلوے کی شکل میں نکلا۔ جس طرح نازی جرمنی میں اکثریت کو مصروف رکھنے کے لیے یہودیوں کی شکل میں ایک پنچنگ بیگ فراہم کردیا گیا تھا اسی طرح گجرات میں مسلمان اقلیت جو کل ریاستی آبادی کا لگ بھگ نو فیصد ہے شدت پسند تجربات کے لیے پنچنگ بیگ بن گئی۔ اس کے بعد مودی نے لگاتار چار ریاستی انتخابات بھاری اکثریت سے جیتے اور ریاست پر عملاً یک جماعتی بلکہ یک شخصی حکومت قائم ہوگئی۔

کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ایسی حکومتوں سے معاملہ کرنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔ چنانچہ جب بنگال نے ٹاٹاکے نینو کار پروجیکٹ کو کسانوں میں زرخیز زمین سے محروم کی بے چینی کے سبب ہری جھنڈی دکھا دی تو مودی نے اس پروجیکٹ کو گجرات منتقل کرنے کی فوری پیش کش کردی۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے صنعتی بدامنی سے پاک ریاست کی مارکیٹنگ کی گئی اور فورڈ اور جنرل موٹرز، اسرائیلی کمپنیاں اور ہندوستان کے تمام بڑے بڑے ٹیلی کام، پیٹرو کیمیکل اور دیگر بھاری مصنوعات ساز گجرات آنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کی مجموعی اقتصادی گروتھ تو دس برس کے عرصے میں نو فیصد کا ہندسہ چھو کر ساڑھے چار فیصد تک پہنچ گئی لیکن اس دوران گجرات کی معیشت دس فیصد سالانہ کی بڑھوتری ہی دکھاتی رہی۔

ایک اندازے کے مطابق بھارت میں ہر سال ایک کروڑ نوجوان ملازمت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں اور انھیں کھپانے کا مطلب یہ ہے کہ ترقی کی سالانہ شرح کم ازکم سات سے آٹھ فیصد کے درمیان ہونی چاہیے۔ کانگریس کے پہلے دور میں (دو ہزار چار تا نو ) ترقی کی شرح کم و بیش سات تا آٹھ فیصد رہی لیکن جب دو ہزار آٹھ میں عالمی کساد بازاری شروع ہوئی تو بھارت کو ساٹھ ارب ڈالر سالانہ کما کر دینے والی آئی ٹی اور آؤٹ سورسنگ انڈسٹری کو بھی بیرونی آرڈرز ملنے کم ہوگئے اس کا اثر دیگر شعبوں پر بھی پڑنے لگا لہٰذا شرح ترقی آہستہ آہستہ گرتی چلی گئی اور دو ہزار گیارہ کے بعد اس کا اوسط چار تا پانچ فیصد کے درمیان آگیا۔

ایسے موقع پر کانگریس کے امیج پر جلتی پر تیل کا کام پے درپے سامنے آنے والے میگا کرپشن اسکینڈلز نے کیا۔ پہلے ایشین گیمز کے تعمیراتی کام میں اربوں کا گھپلا، پھر ٹو جی ٹیلی کام لائسنس کی نیلامی میں لگ بھگ سترہ ارب روپے کا گھپلا، پھر کوئلے کی کانوں کی لیز من پسند صنعت کاروں کو ٹکے سیر بیچنے کا اسکینڈل۔ ساتھ ہی ساتھ کنگ فشر ایئرلائن کا دیوالیہ اور سیکڑوں دیگر کمپنیوں کا ڈوبنا۔ چنانچہ مڈل کلاس نے کرپشن کے خلاف مزاحمت شروع کردی اور پہلے انا ہزارے کی تحریک اور پھر اروند کیجری وال کا ظہور ہوا۔ دوسری جانب گجرات میں مودی کی اقتصادی پرفارمنس کے سبب ہندوستان کا کارپوریٹ سیکٹر اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ جب تک کانگریس کے وزنی کچھوے کو گجرات ماڈل کا اقتصادی خرگوش پیچھے نہیں چھوڑے گا تب تک معیشت لنگڑاتی ہوئی چلتی رہے گی۔

