ہر پہر کا آسماں: ذرا آگے سبھی منظر کھُلے ہیں


مرزا غالب کو ظرفِ غزل کی تنگی کا شکوہ تھا اور علامہ اقبال بھی حرفِ راز شیئر کرنے کے لئے یہ شرط عائد کر گئے کہ ’خدا مجھے نفسِ جبرئیل دے تو کہوں‘۔ میرے دوست پروفیسر آصف ہمایوں نے رجحان ساز شاعر ہونے کا دعوی تو نہیں کیا، مگر مسئلہ اُس کا بھی وہی ہے جو غالب و اقبال کا تھا۔ اسی لئے تو وہ انسانی مشاہدے کے معلوم وسیلوں کا زادِ سفر اٹھائے بڑی مستعدی سے نامعلوم کا پیچھا کر رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ مسافتوں کی اس نیم آباد قلمرو کی بے زمین سرحدیں کسی موٹر وے کے سائن تک نہیں پہنچتیں۔ صرف انجانی پگڈنڈیوں کے ٹوئے ٹِبے ہیں اور احمد راہی کی بھولی بسری سی گونج کہ ’راہواں وچ ٹھیڈے کھان نظراں نمانیاں‘۔ مگر آصف ہمایوں کی فنکاری دیکھیں کہ اُس نے ٹھیڈے کھانے اور پھر چل پڑنے کے تجربے کو شعری روزنامچہ کا سرنامہ بنا لیا،جس کا سب ٹائٹل ہے ’ہر پہر کا آسماں‘۔

زمانی حوالے سے تو تخلیقی مسافتوں کے ٹوئے ٹبے بعد کا مرحلہ ہیں، لیکن ہمارے باہمی سفر کا آغاز سول لائینز کے اس کونے سے ہو گیا تھا جس مقام پر اسلامیہ کالج کی سڑک جی سی والے نیو ہاسٹل کے باہر لوئر مال سے جا لپٹتی ہے۔ یہ اِس لئے اہم ہے کہ قانون کی ایوننگ کلاس میں جب ہم پہلی بار ملے تو گلابی جاڑوں میں بھی آصف ہمایوں موٹی اندرونی تہہ والی چمڑے کی جیکٹ میں دھنسے ہوئے تھے،جسے دیکھ کر جو رسپروڈنس کے استاد نے طنز کیا ’آپ کو بہت سردی لگتی ہے نا‘۔ ’جی ہاں‘ آصف نے یہ جواب حیران کن غیر جانبداری سے دیا تھا۔ اسی طرح مَیں نے نا آشنا چہروں سے گھبرا کر پچھلے بنچ کی طرف مڑتے ہوئے جب آہستہ سے پوچھا کہ اب تک کتنا کورس پڑھ چکے ہیں تو جیکٹ پوش نے مسکرا کر کندھے اچکا دیئے، جیسے کہہ رہا ہو کہ مجھے کیا پتا یا یہ کہ اس سے آخر فرق ہی کیا پڑتا ہے۔

اُس دن کی مسافت مال روڈ کے انار کلی چوک تک رہی جہاں سے سیدھے ہاتھ کوئی تین سو قدم پر آصف ہمایوں نے سمن آباد موڑ کے لئے تانگہ پکڑا اور میں الٹی سمت میں دکانوں کی رونقیں دیکھتا ہوا موچی، مکلیوڈ، ٹیشن کی صدا کا پیچھا کرنے لگا۔ یاری کے باضابطہ نوٹیفکیشن میں چوبیس گھنٹے لگے جب کلاس ختم ہوتے ہی آصف کی دعوت پر ہم اُن دنوں کے حساب سے بائیں طرف کی تیسری دکان میں جا گھسے تھے۔ ٹیوب لائٹ کے نیچے سفید پیالوں میں گاڑھے دودھ والی کشمیری چائے جو میرے آبا و اجداد نے اننت ناگ چھوڑ نے سے پہلے کبھی نہ پی ہو گی۔ فی الحال بات وادی کے مسلمانوں کی نہیں، دو ہم عمر دوستوں کی ہورہی ہے جن میں سے سوشیالوجی کا گولڈ میڈلسٹ صبح کے اوقات میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھانے لگا اور برطانوی سفارتخانہ کی گٹ پٹ سے مسلح جناب شاہد ملک گورنمنٹ کالج میں انگریزی زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ ہو گئے۔

