سوات خان اب قتل نہیں کرے گا


\"asif’’پہلا قتل میں نے اس وقت کیا جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔‘‘ اس نے گاڑی کے شیشے کا زاویہ دُرست کرتے ہوئے کہا۔ وہ میرا ردعمل دیکھنا چاہ رہا تھا۔

اس کا سپاٹ چہرہ سامنے کی طرف تھا۔ اس کی آواز میں ہلکی سی لرزش بھی نہیں تھی، میں نے بھی کوشش کی ہوگی کہ میرے چہرے سے کوئی جوابی ردعمل ظاہر نہ ہونے پائے۔ شاید مجھے اس کی اتنی دو ٹوک اور سفاکانہ بات پر اعتبار بھی نہیں آیا تھا۔

لیکن اس کو دیکھتے ہوئے یہ بات عین ممکن معلوم ہوتی تھی۔ بڑے بڑے ہاتھ پائوں، لمبا قد، چوڑا چکلا، بال بھی لمبے رکھے ہوئے تھے جو زلفوں کی طرح کان کی لووں سے ہو کر کندھوں تک آنے لگے تھے۔ وہ کسی بھی ہجوم میں نمایاں نظر آسکتا تھا۔ نوکری کی خواہش لے کر جب وہ پہلی بار میرے سامنے آیا تھا تو مجھے حیرت اس بات پر ہوئی تھی کہ وہ دھیمی آواز میں بول رہا تھا اور نیچی نظریں کیے میرے سامنے آیا تھا۔

اس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی تھا اور شناختی کارڈ بھی۔ مستقل پتے میں ضلع سوات کے ایک مقام کا نام لکھا ہوا تھا جو اتفاق سے میں نے دیکھا تھا اور وہاں کے پھلوں سے لدے ہوئے درخت یاد رہ گئے تھے۔ اس کا نام اسی کی طرح لمبا بلکہ دو منزلہ تھا۔ ’’سب لوگ ام کو سوات خان بولتا ہے۔ آپ بھی بولو۔۔۔‘‘ اس نے اپنا تعارف مختصر کر دیا۔

اس کے کاغذات پورے تھے، گاڑی چلانے کا تجربہ بھی تھا۔ کراچی کے راستوں سے بھی کسی نہ کسی حد تک واقف تھا۔ تنخواہ اور تین وقت کے کھانے پر راضی ہوگیا۔ یہیں نیچے کوارٹر میں رہ لے گا۔ ماں باپ، بیوی بچے سب گائوں میں تھے، یعنی ’’ملک‘‘ میں۔ سامان بھی تھوڑا سا تھا، اگلے دن لے کر آنے کے لیے تیار ہوگیا۔

پچھلا ڈرائیور چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اس وقت ضرورت تھی اور  یہ آدمی غنیمت معلوم ہوا۔ ہم نے اسے رکھ لیا، یا اس کے نقطۂ نظر سے یوں سمجھیے کہ اس نے ہمیں منظور کر لیا۔

گاڑی چلانے میں وہ محتاط تو نہیں تھا لیکن ٹوکنے پر بات سُن لیتا تھا اور رفتار کم کر لیتا تھا۔ یہ بات اس کی سمجھ میں ذرا مشکل سے آتی تھی کہ ساتھ چلنے والی ہر گاڑی سے آگے نکلنا ہمارے لیے لازم نہیں ہے اور نہ گاڑی چلانے کو کسی قسم کا مقابلہ سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ نماز پڑھنے کے نام پر دیر تک غائب نہیں ہوتا تھا مگر گاڑی کے شیشے پر قرآن شریف کی آیت کے طغریٰ والا اس نے اسٹیکر ضرور لگا دیا۔ صاف ستھرا رہتا تھا اور دھلے ہوئے کپڑے پہننے کا عادی تھا۔

باقی باتیں سب اپنی اپنی جگہ ٹھیک تھیں۔ لیکن ایک دن اس نے دفتر جاتے ہوئے مجھے یہ بات بتا دی۔

’’پہلا بندہ میں نے اس وقت مارا تھا جب میں چھٹی جماعت میں تھا۔۔۔‘‘ اس نے کہا اور کنکھیوں سے میری طرف دیکھنے لگا۔

’’ہمارے خاندان میں ان سے دشمنی تھی،‘‘ اس نے میرے پوچھے بغیر اس نے بتانا شروع کر دیا۔ ان لوگوں کے کسی فرد نے ان کے آبائو اجداد میں سے کسی کو مار ڈالا تھا۔ اس کے بدلے میں اس خاندان نے بھی ایک آدمی کو مار دیا۔ یوں یہ سلسلہ چل پڑا۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک۔