بی جے پی نے اپنی پے درپے دو شکستوں سے یہ سبق لیا کہ صرف مذہبی شدت پسندی ایک حد تک ہی بیچی جا سکتی ہے۔ لہٰذا بی جے پی نے بدعنوانیوں کے خلاف مڈل کلاس کی بے چینی کو ہائی جیک کرکے کیش کرانے کا فیصلہ کرلیا اور رام مندر کے معاملے کو انتخابی تانگے کی پچھلی سیٹ پر بٹھا دیا۔ لیکن مودی کے ماتھے پر چونکہ دو ہزار دو کے مسلم کش فسادات کا ٹیکہ لگا ہوا تھا اس لیے بی جے پی مودی کو وزیرِ اعظم کا امیدوار بنانے کے بارے میں خاصی ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔ چنانچہ کارپوریٹ سیکٹر نے براہ راست مودی کو اگلے وزیرِاعظم کے طور پر اتارنے کا بیڑہ اٹھایا۔ سب سے پہلے رتن ٹاٹا نے دو ہزار بارہ میں یہ خواہش ظاہر کی کہ ملک کو مودی جیسا شخص چاہیے۔ پھر ریلائنس کے امبانی برادرز نے بھی اس بات کو آگے بڑھایا۔

دو ہزار بارہ میں ہی دو برس بعد ہونے والے انتخابات کی حکمتِ عملی کارپوریٹ بورڈ روم میں تیار ہونے لگی اور یہ نقشہ بنایا گیا کہ انتخابی مہم میں ڈجیٹل بمباری کی جائے بالکل ایسے جیسے بالی وڈ کی کسی بھی فلم کو سو کروڑ روپے کے کلب میں لانے کے لیے فلم ریلیز ہونے سے پہلے ایسا اشتہاری طوفان اٹھایا جاتا ہے کہ عام آدمی اس طوفان کی تاب نہ لاتے ہوئے بادلِ نخواستہ فلم دیکھ ہی لیتا ہے۔ اور جب پہلے ہفتے میں فلمساز کو سو کروڑ روپے کا ہدف حاصل ہوجاتا ہے تو دوسرے ہفتے میں فلم ڈوبے یا تیرے اس کی بلا سے۔ چنانچہ جب ستمبر دو ہزار تیرہ میں اتخابات سے سات ماہ پہلے مودی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو اس مہم کا نقطہ صرف اور صرف مودی کے گجرات اکنامک ماڈل کو بنایا گیا۔ بی جے پی نے بطور پارٹی ثانوی حیثیت اختیار کرلی تاکہ جو لوگ بی جے پی کے نظریے سے الرجک ہیں وہ مودی کے نام پر ہی ووٹ ڈال دیں۔ ذرایع ابلاغ میں اشتہاری سونامی آگیا اور اس قدر اشتہاری گڑ ڈالا گیا کہ ہر ٹی وی چینل مودی مودی کرنے لگا۔ کانگریس اور مودی کی اشتہاری مہم کا تناسب ایک اور پچاس ہوگیا۔

کہاں بی جے پی دو ہزار نو کے انتخابات میں بھارتی سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے پندرہ سو ارب ڈالر کے کالے دھن کی سوئس بینکوں سے واپسی پر کمربستہ تھی اور کہاں دو ہزار چودہ کے انتخابات میں مودی کے انتخابی فنڈ میں تیرہ سو چونتیس بڑے صنعت کاروں نے چندہ دیا جب کہ کانگریس کو محض چار سو اٹھارہ سرمایہ کاروں کی جانب سے ہی چندہ مل پایا۔

اب جب کہ مودی وزیرِ اعظم بن گئے ہیں کیا وہ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد کے روسی ماڈل کی طرح سرکاری سیکٹر کو ٹکے سیر طفیلی سرمائے کو دے دیں گے یا پھر ترقی کا چینی ماڈل اپنائیں گے جس میں سرکاری، نجی اور بیرونی ساتھ ساتھ برابری سے چلتا ہے۔ ماڈل کوئی بھی ہو دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ دو ہزار انیس کے انتخابات تک بھارتی کسانوں کی خود کشیوں میں کتنی کمی آتی ہے جو اس وقت بارہ ہزار سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ نکسل تحریک کا زور کتنا ٹوٹتا ہے جو اس وقت شمالی اور وسطی بھارت کے قبائلیوں کی زمین چھن جانے کے خوف پر پھل پھول رہی ہے۔ اور مڈل کلاس کو کیا ملتا ہے۔ مودی نے جو خواب دکھائے ہیں اگر وہ اگلے تین برس کے دوران پورے ہوتے نظر نہ آئے تو اس سے اگلے دو برس میں مودی کا سحر ٹوٹنا شروع ہوجائے گا اور یہی وقت ہوگا جب گجرات ماڈل نمبر ٹو سامنے لایا جائے یعنی فرقہ وارانہ کارڈ۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔

(مئی 2014)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3