مرنے کے مخلتف طریقے اور قومی ترجیحات


دنیا بھرمیں لوگوں نے نہ مرنے کے طریقے ایجاد کیے ہوئے ہیں البتہ جیسے جیسے سائینس ترقی کر رہی ہے مرنے کے طریقے بھی جدید ہوتے جارہے ہیں۔

جاپان میں مرنے کے لئے خود کُشی کرنا پڑتی ہے، ورنہ آپ کو مرنے کے لئے بہت انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کچھ جاپانی بیچارے تو انتظار کر کر کے ہی مر جاتے ہیں۔ جاپانی اب تقریباً سو سال کے ہو کے مرتے ہیں، جاپان میں چونکہ دو تین نسلیں طویل العمری کی وجہ سے ایک ساتھ رہ رہی ہوتی ہیں لہٰذا سب کو آپس میں محبت سے رہنا پڑتا ہے۔ اِسی لئے، جب بڑے مرنے کا طویل انتظار کر رہے ہوتے ہیں تو اُن کی اولادوں کی کئی نسلیں بھی اُن کے اِس انتظار میں شریک ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ ترکے سے ملنے والا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔

جاپان کے برعکس، انڈیا میں مرنے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ معاشرے نے حکومت کے تعاون سے اور حکومت نے معاشرے کے تعاون سے ایسے کئی طریقے ایجاد کر رکھے ہیں کہ آپ کو مرنے کی تگ و دَو نہیں کرنی پڑتی۔ بھوک سے مرنا، بے ہنگم ہجوم میں کچل کے مر جانا، حکومت کے بنائے ہوئے جعلی دہشت گرد حملے میں معصوم شہریوں کا مر جانا، کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں حملہ آور فوجیوں کا مر جانا وہ طریقے ہیں جو ایک عرصے سے رائج الوقت ہیں۔

انڈیا کی چونکہ آبادی بہت زیادہ ہے لہٰذا موجودہ طریقے ناکافی ثابت ہؤا۔ چناچہ انڈین سائنسدانوں نے مودی جی کو مشورہ دیا کہ انڈین ائر فورس کے جہاز جو کہ اب ناکارہ ہو چکے ہیں کو اپنے پائیلٹوں سمیت پاکستان میں پھینکا جائے۔ اس سے ایک تو جہازوں سے جان چھوٹے گی اور دوسری پائیلٹوں سے۔ سو انڈیا کے نالائق اور سُست کپتانوں کو پرانے جہاز دے کر کہا جاتا کہ وہ پاکستان پر جا کر حملہ کریں۔ اُنہوں نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی تھیں۔

وہ بھی سیدھا جہاز اُڑا کے پاکستان کی حدود میں لے آتے، پٹاخ سے کسی جنگل میں دے مارتے اور پھر نزدیکی گاؤں کے بچوں کے آنے کا انتظار کرتے تا کہ تھپڑ کھاتے ہوئے تصویریں بنائی جا سکیں۔ تسلی سے تصویریں بنوا کر پھر پاکستانی فوجیوں کے ساتھ چائے پینے کے سفر پر روانہ ہو جاتے۔ جی بھر کر چائے پینے کے بعد اپنے جہاز کا ملبہ پاکستان میں ہی چھوڑ کر انڈیا روانہ ہو جاتے جہاں مودی سے تھوڑی بہت ڈانٹ ڈپٹ کھانے کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں گزارنے چلے جاتے۔

مگر وزیر اعظم مودی بھی کوئی بچے نہیں ہیں۔ وہ اپنے کپتانوں کی چال پوری طرح سمجھ گئے اور اس کا حل یہ تلاش کیا کہ کسی اور اتحادی ملک کے کپتانوں کو قربانی کا بکرا بنانا شروع کیا۔ اپنے کپتانوں کی بجائے ایک دوسرے ملک کے کپتان پاکستان پر حملے کے مِشن پر بھیجنے کا آغاز ہی کیا تھا کہ پہلا کپتان ہی اپنے جہاز سمیت زمیں بوس ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا، توبہ تائب اور جہاز غائب۔ تنگ آ کر مودی جی نے پُرامن رہنے کا ارادہ کر لیا اور مزید جہاز بھیجنے بند کر دیے۔ اور اپنی ملکی حدود میں ہی اپنے جہاز اور ہیلی کاپٹر عملے سمیت گرا کر ہدف حاصل کر لیا گیا۔ اس پر پاکستان میں انجمن کباڑیاں نے شدید احتجاج کیا کہ اُن کا کاروبار شدید مندی کا شکار ہو گیا ہے۔

آپ حیران ہوں گے کہ جہاں جنگیں نہیں ہوتیں وہاں لوگ کیسے مرتے ہیں۔ حیرانی کی بات نہیں ہے۔ دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں مرنے کے لئے کسی لمبے چَوڑے پلان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر آپ کسی بڑے عہدے پر فائز ہیں تو آپ جلد مر جائیں گے۔ کیونکہ آپ کی کوئی نہ کوئی غلطی تلاش کر لی جائے گی اور پھر آپ کو قومی مفاد میں مرنا پڑے گا۔

اس سلسلے میں امریکہ نے بے مثال ترقی کی ہے۔ وہاں مرنے کے متبادل دریافت کر لئے گئے، یعنی اگر کسی کو اس جہان سے چلتا کرنا ہے تو اب ضروری نہیں رہا کہ اُس کے مرنے کا انتظار کیا جائے۔ اس کی بجائے، ایسے لوگوں کو خلا میں ٹھہرانے کا انتظام کیا جا رہا ہے جس کے لئے خلا میں بڑی بڑی رہائش گاہیں بنائی جائیں گی۔

البتہ پاکستان اس سلسلے میں زیادہ ترقی یافتہ نکلا۔ امریکہ میں جب کوئی لاعلاج مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اُسے ہسپائسز میں داخل کر دیا جاتا ہے جہاں اُس کا تکلیف دہ علاج بند کر دیا جاتا ہے اور اُسے مَن پسند طریقے سے زندگی کی آخری ایام گزارنے میں مدد دی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کے برعکس ایسے مریض کو گھر پر ہی رہنے دیتے ہیں تاکہ بیوی کا سایہ اُس پر برقرار رہے۔ جیسا کہ مشہور ہے کہ ایک دائمی مریض میاں کو اپنی بیگم ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے لے گئی۔

مریض کا معائنہ کرنے کے بعد، ڈاکٹر نے بیوی کو الگ بلا کر کہا کہ مریض کو علاج کی نہیں آرام کی ضرورت ہے۔ آپ اِن کے ساتھ نرم اور میٹھے لہجے میں بات کیا کیجئے اور ڈانٹ ڈپٹ کم کر دیجئے۔ بعد میں میاں نے بیگم سے پوچھا کہ ڈاکٹر نے کیا علاج تجویز کیا ہے تو بیگم نے بتایا کہ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ تم لاعلاج ہو۔

دنیا میں ہر جگہ بس ایک دفعہ ہی مرنا کافی سمجھا جاتا ہے۔ احتیاطاً مرنے والے کا نام نوٹ کر لیا جاتا ہے اور مرنے کا انتظار کرنے والوں کی فہرست سے خارج کر دیا جاتا ہے تا کہ دوسرے لوگ اپنی باری کا فائدہ اُٹھا سکیں۔ اب اگر مرنے والا خود یا اُسکے عزیز دوبارہ اُس کے مرنے کی خواہش ظاہر کریں تو اس کا سخت نوٹس لیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کو اپنی موت تک زندہ رہنا پڑتا ہے۔

البتہ وطنِ عزیز میں لوگوں کو بار بار مرنے کی سہولت حاصل ہے۔ اس مقصد کے لئے عشق ایجاد کیا گیا ہے۔ عشق کے کما حقہٗ اظہار کی خاطر شاعروں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے چونکہ خواتین کئی مردانہ کاموں میں ہاتھ ڈال رہی ہیں حتی کہ چند شوہروں کو خاتونِ خانہ اور خاتونِ خانہ کو شوہر کا کردار ادا کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے، چنانچہ شاعر حضرات کے ساتھ ساتھ شاعر خواتین بھی عشق کے میدان میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

عاشق لوگ بار بار اور بات بات پر مرنے کا عہد کرتے ہیں۔ ابتدا میں وہ محض محبوب کی اداؤں پر ہی مرنے کا اظہار کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن اداؤں پر وہ مرنے کی قسمیں کھا رہے ہوتے پیں، اُن میں اکثر سے خود محبوب صاحب جو درحقیقت صاحبہ ہی ہوتی ہے، قطعی طور پر لاعلم ہوتا ہے یا ہوتی ہے۔ سوچئے کہ مرنے کا کتنا ناول طریقہ ہے کہ آپ ایک ایسی چیز پر مر رہے ہیں کہ جس کا وجود ہی نہیں۔ اور محبوب ہے کہ آپ کے اس مرنے کو حقیقی قربانی ہی سمجھ بیٹھا ہے یا بیٹھی ہے اور جواباً مرنے کو تیار ہے۔ اور دیکھئے مرنے مرنے کے اس کھیل میں زندہ رہنا ہاتھ سے کہیں نہیں جاتا۔

اس سلسلے میں ایک مشہور پنجابی گانا بھی ہے جس میں گلوکارہ صاف صاف بتا رہی ہے کہ جب تم یعنی عاشق، آہستہ سے میرا یعنی گلوکارہ یعنی محبوبہ کا، نام پکارتے ہو تو میں اُسی جگہ مر جاتی ہوں۔ وہ اس گانے میں کئی مرتبہ یہ بات دہراتی ہے، بالآخر عاشق کو یقین آ جاتا ہے کہ وہ مر گئی ہے، لہٰذا اب اُس کے لئے کسی اور محبوبہ سے عشق کرنے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں پہلی محبوبہ جو کہ بار بار اپنے فوت ہونے کا اعلان کر رہی ہوتی ہے، ناراض ہو جاتی ہے کہ اُس کی موجودگی میں عاشق کسی اور سے محبت کی پینگیں کیوں بڑھا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا معمہ ہے جو نسل در نسل عشاق کو درپیش ہے۔

مرنے کے کچھ طریقے اب متروک ہو چکے ہیں، پہلے عورتیں کوئی انوکھی چیز یا انہونا واقعہ دیکھ کر یکلخت کہہ اُٹھتی تھیں ”ہائے میں مر گئی“۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب اِن الفاظ کی جگہ سوشل میڈیا پر او ایم جی کا مخفف استعمال ہوتا ہے۔ البتہ ”ادھر مَر“ اور ”اُدھر جا کے مَر“ کے الفاظ اب بھی بعض ناقابلِ بیان صورتحال میں استعمال ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).