کالج، یونیورسٹی اساتذہ کو ہمارے پنجاب کے لوگ بلا لحاظ مذہب و نسل و تنخواہ پروفیسر صاحب کہتے آئے ہیں،بلکہ مخفف کے طور پر دیگر سول ا ور فوجی عہدوں کی طرح ’میج صاب، ڈاک صاب، پروفیس صاب‘۔ اِس کا کوئی اور فائدہ تو نہ ہوا، لاء کی کلاس میں کچھ نیم قانونی رعائتیں ضرور حاصل ہو گئیں۔ جیسے ایک استاد کی طرف سے،جو بعدازاں چیف جسٹس کے منصب تک پہنچے، کبھی کبھار یہ دعوت کہ سب کے سامنے آکر ذرا لیکچر دہرا دیجئے۔یوں ایک گھنٹہ بعد ہی دو پیریڈ کی حاضری لگوا لینے کا امکان پیدا ہو جاتا۔ کلاس سے کھسکنے کی اضافی کشش یہ تھی کہ گورنمنٹ کالج والے نوجوان نے سات ماہ کی رکی ہوئی تنخواہ یکمشت ملنے پر موٹر بائیک خریدلی اور یونیورسٹی کے پروفیسر صاب نے وہ صابن دانی کار جسے رواں رکھنے کے لئے ہمیں پہلی بار پرانے پرزوں والے بلال گنج کے مشرق مغرب کا پتا چلا۔

لاہور کی سڑکوں پہ ’تراپڑ تراپڑ‘ گھومنے کی کہانی ہے تو دلچسپ کہ اِن مکالمات افلاطون کے دوران آصف ہمایوں بیشتر وقت ریسیونگ اینڈ پہ ہوتے۔ ایک تو اس لئے کہ مَیں نے پنجابی محاورے کے مطابق، چند سال پہلے سے شاعری کو ’مونہہ شونہہ‘ مارنا شروع کر دیا تھا۔ دوسرے طبیعت مین وہ جولانی کہ آصف کی موٹر کی طرح اسپیڈ کا پیڈل تو ٹھیک ٹھاک تھا مگر بریکیں فیل اور کلچ وائر خدا جانے کب کی ٹوٹی ہوئی۔ میرے دوست کی علمیت، فکری بصیرت بلکہ روحانی پختگی ایک اور سطح کی تھی، چنانچہ کچھ عرصہ بعد ضیا دور میں فوجی حکومت اور عوام کی صف آرائی کے پس منظر میں کہا گیا میرا پھڑکتا ہوا صحافیانہ کلام سن سن کر بھی اُس کے تبصروں کی رفتار چار فقرے فی یوم سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بندہ کو یہ حکیمانہ نکتہ کسی نے بہت بعد میں سمجھایا کہ تخلیقی ذہن کے چپ چپیتے لوگ اپنی مرضی سے بحث ہارتے اور مد مقابل کا دل جیت لیتے ہیں۔

اگلے ڈرامائی سین کی جھلک کے لئے مجھے گورڈن کالج راولپنڈی کے اُس ڈائیننگ روم کا پردہ اٹھانا پڑے گا، جہاں ایک دن کھڑکی سے نیلے درختوں کے تازہ پتے دیکھ کر میں نے اپنے سینئر سید وزیر الحسن سے ذرا ترنگ میں کہہ دیا کہ نقوی صاحب، آج صبحِ بہار کا نقشہ ہے۔ ’یا بہار صبح کہہ لیجئے‘ یہ تھا مخصوص لہجہ کا جواب، جسے سن کر منہ سے نکلا ’سر، آپ ہر بات کا جذر نکال دیتے ہیں‘۔ لیکن ڈائیننگ روم کی سٹیج پر، جسے سب نے ہمیشہ پروفیسرز میس کہا، فی الوقت کھیل کا مرکزی کردار اردو ادب کا یہ شریف النفس استاد نہیں۔ نہ ہی واقعات کا وہ تسلسل جس نے بطور مدرس ولائت میں ’اعلی تعلیم‘ کے بعد مجھے دوبارہ آصف ہمایوں سے یوں ملوایا کہ اُس کا سفینہء غم دل کسی مرغِ باد نما کے بغیر پنجاب کی کئی خشک گودیوں کا چکر کاٹ کر میرے ساتھ ہی راولپنڈی کی تعلیمی بندرگاہ پہ لنگر انداز ہو گیا۔

یہاں تک تو ڈرامہ ہے اوپری سطح کا جسے میں نے ہی نہیں ، پرنسپل عزیز محمود زیدی، وائس پرنسپل مطیع اللہ خان، توصیف تبسم، مقصود جعفری، مرزا حامد بیگ اور ’ایکس افیشو‘ پروفیسر شاہد مسعود سمیت میس میں چائے کے خم لنڈھانے والے سبھی ناظرین نے دیکھا، مگر ایک کھیل پردے کے پیچھے بھی ہوا کرتا ہے۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ آج سے نوے سال پہلے اس تاریخی کالج میں ٹی بوائے کی نوکری شروع کرنے والے چاچا زمان نے کمنگ صاحب اور سٹورٹ صاحب کے دور کو یاد کرتے ہوئے کئی بار پروفیسرز میس کے ’پکی تھاں‘ ہونے کا اشارہ دیا تھا۔ خاص طور پہ کالج روڈ والے عقبی گیٹ کا نیم دائرہ جس کے نیچے تقسیم کے فسادات کے دوران ایک سردار صاحب کا گھوڑا دفن ہوا۔ اپنی کہوں تو مَیں نے خود میس کی بیک اسٹیج پر انسانی شکل کے ایک جن کو سگریٹ پیتے،شعر سناتے اور مُوڈ ہو تو قہقہہ لگاتے دیکھا ہے۔

آفتاب اقبال شمیم نام کے اِس جن کا ہر سال دو سال بعد کوہ قاف پھلانگ کر پنڈی سے پیکنگ یونیورسٹی پہنچ جانا تو سب کی سمجھ میں آتا ہے اور یہ بھی کہ اس تخلیقی جن کی جان کسی دور دراز محل میں لٹکے ہوئے پُراسرار پنجرے کے طوطے میں نہیں، بلکہ اُس کی نظموں میں ہے۔مَیں نے یہ نتیجہ کیسے نکالا، یہ بتا نے کی کوشش تو کر سکتا ہوں، پر مجھ سے ’جمال یار کا دفتر رقم نہیں ہوتا‘۔ بس آفتاب شمیم کے اولین مجموعہ کا یہ پہلا اعلان نامہ پڑھ لیجئے کہ ’میرا حافظہ میری فنا اور بقا کا حوالہ ہے اور میری تاریخ اس فنا و بقا کی جدلیت کی دستاویز۔ ایک مسلسل تجربہ جو ماضی سے مستقبل کی روشنی تلاش کرتا ہے اور مجھے میرے تصرف میں رکھتا ہے، میری آزادیوں کو مشروط کرتا ہے اور میرے امکانات کا رخ ایک طے شدہ راستے کی جانب موڑتا رہتا ہے۔ مَیں اِس تجربے کی دریافت ہوں اور اِسی رفتہ کا آئندہ ہوں‘۔

اگر اپنے سماج کی روایتی ٹرمینالوجی استعمال کروں تو آصف ہمایوں اور مجھ پر اِس جن کا سایہ ایک ہی وقت میں پڑا تھا، لیکن میں ڈر گیا۔ بی بی سی سے وابستگی کے دوران میرے اندر کا آسیب انگریز جن مولویوں نے پہلے ہی نکال دیا تھا۔ یوں اِس بچے کھچے ڈھانچے میں ایک اینگلو انڈین بد روح رہ گئی جو لیکچر تو انگریزی میں دینا پسند کرتی ہے، مگر آلو انڈہ پکانے کی ترکیب صرف اردو میں بیان کر سکتی ہے۔ آصف ہمایوں کو قابو میں رکھنے کے لئے جِن نے کہیں زیادہ زور سے جپھہ مارا، اتنے زور سے کہ اُس نے ’نا دریافت شدہ اسرار کے سمندر میں تیرتے ہوئے،اوجھل ہوتے ہوئے، ابھرتے ہوئے جزیرے‘ نہ صرف خود دیکھ لئے بلکہ آصف کو بھی چپکے سے وہ انفرا ریڈ عینک تھما دی جو اتھاہ اندھیرے میں دور تک کا مشاہدہ کر لینے کی خاصیت رکھتی ہے۔

اس سے یہ نہ سمجھ لیجئے کہ پروفیسر آصف ہمایوں نے شاعری کی مسافت میں جو ’ہر پہر کا آسماں‘ دیکھا وہ کسی اور کی آنکھوں سے تھا ۔ ایسا ہر گز نہیں کیونکہ مصنف کے اپنے الفاظ میں ’میں نے اپنے شعور کی جس اقلیم میں اپنی عمر کا بیشتر حصہ گزارا ہے اس میں ایک ڈرا ڈرا سا ہجر ہمیشہ میرا ہمسفر رہا ہے۔مَیں نے شائد محبت آشنا دنوں کو حرز جاں بنا لیا ہے، لہٰذا اپنی فکر کی راہیں متعین کرنے میں اس ہجر کی اہمیت کو نظر انداز کرنا میرے لئے قدرے مشکل ہے۔ا دل و چشم کے راستوں سے در آنے والا یہ ہجر، یہ بنجارہ، گو میری نظر میں آباد حسن کے علاقوں سے سرسری گزرا، میرے دل کے لہو میں ضرور شامل رہا ہے،جس سے میرے وجود کے جذبے سیراب ہوئے ہیں۔ تاہم اس کی اصل سے میری جان پہچان محض واجبی سی رہی ہے‘۔

آصف ہمایوں کے شعری مجموعہ کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھیں تو شاعر کی طرح آپ بھی ’ہر پہر کا آسماں‘ دیکھنے لگتے ہیں۔ پھر بھی انفرا ریڈ عینک کے بغیر پتا نہیں چلتا کہ آپ کے آگے آگے جو دو سوٹڈ بوٹڈ ہیولے ٹوئے ٹِبوں میں گرتے پڑتے چل رہے ہیں اُن میں سے جن کون سا ہے اور چمٹا ہوا کسے ہے۔ دھُونی دھمانے اور ڈولی ’کھڈانے‘ والے پروفیشنل اِن موقعوں پہ پبلک سروس کمیشن کی طرح صرف مشہور مشہور سوال پوچھا کرتے ہیں، جیسے ’اوئے جو کوئی بھی ہے، ظاہر ہو جائے‘۔ اب سوال کرنا یا نہ کرنا، آپ کے اختیار میں ہے۔ مَیں تو یہ مجموعہ چوتھی بار پڑھ رہا ہوں، کیونکہ مجھے بعض شعروں کے تیور بہت خوش آئند لگے۔

بنام زندگی ہم پر کھُلے ہیں

یہ جتنے روشنی کے در کھُلے ہیں

یہاں اک روک ہے حد نظر کی

ذرا آگے سبھی منظر کھُلے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).