کشمیر: بنیادی مسئلہ کیا ہے


یہ ایک بڑی ریاست تھی۔ جس میں موجودہ مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، جمّوں اور لدّاخ شامل تھے یعنی ایک طرح سے ایک پوراملک تھا۔

ہندوستان کی آزادی کی تحریک اُٹھی اور برطانوی حکومت پسپا ہونے لگی تو فیصلہ ہوا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان جبکہ ہندو اکثریتی علاقے ہندوستان کے حصّے میں آئیں گے۔

لیکن پھر 1947 ءمیں ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو اس وقت کشمیر کی پچانوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی، جسے منطقی طور پر پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن ریاست کا حکمران ایک سکھ راجہ ہری سنگھ تھا جس نے عوام کی رائے کے برعکس کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ کر لیا۔

پختون قبائل نے راولاکوٹ اور دوسرے علاقوں میں غاصب بھارتی فوج سے ایک حصے کو چھڑوایا جسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے۔

یہ جنگ قیام پاکستان کے فورًا بعد یعنی اُنیس سو اڑتالیس میں لڑی گئی جس میں پختون قبائل نے پاکستانی فوج کا بھرپور ساتھ دیا لیکن اکیس اپریل اُنیس سو اڑتالیس کو اقوام متحدہ نے تین نکات پر جنگ بندی کروائی۔

1۔ پاکستان اپنے لوگوں کو واپس بلائے۔

2۔ انڈیا کشمیر میں صرف ضرورت کے مطابق فوج رکھے۔

3۔ رائے شماری کے لئے کمیشن مقرر کیا جائے۔

اس کے بعد غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے لئے اقوام متحدہ کا پانچ رُکنی کمشن بنا جس میں کولمبیا، برما، چیکو سلواکیہ، بلجئیم، اور ارجنٹائن کے سفیر شامل تھے لیکن اس کمشن پر دونوں ملکوں کے اعتراضات سامنے آئے جس کے بعد یو این نے دوسرا کمشن بنایا مگر وہ بھی کوئی نتیجہ اخذ نہ کر سکا اور حالات جُوں کے تُوں آگے بڑھتے رہے حتٰی کہ اُنیس سو پینسٹھ میں دونوں ملکوں کے درمیان اسی تنازعے پر دوسری جنگ ہوئی جو تاشقند معاہدے کی شکل میں اختتام کو پہنچی۔

اُنیس سو نواسی میں بھارتی تسلط کے خلاف کشمیرمیں آزادی کی ایک توانا لہر اُٹھی لیکن کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے وھاں کے سیاستدان دو حصوں میں تقسیم رہے ایک طبقہ آزاد اور خود مختار کشمیر کا حامی جبکہ دوسرا طبقہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا حامی ہے۔

اُنیس سو ننانوے میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے تنازعے پر کارگل میں تیسری لڑائی ہوئی جو ایک بار پھر بے نتیجہ رہی۔ آب کے بار امریکہ نے دونوں ممالک کا تصفیہ کرایا

دوہزار تین میں پاک بھارت سیز فائر معاہدہ ہوا  لیکن دو ہزار سولہ میں ایک نوجوان برہان وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شھادت اور سری نگر سے چالیس کلومیٹر دور اس کے جنازے کے موقع پر بھارتی فوج اور عوام کے درمیان تصادم نے پھر سے آگ بھڑکا دی، گویا گزشتہ ستّر سال میں نہ ہندوستان اپنی ہٹ دھرمی سے ہٹا نہ پاکستان مظلوم کشمیریوں کی حمایت سے باز آیا اور نہ کشمیری عوام کا حوصلہ پست ہوا۔

اُنیس سو نواسی سے اب تک چالیس ہزار کشمیری جام شھادت نوش کر چکے ہیں۔ اس وقت کشمیر ریاست تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ 46 فیصد ، ہندوستان کے قبضے میں جبکہ 38 فیصد پاکستان اور 16 فیصد چین کے پاس ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیر ریاست میں مسلمان آبادی بڑی اکثریت ہے اس لئے ہندوستان استصواب رائے سے گریز کر رہا ہے۔

حال ہی میں نریندرا مودی نے آرٹیکل تین سو ستر کا خاتمہ کیا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی لیکن اس اقدام کے خلاف انسانی حقوق اور وکلاء تنظیمیں میدان میں آئیں۔

سب سے پہلے مشہور سماجی کارکن ایم ایل شرما اور کشمیری وکیل شاکر بشیر نے سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی جس کے بعد پیٹیشنز کی ایک قطار لگ گئی۔

ھندوستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے دو اور ججز کے ساتھ اس پیٹیشن کی سماعت کی اور کشمیری حکومت کو نوٹس بھیجا جس پر مودی حکومت کافی سیخ پا بھی ہوئی۔ اب اکتوبر میں بھارتی سپریم کورٹ کاپانچ رُکنی بینچ اس کیس کو سنے گا امکان ہے کہ اس پانچ رُکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس رنجن گوگوئی خود کریں گے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نریندرا مودی کے جابرانہ اقدام یعنی کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد ہندستانی حکومت کی اخلاقی پوزیشن بہت کمزور ہوچکی ہے جبکہ اسے ایک اعصاب شکن قانونی جنگ کا سامنا بھی ہے۔ اورپھر کشمیری عوام کی ایک توانا اور دلیر مزاحمت الگ سے درد سر بنی ہوئی ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).