پھر بدلہ لینے کی باری آگئی۔ بدلہ نہ لیتے تو گائوں والے طعنے دیتے۔ چاروں پانچوں جتنے بھائی تھے سب اکٹھا ہوئے۔ انھوں نے طے کیا کہ ایک بھائی بدلہ لے گا۔ بدلے کی خاطر قربانی دے گا۔ قتل کے بعد اگر سزا ہوگئی تو باقی بھائی اس کی مدد کریں گے، اس کی پرورش کریں گے اور آگے چل کر اس کے بیوی بچے جو بھی ہوں گے، ان کا خیال رکھیں گے۔

قرعہ اس کے نام نکلا۔ یہ باقی بھائیوں سے چھوٹا بھی تھا۔ ان کے کہنے پر تیار ہوگیا اور بندوق تان کر چل پڑا۔ جب گھر واپس آیا تو دشمن کے خون میں ہاتھ رنگے ہوئے تھے۔ اسکول جانا چھوٹ گیا لیکن سارے گائوں میں سراونچا کرکے چلنے لگا۔

سزا سے بچنے کے لیے بھائیوں نے کراچی بھجوا دیا۔ مختلف کام کرتے کرتے وہ ٹرک چلانے لگا۔ باپ کا پھلوں کا باغ تھا، بھائی آسودہ حال تھے۔ ایک بھائی جس کی تعلیم بہتر تھی، خلیجی ملکوں کی طرف چلا گیا۔ وہاں سے پیسے بھیجتا رہا اور فون بھی کرتا رہا۔ ایک اور بھائی نے اس کے لیے مہنگے داموں ویزا خرید لیا اور یہ تھائی لینڈ، ملائیشیا میں قسمت آزمائی کرنے جا پہنچا۔ پھر باپ نے گائوں بلوا کر شادی کر دی۔

کالا پل سے اُتر کر شارع فیصل پر جاتے ہوئے اس نے مجھے اپنی زندگی کی ساری کہانی سنا ڈالی۔ سگنل آنے سے پہلے یہ کہانی مکمل بھی ہوگئی تھی۔ سگنل کُھلا، گاڑی چل پڑی۔ میرا دفتر قریب آ گیا تو کوئی جوابی ردعمل کرنے کی نوبت ہی نہ آئی۔

دفتر پہنچ کر اس نے گاڑی یوں روک دی جیسے ہر چیز معمول کے مطابق ہو۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ بات کو ذرا بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے، اس لیے کیا معلوم کہ یہ سب واقعی یوں پیش آیا بھی کہ نہیں۔

میرا مطلب ہے، ایک آدمی کو قتل کرنے کے بعد آپ پورے اطمینان سے کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلا رہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔

اس کے لیے واقعی کوئی بات نہیں۔

وہ زیادہ بولتا نہیں تھا، لیکن اس کے پاس فون بہت آتے تھے۔ فون اٹھا کر تیزی کے ساتھ بولنے لگتا۔ ذرا ذرا دیر بعد ’’اوکے، اوکے۔۔۔‘‘ ایک دن میں نے اس سے پوچھ لیا کہ یہ اوکے کیا ہے۔

تم کو ابی نئیں معلوم، اس نے اپنے معمول کے مطابق جواب دیا۔ یہ پشتو زبان کے الفاظ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے ہم ٹھیک اے، تم بھی ٹھیک رہو۔ بچے راضی ماضی، پیسے بھی جلدی بھیجو۔

میں لاجواب ہوگیا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ابھی تک صرف پہلے آدمی کی بات ہوئی ہے۔ باقی کا احوال بھی اس نے میرے پوچھنے سے پہلے سنا دیا۔

دوسرا آدمی سُپرہائی وے پر سہراب گوٹھ سے آگے مارا گیا۔ لیکن اس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا، یعنی اس کے مطابق وہ ٹرک چلایا کرتا تھا اور لمبے فاصلے کی ڈرائیونگ کرتا تھا۔ ایک مرتبہ سانگھڑ سے کراچی آیا تو لانڈھی سے آگے بہت ٹریفک ملا، اس میں پھنس گیا۔ دیر لگ گئی اور وہ تھک گیا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح ٹرک کو اڈّے پر لے جا کھڑا کر دے اور گہری نیند سو جائے، لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ جوں ہی ٹرک اس نے مقررہ جگہ پر روکا اور چابی مالک کے حوالے کی، مالک نے اگلے سفر کی خبر دے دی اور فوراً ہی چل پڑنے پر اصرار کیا۔ اس کے بقول اس نے بہت سمجھانا چاہا لیکن مالک مان کے نہیں دیا۔ چھتیں گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد جب اس نے ٹرک چلانا شروع کیا تو نیند کے جھونکے آرہے تھے۔ سہراب گوٹھ کے قریب ٹریفک آہستہ ہوا تو وہ اونگھ گیا اور اس نے پہلے سے کھڑے ہوئے ایک ٹرک میں اپنا ٹرک ٹکرا دیا۔ اس ٹرک کا کلینر کچل کر مر گیا۔ ڈرائیورکو بھی چوٹیں آئیں۔ زخمی یہ بھی ہوا اور کئی دن اسپتال میں رہا۔ اسپتال سے چھٹیّ لی تو ٹرک کمپنی نے خطرناک قرار دے کر نکال دیا۔ اس کے بعد سے وہ کراچی کے مختلف بنگلوں میں گاڑی چلانے لگا۔ کبھی ایک سیٹھ، کبھی دوسرا سیٹھ، اس نے مجھے بتایا۔

لیکن تیسرے آدمی کی جان نہیں لی۔ مارا تو زور سے تھا، لیکن اس کو چھوڑ دیا، وہ ایک دن بتانے لگا۔ بلوچ کالونی کے پُل سے خیابانِ اتحاد کی طرف جارہے تھے کہ محمود آباد کے قریب اس نے ایک جگہ دکھائی کہ یہاں اپنے پچھلے مالک کو تھپڑ مارا تھا۔ ’’ٹریفک زیادہ تھا۔ گاڑی لگ گیا۔ اس نے ام کو گالی دیا۔۔۔‘‘ اس نے زنّاٹے کا ہاتھ رسید کیا اور چابی وہیں بیچ سڑک میں پھینک کر گاڑی سے اُتر گیا۔

ظاہر ہے اس تھپڑّ کے ساتھ نوکری بھی ختم ہوگئی۔

میرے گھر پر جتنے عرصے اس نے گاڑی چلائی، ایسا کوئی ڈرامائی واقعہ نہیں ہوا۔ یعنی اگر آپ قتل کی واردات کے اعتراف کو ڈرامائی قرار نہ دیں۔ مجھ سے برابر وہ دھیمی آواز میں بات کرتا اور میرے بیوی بچّوں کے سامنے نظریں نیچی کیے رہتا۔ میرے دفتر کے لوگ مجھے بتایا کرتے کہ غصّے کا بہت تیز ہے۔ ذرا دیر میں بھڑک اٹھتا ہے اور مرنے مارنے پر تُل جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ایسا کوئی واقعہ میرے سامنے پیش نہیں آیا۔

الٹا یہ ہوا کہ میں نے دیکھا وہ اخبار سے دل چسپی لینے لگا، ایک آدھ باتصویر رسالہ ٹٹول کر دیکھنے لگا۔ سوات میں حالات خراب ہوئے تو وہ مضطرب ہوگیا۔ اس کے بھائیوں کے فون زیادہ آنے لگے۔ پتہ چلا کہ اس کے گھر کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے چھوٹے سے علاقے کا نام ملکی اور غیرملکی خبروں میں آنے لگا۔ حالات سنبھلے و وہ اپنے گھر والوں سے ملنے گیا۔

پھر ایک مرتبہ اس نے مجھے بتایا کہ اس کی بیوی نویں پاس ہے اور اسے لیڈی ہیلتھ ورکر بننے کا شوق تھا جوپورا نہ ہوسکا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تربیت کے لیے تیار کی جانے والی کتابوں کا ایک سیٹ میں نے اسے منگوا دیا تو وہ بے حد خوش ہوا۔ لیکن اس کی خوشی اس دن قابل دید تھی جب گائوں سے واپس آنے کے بعد اس نے مجھے بتایا کہ دشمنوں کی اگلی نسل سے بدلہ لینے اور قتل کے سلسلے کو جاری رکھنے کے بجائے اس نے ان لوگوں سے صلح کرلی ہے اور اس خاندان سے اپنے خاندان کا شادی کا رشتہ قائم ہوگیا ہے۔ اس کے ایک رشتے دار کی شادی اس خاندان کی لڑکی سے ہوگئی ہے۔

کچھ عرصے بعد وہ ہمارے ہاں سے نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ میں اب سوات میں ’’اپنا گاڑی‘‘ چلائوں گا، اس نے مجھے بتایا۔ بہت دن تک اس کی خبر نہیں ملی۔ پھر گھر والوں نے بتایا کہ اس کو دو ایک مرتبہ آس پاس کی گلیوں محلوں میں دیکھا گیا جہاں وہ شاید کسی کی گاڑی چلا رہا ہے۔ خود مجھے بھی شائبہ ہوا کہ جیسے اس کی یا اس جیسے کسی آدمی کی جھلک دکھائی دی ہے۔ مگر اس سے زیادہ نہیں۔ مجھے نہیں معلوم اب وہ کہاں ہے لیکن وہ جہاں کہیں بھی ہے سوات خان نے وہ راستہ بند کر دیا جس سے چل کر کوئی اور نوجوان اسی تکلیف دہ زندگی سے گزرتا جس کا عذاب وہ ساری عمر بھگتتا رہا۔

سوات خان اپنے ’’ملک‘‘ کی طرح آزاد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments