پاکستان کی کشمیر پالیسی: یوٹرن سے قلابازی تک


وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے گزشتہ روز نیویارک ٹائمز میں لکھے گئے ایک مضمون میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اس وقت تک بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا جب تک بھارتی حکومت ان آئینی شقات کو بحال نہیں کرتی جنہیں 5 اگست کو کسی مشاورت کے بغیر منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیاگیا تھا۔ اور کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم آج وزیر خارجہ نے اس شرط کو نرم کرکے اسے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے خاتمے اور کشمیری لیڈروں کی رہائی تک محدود کردیا ہے۔

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران عمران خان کا یہ سخت گیر مؤقف سامنے آیا ہے کہ انہوں نریندر مودی کی حکومت اور بھارت کے ساتھ بہت رعایت برت لی، مصالحت کی بہت کوششیں کرلیں، اب مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے۔ تاہم ان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کے ساتھ بدستور مذاکرات کو پاکستان کا واحد آپشن بتا کر خود اپنے ہی وزیر اعظم کی باتوں اور اعلانات کی ’تصحیح‘ کی ہے۔ پاکستان کے شہریوں سمیت دنیا کے ملکوں کو بھی اب یہ الجھن ہوگی کہ ان دونوں لیڈروں میں سے کس کی باتوں کو پاکستان کی سرکاری خارجہ پالیسی سمجھا جائے۔ شاید یہ توقع کی جائے گی کہ کوئی موقع دیکھ کر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے معاملہ پر کسی رائے کا اظہار کر دیں تاکہ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے متضاد بیانات کے باوجود دنیا کو یہ تسلی ہوجائے کہ درحقیقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نہج کیا ہو گی۔

ملک کے وزیر اعظم نے گزشتہ چند دنوں کے دوران بھارت اور اس کی حکومت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے ایک طرف بھارت میں انتہا پسند ہندو نظریہ کی بنیاد پر استوار نئی دہلی کی پالیسیوں کو بھارت کے سیکولر نظام کے برعکس قرار دیا تو دوسری طرف مودی حکومت کے جن سنگھی ہتھکنڈوں کو علاقے کے امن کے لئے مہلک بتایا ہے۔ عمران خان ایک سے زائد بار یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ برصغیر پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور کسی بھی وقت دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے کھڑی ہوں گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایسی صورت میں صرف اس خطے کا ہی نقصان نہیں ہوگا بلکہ پوری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔

 ایٹمی جنگ کے اندیشوں کو تکیہ کلام بنانے سے پہلے پاکستانی وزیر اعظم مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ بھارت پلوامہ کی طرح کے دہشت گردی کے کسی جعلی واقعہ کو عذر بناکر لائن آف کنٹرول پر جارحیت کرسکتا ہے لیکن پاکستانی افواج مستعد و چوکنا ہیں اور بھارت کی طرف سے پھینکی گئی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ اب ان کے وزیر خارجہ نے بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’ پاکستان کے پاس جنگ کا کوئی آپشن نہیں ہے‘۔

مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل میں تبدیل کرکے اور وادی کے شہریوں سے مواصلات اور رابطہ کی ساری ممکنہ سہولتیں چھین کر بھارتی حکومت نے انسانوں کے بنیادی حق پر کاری وار کیا ہے۔ اگر چہ کشمیر کو مکمل طور سے سیکورٹی فورسز کے حوالے کیا گیا ہے اور وہاں سے کسی بھی قسم کی کوئی خبر باہر نکلنے کے ہر امکان کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن کشمیری شہریوں کو جب بھی موقع ملتا ہےوہ احتجاج بھی کرتے ہیں اور بھارتی فورسز اپنی روایت اور طریقہ کے مطابق ان پر انسانیت سوز مظالم بھی کرتی ہیں۔ ان جھڑپوں میں نامعلوم تعداد میں شہری جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔ ہزاروں شہریوں کو قید کیا جاچکا ہے ۔ بھارتی حکومت ہر قسم کی مخالفانہ رائے کو ہر غیرقانونی اور غیر اخلاقی طریقے سے دبانے کا اہتمام کررہی ہے۔ حتی کہ کانگرس کے لیڈر راہول گاندھی کو بھی سری نگر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اس کے باوجود بھارتی حکومت نے اس دوران پاکستان کے خلاف سخت بیان بازی کرنے یا تصادم کی دھمکی دینے کی کوشش نہیں کی۔ 15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر دہلی کے لال قلعہ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی کشمیر پالیسی کو درست ضرور قرار دیا لیکن پاکستان کو نشانہ بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کے برعکس اسلام آباد کی طرف اس ماہ کے شروع سے ہی یہ شور مچایا جاتا رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی وقت تصادم ہو سکتا ہے۔ پہلے دہشت گردی کے بہانے حملے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تاہم گزشتہ چند دنوں سے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ایٹمی تصادم کے خطرے کو کھل کر بیان کرنا شروع کیا ہے۔

یوں لگتا ہے کہ پاکستانی حکومت نے کشمیر کے مسئلہ پر دنیا کو اپنی بات سننے پر مجبور کرنے کے لئے ہیجان خیز اور سنسنی سے بھرپور مؤقف اختیار کرنا ضروری سمجھا ہے۔ حالانکہ جنگ کی دھمکیوں میں سفارتی کامیابی کا امکان تو محدود ہی رہتا ہے لیکن ملکی معیشت اور ضروری سرمایہ کاری کا راستہ ضرور مسدود ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ طرز عمل معاشی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہی کہا جاسکتا ہے۔ شاید اسی لئے اب حکومت نے وزیر خارجہ کے ذریعے ’جنگ کوئی آپشن نہیں‘ کی پالیسی کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم اگر وزیر اعظم اب بھی کشمیر اور بھارت پر پرجوش تقریریں کرتے ہوئے تصادم اور ایٹمی جنگ کے خطرے کی گھنٹیاں بجاتے رہیں گے تو پاکستان کی خارجہ و سیکورٹی پالیسی کے بارے میں غیر یقینی موجود رہے گی۔ بھارت اس طرز بیان کو خاموش سفارت کاری میں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا۔ جیسے نریندر مودی نے امریکی صدر ٹرمپ پر واضح کیا تھا کہ علاقے میں جنگ کا خطرہ نہیں ہے، آپ پاکستان سے کہیں کہ وہ اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرے۔

گزشتہ ہفتے کے دوران پیرس میں جی ۔7 سربراہی ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ اور نریندر مودی کی 45 منٹ طویل ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے بعد ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنی ثالثی کی پیشکش یہ کہتے ہوئے خود ہی واپس لے لی تھی کہ ’مودی نے انہیں یقین دلایا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان باہمی معاملات خود ہی طے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آخر 1947 سے پہلے وہ ایک ہی ملک تھے‘۔ اس کے بعد انہوں نے یہ کہتے ہوئے ثالثی کی بات سمیٹ دی کہ اگر دونوں ملک ضرورت محسوس کریں تو ہم مدد کے لئے موجود ہیں۔ کشمیر میں جاری انسانیت سوز انتظامی جبر کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان بھی کردیا کہ ’مودی نے بتایا ہے کہ کشمیر میں حالات ان کی حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘۔

ٹرمپ سے یہ اعلان کروانے کے بعد مودی گہرے دوستوں کی طرح ان کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ تاثر قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے کہ امریکہ کو مودی کی کشمیر پالیسی سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے۔ سوچنا چاہئے کہ عمران خان سے ملاقات کے دوران کشمیر میں پریشان کن صورت حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ثالثی کی پیش کش کرنے والے ٹرمپ نے پیرس میں مودی سے آخر ایسی کون سی ’یقین دہانی‘ حاصل کی تھی جس کے بعد ان کی ساری پریشانی دور ہوگئی؟ کیا اب اس یقین دہانی کی اطلاع اسلام آباد تک بھی پہنچا دی گئی ہے کہ شاہ محمود قریشی یہ اعلان کررہے ہیں کہ پاکستان جنگ نہیں کر سکتا۔

نئی پاک بھارت جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ لیکن جنگیں کسی منصوبہ یا ارادے کے تحت شروع نہیں ہوتیں بلکہ کوئی اچانک سانحہ یا غلطی کسی بڑے تصادم کی وجہ بن جاتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے ایک دوسرے کے مدمقابل ملکوں کے لیڈر مسائل حل کرنے کے لئے جنگ کو آپشن کے طور پر زیر غور نہ لائیں۔ اسی طرح سفارتی اوربین الملکی معاملات میں جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ عمران خان جیسے مقبولیت پسند لیڈر سیاسی ضرورتوں کے تحت اپنے حامیوں کو خوش کرنے کے لئے تند و تیز لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں لیکن انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ بھارت کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے لوگوں کے جذبات ابھارنا اور عقل سے عاری بیان دینا کسی طور سوودمند نہیں ہوسکتا۔

عمران خان جس ممکنہ تصادم کے اشارے دیتے ہیں ، وہ لائن آف کنٹرول پر ہی وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ اس جنگ سے براہ راست لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف آباد کشمیری ہی متاثر ہوں گے۔ انہی کی زندگیاں داؤ پر لگیں گی اور املاک تباہ ہوں گی۔  بھارت نے اگر ’کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن‘ پر عمل کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کو اس کے جواب میں کشمیر میں ہی اپنی جوہری صلاحیت دکھانا پڑے گی۔ یعنی کسی بھی چھوٹی بڑی جنگ کا نشانہ کشمیری ہی بنیں گے۔ کشمیریوں کا سب سے بڑا ہمدرد ہونے کے ناطے پاکستان کو ایسی کسی بھی صورت حال سے بچنے کے لئے ہر کوشش کرنے کی ضروت ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے اعلان، صائب اور قابل قبول خارجہ پالیسی کی بنیاد نہیں بن سکتے۔

عمران خان کے جوشیلے بیانات کے مقابلے میں شاہ محمود قریشی کا نرم روی سے دیا گیا انٹرویو دراصل حکومت کی کشمیر پالیسی پر یو ٹرن لینے کی بجائے قلابازی کھانے کے مترادف ہے۔ اگرچہ جنگ سے گریز کے لئے یہ بہتر رویہ ہے لیکن اس کا ادراک حکومت کے سربراہ کو منہ سے الفاظ ادا کرنے سے پہلے ہونا چاہئے۔ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے ادا کیا ہؤا لفظ واپس نہیں ہوسکتے۔ خطا ہونے والے تیر سے تو شاید کوئی بڑا نقصان نہ ہو لیکن زبان کے گھاؤ بہت دیر تک مندمل نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali