’غدار ‘حامد میر اور ’محبِ وطن‘ فیس بُک دانشور


\"ali-raza\"وطنِ عزیز میں ایک طرف کہ جہاں غربت،جہالت، بجلی کا بحران،پولیو اور نا اہل سیاسی قیادت کی بہتات ہے وہیں دوسری طرف غداری اور کفر کی فتویٰ فیکٹریوں کی بھی افراط موجود ہے۔ماضی میں یہ فتوے زبانی کلامی یا لاؤڈ سپیکرز کی وساطت سے لگائے جاتے تھے لیکن دورِ حاضرمیں ان فتوؤں کے میڈیم نے بھی ارتقائی عوامل طے کرتے ہوئے جدت اختیار کر لی ہے۔آج کے دور میں ان فتوؤں کا سب سے بڑا پلیٹ فارم سوشل میڈیا ہے جہاں ہر کوئی بشمول راقم اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتا ہے۔

اس ملک میں سیاستدانوں، شاعروں، ادیبوں ، دانشوروں، تاریخ دانوں اور جدید رجحان کے مطابق صحافیوں پر بھی غداری کے فتوے صادر کئے جا چکے ہیں۔اگر سوشل میڈیا کے سقراطوں اور افلاطونوں کی جانب سے لگائے جانے والے ان فتوو ¿ں سے کوئی محفوظ رہے ہیں تو وہ لوگ جو اس وقت سنگین غداری کا مقدمہ بھگت رہے ہیں۔

انہی ’غداروں‘میں سے ایک نام معروف صحافی حامد میر کا ہے۔موصوف کا شمار ان صحافیوں میں ہوتا ہے جن کو سوشل میڈیا پر سب سے گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔19 اپریل 2014 کو کراچی میں جب حامد میر کوچھ گولیاں لگیں تو سوشل میڈیا پر اس ملک کی اکثریت نے اس واقعے کو ڈرامہ قرار دیا اور بجائے اس کے کہ اس افسوسناک واقعے کی مذمت کی جاتی ، حامد میر کے والد پروفیسر وارث میر مر حوم کی تصاویر بھی سوشل میڈیا کی زینت بنیں اور غدار کا بیٹا غدار جیسے کلمات کا بھر پور استعمال ہونے لگا۔

حال ہی میں ایک ٹی وی پروگرام میں حامد میراوربھارتی صحافی اوما شنکر کے درمیان بر ہان وانی اور بھگت سنگھ کے موازنے پر کافی \"hamid\"سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا جس میں حامد میر کا مو ¿قف یہ تھا کہ اگر بھگت سنگھ فریڈم فائیٹر تھا تو برہان وانی کو دہشت گرد کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ قطع نظر اس سے کہ حامد میر کا مؤقف درست تھا یا غلط، سوشل میڈیا پر اس حوالے سے زیادہ تر لوگوں کی رائے یہی تھی کہ برہان وانی کو ہیرو ماننا اس کی منافقت ہے ورنہ باطنی طور پر یہ غدار اور بھارتی ایجنٹ ہے۔

ابھی کل کی بات ہے حامد میر نے انگریزی زبان میں ایک ٹویٹ کیا جس کا ہو بہو متن یہ تھا:

Police sources in AJK claiming dead bodies of Indian soldiers near LOC not removed yet still visible video footage confirming these claims. At least 5 Indian soldiers killed and many injured in retaliatory response from Pakistan Army around 7:30 this morning\”.

 اسی ٹویٹ کا حامد میر کے کسی چاہنے والے نے اردو زبان میں ترجمہ مع حامد میر کی تصویر فیس بک پہ شیئر کردیا۔ مترجم نے killed کا ترجمہ ”جاں بحق“ کیا جس کا انجام میر صاحب کو گالیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا کیوں کہ سقراطوں اور افلاطونوں کا کہنا تھا کہ اس غدار نے ہندوؤں کی موت کے لئے جہنم واصل کا لفظ استعمال کیوں نہ کیا؟غیر مسلم کی موت پر جاں بحق کا لفظ کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟ ان ’فیس بکی‘ دانشوروں سے اتنا نہ بن پڑا کہ ٹویٹ کرنے والے کے اکاو ¿نٹ سے جا کر تصدیق ہی کر لیں کہ اس نے اپنی تحریر کس زبان میں لکھی ہے اور اس میں لکھا کیا ہے۔

حامد میر غدار ہے کیوں کہ وہ بلوچستان کے حوالے سے ایک مختلف نقطہ نظر رکھتا ہے، حامد میر غدار ہے کیوں کہ وہ بھارت سے خوشگوار تعلقات چاہتا ہے، حامد میر غدار ہے کیوں کہ وہ ملالہ کو قوم کی بیٹی مانتا ہے،حامد میر غدار ہے کیوں کہ اس کے والد کو بنگلہ دیشی حکومت کی طر ف سے سچ بولنے پر ایوارڈ دیا گیا تھا،حامد میر غدار ہے کیوں کہ وہ ایک آمر کے سامنے ڈٹ گیا تھا۔

اگر آئین اور قانون کی روشنی میں دیکھا جائے تو ان تمام وجوہات میں کوئی بھی وجہ ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر کسی شخص کو غدار قرار دیا جا سکے لیکن افسوس کہ کچھ بیمار ذہنیت رکھنے والے لو گ بنا تحقیق حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے رہتے ہیں۔

کسی شخص کے مؤقف سے متفق ہونا یا نہ ہونا ہر ایک کا حق ہے لیکن صرف اختلافِ رائے کی بنیاد پر کسی کی ذاتیات پر اُتر آنا، کسی کو غدار کہہ دینا یا کسی پر کفر کا فتویٰ لگا دینا کہاں کا انصاف ہے؟ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے آپ تحقیق پر مبنی دلائل کی بنا کسی بھی شخص سے اختلاف کر سکتے ہیں ۔ ایک متوازن اور مثالی معاشرہ اسی صورت قائم ہوسکتا ہے کہ ہم برداشت اور رواداری کے جذبات کو فروغ دیں لیکن یہاں تو بقول حسن نثار:

” اس معاشرے میں کوئی شخص اس وقت تک عظیم نہیں بن سکتا جب تک اس پہ کفر یا غداری کا فتوی نہ لگ جائے“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments